فاروق طارق
15 اگست کو کابل پر ایک گولی چلائے بغیر قبضہ کرنے کے غیر معمولی واقعہ کے بعد طالبان اب ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔
صدر ملا برادر کو چن لیا گیا ہے۔ اداروں کے ہیڈ کوارٹرز پر کنڑول حاصل ہو گیا۔ ایک جگہ جو ابھی ان کے کنٹرول میں نہیں وہ کابل ائیرپورٹ ہے جہاں امریکی ائیر فورس کے ایک جہاز کے اڑنے سے قبل کی ایک دل ہلا دینے والی ویڈیو وائرل ہے۔ جہازجوں ہی ٹیک آف کے لئے آگے بڑھتا ہے، ساتھ ساتھ سینکڑوں لوگ بھاگ رہے ہیں۔ کچھ چلتے جہاز پر چڑھنے کی کوشش میں ہیں۔ کچھ جہاز سے لٹکے اوپر گئے اور پھر گر گئے۔
اب تک ائیرپورٹ پر 5 افراد کی ہلاکت کی خبر ہے۔ ائیرپورٹ ناٹو کے کنٹرول میں ہے۔ ہزاروں افرادوہاں پہنچ کر ملک چھوڑنے کی جستجو میں ہیں۔ ائیرپورٹ کو اب دو روز کے لئے ہر قسم کی کمرشل پروازں کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔
افغان عورتوں کے جو بھی انٹرویوز الجزیرہ اور بی بی سی نشر کر رہا ہے ان سے طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے عورتوں کو جو خطرات لاحق ہیں اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہر عورت طالبان کے عورت مخالف بیانیہ کا ذکر کرتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔
(آج روزنامہ جدوجہد کے شمارے میں یاسمین افغان کا مستقل کالم ’کابل ڈائری‘ بھی اسی موضوع پر ہے: مدیر)۔
سوال یہ ہے کہ اشرف غنی حکومت ایک گولی چلائے بغیر کس طرح طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال گئی؟ اس کا فوری جواب کسی ایک وجہ سے نہیں دیا جا سکتا۔ مگر کچھ وجوہات کاذ کر کیا جا سکتا ہے۔
افغان حکومت بظاہرایک تھی مگر اس کے اندر کئی حکومتیں تھیں، حکومت مختلف گروہوں میں تقسیم تھی۔ کوئی ایک غالب گروہ نہ تھا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ پبلک میں مسکراتا اور اندر سے خار کھاتا تھا۔
اس عمل میں تیزی اس وقت آئی جب 2018ء میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ فیصلہ سناتے امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے کا حکم سنا دیا، دوحہ مذاکرات شروع کر دئیے اور اپنے خاص نمائندہ خلیل زادہ کو بھجوا دیا۔ طالبان نے اس کی آڑ میں اپنے بندے رہا کروا لئے مگر اپنی دہشت گرد کاروائیاں بند نہ کیں۔
دوحہ مذاکرات ایک مخلوط حکومت کی بجائے طالبان کے براہ راست اقتدار کا ذریعہ بن گئے۔ ان کو موقع مل گیا کہ مذاکرات بھی جاری رکھیں اور اقتدار سنبھالنے کی تیاری بھی۔
اشرف غنی نے فرار کے بعد کہا کہ کابل کو خون ریزی سے بچانے کے لئے وہ اقتدار چھوڑ گئے۔ یہ توفیس سیونگ کے لئے ایک پبلک بیان تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کابل سے پہلے دیگر مقامات پر بھی ان کی افواج نے کوئی مقابلہ نہ کیا۔ یہ طے لگتا تھا کہ طالبان کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی۔
ابھی تک طالبان کے ترجمان انتہائی محتاط زبان استعمال کر رہے ہیں۔ کابل کے شہریوں کو پرسکون رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ عورتوں کو یقین دلا رہے ہیں کہ ان کی تعلیم اور نوکریوں کو کوئی خطرہ نہیں اور یہ کہ وہ معمول کے مطابق کام کر سکیں گی، صرف انہیں سکارف لینا ہو گا…لیکن جن صوبوں پر پہلے سے قبضہ ہو چکا ہے، وہاں سے اطلاعات ہیں کہ طالبات کو یونیورسٹی دروازوں سے واپس بھیجا گیا اور ٹیچرز کو بھی ابھی تعلیمی اداروں میں نہ آنے کی ہدائت کی گئی ہے۔
کچھ علاقوں سے خبریں ہیں کہ گھر گھر ان کو تلاش کیا جا رہا ہے جو این جی اوز سے منسلک تھے یا سرکاری نوکریاں کر رہے تھے۔ کچھ گرفتاریوں کی خبریں بھی ہیں۔ صورتحال ابھی واضع نہیں ہے۔
طالبان ترجمان ابھی بڑی نرم گفتگو کر رہے ہیں کیونکہ ابھی ریاست کا کنٹرول کسی بڑی مزاحمت کے بغیر کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا ہمیشہ آمرانہ حکومتیں منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کے بعد کرتی ہیں۔ حقیقی جمہوریت کی بحالی، کرپشن کا خاتمہ اور تین ماہ کے اندر انتخاب کرانے کا وعدہ کیا جاتا ہے، سب کچھ مخالفین کو ٹھنڈا کرنے اور اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے۔ پھر تھوڑا وقت نکالنے کے بعد ان کا حقیقی چہرہ اور سیاسی پروگرام اور حکمت عملی سامنے آ جاتی ہے۔پھر مخالفین کو اکثر اوقات ہمیشہ کے لئے ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے۔
طالبان ابھی تک سب کو عام معافی کی نوید سنا رہے ہیں لیکن چند دنوں اور ہفتوں کے بعد ان کے پر نکلنے شروع ہوں گے۔ عورتیں، مذہبی اقلیتیں اور مخالف سیاسی دھڑے سخت قسم کی سزاؤں اور رویوں کا شکار ہوں گے۔
پاکستان کی حکومت نے ابھی تک افغانستان میں طالبان کی فتح پر چپ سادھ رکھی ہے لیکن یہ ضرور کہا جا رہا ہے کہ طالبان کی جیت بھارت کی شکست ہے۔ خاص طور پر اس کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ بھارت کو اسکے یوم آزادی کے روز 15 اگست کو یہ“تحفہ”دیا گیا ہے۔ کچھ اسے کشمیر میں افغانستان بنانے کی جانب قدم قرار دے رہے ہیں۔
جس طرح 1996ء میں طالبان کی حکومت کو پاکستان سمیت صرف تین ملکوں نے تسلیم کیا تھا اب بھی شائد پاکستان ان پہلے ملکوں میں شمار ہو گا جو افغانستان میں طالبان کی حکومت کو قانونی قرار دے کر تسلیم کریں گے۔ طالبان کا ایک 10 رکنی وفد اس وقت پاکستان میں اس مقصد کے حصول کے لئے موجود ہے۔
اسی قسم کے اشارے چین اور روس دے رہے ہیں۔ جو رویہ پاکستان طالبان کے ساتھ بھارت کو ذہن میں رکھ کر روا رکھ رہا ہے وہی رویہ چین اور روس امریکہ کو ذھن میں رکھ کر اختیار کئے ہوئے ہیں۔
طالبان کی جیت پر امریکی سامراج کی جو عالمی سطح پرتاریخی بے عزتی ہوئی ہے اس کا موازنہ شائد ویت نام سے امریکی افواج کی واپسی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس پر طرہ امتیاز یہ کہ جو بائیڈن کی 8 جولائی کی پریس کانفرنس جس میں موصوف بار بار کہ رہے تھے کہ امریکی افواج کی واپسی سے طالبان کو اقتدار نہیں ملے گا وہ افغان افواج کی امریکی ٹریننگ پر فخر کر رہے تھے کہ 3 لاکھ افغان افواج کسی صورت طالبان کی 75 ہزار کی نفری سے شکست نہیں کھائیں گے۔
امریکی سامراج شائداب چند ہفتوں سے آگے دیکھنے کی قابلیت سے محروم ہو چکا ہے۔ جس ملک کا صدر پانچ سال تک ٹرمپ جیسا پاگل شخص رہ چکا ہو اس کی دانشوارانہ پستی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی دنیا بھر کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملیاں ناکام ہو رہی ہیں۔
افغانستان نے امریکی سامراج کی ساکھ کی جو دھجیاں اڑائی ہیں، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ یورپین یونین سے لیکر خود امریکہ کے اندر سے اس کی افغان پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ طالبان کا اقتدار ابتدائی استحکام کے بعد اسلامائزیشن کے اپنے حقیقی گلوبل ایجنڈا کو سامنے لائے گا۔ یہ اب آسانی سے اقتدار چھوڑنے والے نہیں۔ ایران میں ملاؤں کی حکومت کو 41 سال ہو گئے ہیں۔ تمام تر پابندیوں کے باوجود وہ ابھی تک قائم دائم ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت بھی فوری ختم ہونے والی نہیں، لیکن جب یہ اپنے سیاسی ایجنڈا کو دوسرے علاقوں اور خاص طور پر پاکستان میں پھیلانے کی کوشش کریں گے تو انہیں شدید اندرونی و بیرونی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ابھی اقتدار دو دن کا ہے۔ کوئی بات بھی یقینی نہیں لیکن جو رحجانات نظر آ رہے ہیں اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ طالبان کا اقتدار دنیا بھر کی ترقی پسند قوتوں کے لئے بری خبر ہے۔ ہمیں لازمی طور پر افغان عوام کے ساتھ یک جہتی کی عملی شکلیں سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ افغان عورتوں کو ہر ممکن سپورٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اب طالبنائزیشن کا جواب ملکی کے ساتھ ساتھ ریجنل اور عالمی سطح پر دینے کی ضرورت بھی ہے۔