حارث قدیر
بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں جماعت اسلامی نے پابندی ہٹائے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے جماعت کو ایک جمہوری اور پرامن مذہبی سیاسی جماعت قرار دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ جماعت اسلامی کا کسی انڈر گراؤنڈ یا عسکری تنظیم سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا اور نہ ہی جماعت اسلامی کی اپنی کوئی عسکری تنظیم رہی ہے۔
منگل کے روز بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کی جانب سے جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر پر چھاپے مارے جانے کے بعد جماعت کے 3 سابق امیروں نے ایک مشترکہ پریس ریلیز جاری کی ہے۔ غلام محمد بھٹ (جو 1985ء سے88ء، 1997ء سے 2000ء، 2000ء سے 2003ء اور 2015ء سے 2018ء کے دوران مجموعی طور پر 4 مرتبہ جماعت اسلامی کے امیر رہے ہیں)، شیخ محمد حسن (جو 2006ء سے 2009ء اور 2009ء سے 2012ء تک دو مرتبہ امیر رہے ہیں) اور محمد عبداللہ وانی (جو 2012ء سے 2015ء تک امیر جماعت رہے ہیں) نے یہ مشترکہ پریس ریلیز جاری کی۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ (بھارتی زیر انتظام) جموں کشمیر میں 1989ء سے شروع ہونے والی عسکریت پسندی کے بعد 1990ء میں جماعت اسلامی جموں کشمیر پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ جماعت اسلامی نے 1997ء میں دوبارہ اپنے کیڈر کو اکٹھا کیا اور باراں پتھر باٹامالو سرینگر میں ہیڈکوارٹر قائم کر کے سرگرمیوں کا آغازکیا۔ 1998ء میں پریس کانفرنس کے ذریعے امیر جماعت غلام محمد بھٹ نے پالیسی اور پروگرام واضح کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ جماعت ایک پر امن، جمہوری اور سیاسی مذہبی تنظیم ہے جو شفاف انداز میں کسی انڈر گراؤنڈ یا عسکری تنظیم کے ساتھ بغیر ظاہری یا خفیہ تعلق کے کام کر رہی ہے، جماعت کا کوئی اپنا عسکری فرنٹ بھی نہیں ہے۔ حکومت اور سکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے لگائے گئے تمام تر الزامات کی سختی سے تردید کی گئی تھی۔
یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ جماعت اسلامی نے کبھی بھی کسی غیر قانونی یا کسی ایسی سرگرمی کی حمایت نہیں کی جو کہیں بھی کسی خلفشار کا باعث بنی ہو۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس وقت صحافیوں کے تمام تر سوالات کے جواب دیکر جماعت کی قیاد ت نے یہ واضح کر لیا تھا کہ جماعت ایک پر امن، جمہوری اور شفاف تنظیم ہے جو اسلامی تعلیمات کو عوام الناس تک ایک سماجی خدمت اور انسانیت کے ناطے پہنچا رہی ہے اور بغیر کسی رنگ، نسل، علاقے کے امتیاز اور لالچ کے معاشی اور تعلیمی معاونت عام عوام کو فراہم کر رہی ہے، یہ تمام سرگرمیاں قانونی ذرائع سے حاصل کردہ وسائل سے کی جا رہی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ تمام تعلیمی سرگرمیاں ماڈرن ٹرینڈز اور جدید سائنسی ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے تحت ہی کی جا رہی ہیں۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جماعت نے کبھی بھی احتجاج کی سیاست پر یقین نہیں کیا، نہ ہی ایسے طریقہ کار کا انتخاب کیا جس کی وجہ سے لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہو یا زمین پر کوئی انتشار پھیلے۔ جماعت نے ہمیشہ پروپیگنڈہ کے طریقہ کار کو استعمال کیا اور زبانی یا تحریری طریقہ کو اپنے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کیا۔ اس سب کے باوجود جماعت پر پابندی عائد کی گئی اور اسے ایک غیر قانونی تنظیم قرار دیا گیا۔ بے شمار ایسے الزامات عائد کئے گئے ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور حقیقی صورتحال کو نظر انداز کر کے یہ الزامات لگائے گئے ہیں۔
پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جماعت اسلامی جموں کشمیر کی تقسیم سے پہلے قائم کی گئی تھی۔ جماعت اسلامی کسی سیاسی ایشو کی پیداوار نہیں ہے اور نہ ہی اس نے ابھی تک ایسا کوئی ایشو پیدا کیا ہے۔ اگر کوئی عوامی سیاسی ایشو ابھرا بھی تو اس میں جماعت اسلامی بھی متاثر ہوئی کیونکہ عوام کی ایک بڑی تعداد جماعت کے ساتھ تھی۔ جماعت اسلامی نے حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں سے 2008ء میں علیحدگی اختیار کر لی اور اس کے بعد کسی کے ساتھ بھی کوئی تعلق قائم نہیں رہا ہے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ بذریعہ پریس کانفرنس عوام کے نوٹس میں یہ بات لائی جا رہی ہے کہ جماعت نے ہمیشہ امن اور جمہوریت کا راستہ اختیار کیا ہے اور کسی بھی طرح کی بد امنی اور امن عامہ میں خلل یا ریاست کی سکیورٹی کیلئے خطرے کا باعث بننے والی کوئی سرگرمی نہیں کی۔
پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ انسانی حقوق کا احترام کیا اور کبھی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی۔ جماعت نے کبھی بھی کسی طرح کے تشدد یا تشدد آمیز طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ پر امن رہی اور پر امن جمہوری طریقوں کی حمایت کی۔
پریس ریلیز کے آخرمیں کہا گیا ہے کہ بذریعہ پریس کانفرنس انتہائی احترام کیساتھ یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ جماعت کو اس کی اصل حالت میں جانا جائے اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ جماعت سے پابندی ہٹائی جائے گی اور انسان دوست اور مذہبی سیاسی تنظیم کو آزادانہ طور پر انسانیت کی خدمت کیلئے کام کی اجازت دی جائیگی تاکہ جماعت اپنی سماجی خدمات کو جاری رکھتے ہوئے جموں کشمیر ریجن میں معاشرے کی وسیع تر پرتوں کی خدمت کر سکے۔
یاد رہے کہ جماعت اسلامی ہی وہ تنظیم ہے جس نے نہ صرف افغان ’جہاد‘ میں بلکہ بعد ازاں جموں کشمیر میں عسکری سرگرمیوں کو مذہبی بنیادوں پر منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ’حزب المجاہدین‘ کے نام سے آج بھی جماعت اسلامی نہ صرف پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں چندہ جمع کرتی ہے بلکہ عسکری سرگرمیوں میں کامیابیوں کے دعوے کرتی ہے۔ بے شمار نوجوان پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی ایسے ہیں جنہیں حزب المجاہدین کے پلیٹ فارم سے بھارتی زیر انتظام حصہ میں بھیجا گیا۔ اس کے علاوہ ابھی بھی جماعت اسلامی ’برہان وانی‘ کو بطور حزب کمانڈر کیش کروانے میں سرگرم عمل ہے۔
تاہم مذہبی جماعتوں نے جہاں سامراجی ایما پر دہشت گردی کو ایک کاروبار کے طور پر استعمال کیا اور معصوم نوجوانوں کو سامراجی فوجوں کے ہاتھوں قتل ہونے کیلئے جھونکا اور بڑے پیمانے پر نوجوانوں کا قتل عام کروایا وہاں اپنے کاروبار کو جاری رکھنے کیلئے وہ کسی بھی نوعیت اور حد تک جانے کیلئے ہمیشہ تیار رہی ہیں۔
پاکستان میں یہ مذہبی جماعتیں سیکولر ازم کے خلاف خون کے آخری قطرے تک لڑنے کے دعوے اور اعلانات کرتی ہیں جبکہ بھارت میں سیکولرازم کے دفاع کیلئے خون کے آخری قطرے تک لڑنے کے اعلانات کئے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حکمران طبقات ہمیشہ تعصبات اور فرقہ واریات کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں اور مذہبی اور فسطائی تنظیمیں حکمران طبقات کے اس کام میں سب سے اہم ہتھیار کے طو رپر کام کرتی ہیں۔