یاسمین افغان
1996ء سے 2001ء تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران اس گروہ نے افغان عوام کے خلاف گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا، افغان خواتین اپنے گھروں تک محدود اور عوام سے پوشیدہ تھیں۔
طالبان کے ایک رکن کا خواتین ڈاکٹروں کے ساتھ ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا ہے جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ انہیں (خواتین ڈاکٹرز کو) خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے اور کام بھی جاری رکھنا چاہیے کیونکہ معاشرے کو انکی ضرورت ہے۔ طالبان نے سرکاری ملازمین سے کہا ہے کہ وہ اپنے دفاتر میں واپس آئیں اور کام جاری رکھیں اور یہ کہ ان کی کسی قسم کی کوئی حد نہیں ہو گی لیکن لوگ اس وقت شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور ان پر اعتماد نہیں کرنا چاہتے کیونکہ بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ بین الاقوامی انخلا مکمل ہونے کے فوری بعد طالبان ان کی شناخت کریں گے اور ان کا سراغ لگائیں گے۔
ایک سرکاری ملازم ناجیہ (فرضی نام) نے کہا کہ ”میں اگلے چند دنوں تک انتظار کروں گی اور دیکھوں گی کہ حالات کیسے چل رہے ہیں اور اپنے خاندان سے مشاورت کے بعد پھر اپنے دفتر میں دوبارہ جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کروں گی، حالانکہ طالبان نے کہا ہے کہ خواتین کام کر سکتی ہیں لیکن ان کے سفاکانہ ماضی کے بعد کیسے یقین ہو سکتا ہے۔“
2 دن پہلے ایک نجی ٹی وی چینل پر خاتون اینکر نمودار ہوئی اور آج سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹیلی ویژن چینل ’طلوع نیوز‘کی ایک خاتون اینکر نے ایک طالبان رکن سے انٹرویو کیا۔ یہ بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن ہے۔
کابل کے ضلع خیرخانہ سے تعلق رکھنے والی 35 سالہ خطیرا (فرضی نام) نے کہا کہ ”دو دہائیاں پہلے یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن اب ہم طالبان کے دور میں ایک خاتون میزبان کو اسکرین پر دیکھ رہے ہیں لیکن میرے خیال میں ہمیں خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کون جانتا ہے کہ ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔“
طالبان کی جانب سے بار بار نشریات کے ذریعے اعلان کئے گئے ہیں کہ سرکاری ملازمین کے لیے عام معافی ہے اور ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن پھر بھی لوگ خوفزدہ اور پریشان ہیں۔
افغان پارلیمنٹ کی رکن شگفتہ نورزئی نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا کہ ”مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں پچھلے کچھ دنوں میں بہت تیزی سے بوڑھی ہوئی ہوں۔“
کچھ افغان ناراض ہیں کہ طالبان کیوں کہتے رہتے ہیں کہ انہوں نے تمام افغانوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔
کابل کے مغرب کی رہائشی 47سالہ نادیہ کا کہنا ہے کہ ”مجرم ہمارے لیے عام معافی کا اعلان کر رہے ہیں جبکہ انہیں خود معافی مانگنی چاہیے۔“
افغانستان 2001ء کے بعد سے بہت آگے آ چکا ہے۔ نئی نسل تعلیم یافتہ ہے اور 20 سال جمہوریہ کے دوران وقتاً فوقتاً اپنے حقوق کے لیے کھڑی رہی ہے لہٰذا بنیادی طور پر طالبان کے لیے عوام پر سخت شرعی قانون پر سختی کرنا مشکل ہو سکتا ہے اور خاص طور پر خواتین پر یہ اور بھی مشکل ہو گا کیونکہ افغان خواتین اس بار کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گی۔