راولا کوٹ (حارث قدیر) افغان فوج کے جنرل سمیع سادات نے افغان فوج کے ہتھیار پھینکنے کا ذمہ دار افغان حکومت اور امریکی حکام کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک فوجی شکست تھی لیکن یہ ایک سیاسی ناکامی سے برآمد ہوئی۔ یہ صرف افغان جنگ نہیں تھی بلکہ یہ ایک بین الاقوامی جنگ تھی، جس میں بہت سے عسکریت پسند شامل تھے۔ اکیلے ہماری فوج کے لیے یہ کام کرنا اور لڑنا ناممکن تھا۔
سمیع سادات افغان فوج کے تھری سٹار جنرل تھے اور افغانستان کے صوبہ ہلمند میں طالبان حملوں کے خلاف ہونے والی افغان فوج کی واحد مزاحمت کی قیادت کر رہے تھے، تاہم انہیں صدر اشرف غنی نے کابل میں طلب کیا جس کے بعد صوبہ ہلمند بھی طالبان کے قبضے میں چلا گیا اور بعد ازاں کابل بھی بغیر کسی لڑائی کے طالبان کے ہاتھ چلا گیا۔
امریکی جریدے ’نیویارک ٹائمز‘ میں لکھے گئے تفصیلی مضمون میں انہوں نے لکھا کہ ”صوبہ ہلمند میں گزشتہ ساڑھے 3 ماہ تک طالبان کے مسلسل حملوں کے خلاف مزاحمت کی اور ہم نے انہیں نہ صرف پیچھے رکھا بلکہ بھاری جانی نقصان بھی پہنچایا، پھر مجھے کابل بلایا گیا تاکہ افغان سپیشل فورس کی کمان سنبھالوں لیکن طالبان شہر میں داخل ہو رہے تھے اور بہت دیر ہو چکی تھی۔“
انہوں نے لکھا کہ وہ تھکے ہوئے ہیں، مایوس ہیں اور ناراض بھی ہیں کیونکہ صدر بائیڈن نے گزشتہ ہفتے کہا کہ امریکی فوجی کسی کی جنگ نہیں لڑ سکتے نہ اس جنگ میں مر سکتے ہیں کیونکہ افغان فورسز اپنے لئے لڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ سچ ہے کہ افغان فوج میں لڑنے کی خواہش ختم ہو چکی تھی لیکن اس کی وجہ ہمارے شراکت داروں کے بڑھتے ہوئے احساس اور امریکی صدر کے لہجے اور الفاظ میں بے عزتی اور بے وفائی ہے۔ افغان فوج بے قصور نہیں ہے، اس کے بھی بے شمار مسائل تھے لیکن ہم نے بالآخر لڑنا بند کر دیا کیونکہ ہمارے اتحادی نے یہ کام پہلے کر دیا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ واشنگٹن اور کابل میں سیاسی تقسیم نے افغان فوج کا گلا گھونٹا اور کام کی صلاحیت کو محدود کیا، امریکہ نے برسوں سے فراہم کی جانیوالی جنگی لاجسٹک سپورٹ ختم کر دی۔ میں افغان فوج کو غلطیوں سے پاک نہیں قرار دے رہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ بہادری اور عزت سے لڑے، صرف امریکی اور افغان قیادت نے مایوس کیا۔
انہوں نے لکھا کہ ہم بہادری سے آخری دم تک لڑے، ہم نے گزشتہ 20 سالوں میں 66 ہزار فوجیوں کو کھویا، یہ ہماری کل لڑائی کی قوت کا پانچواں حصہ تھا۔ سب سے پہلے صدر ٹرمپ نے فروری 2020ء کا امن معاہدہ کر کے ہمیں برباد کیا، پھر ہم نے اپنی جنگی کارروائیوں کیلئے کنٹریکٹر لاجسٹکس اور مرمتی کی سپورٹ کھو دی، تیسرا عنصر اشرف غنی حکومت میں پائی جانیوالی بدعنوانی تھی جو سینئر فوجی قیادت تک سرائیت کر چکی تھی، جو طویل عرصہ سے افواج کو معذور کرتی آئی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ امریکی سکیورٹی فورسز کیلئے فضائی معاونت کے قواعد راتوں رات تبدیل ہوئے جس سے طالبان کو حوصلہ ملا، اس معاہدے سے قبل طالبان نے افغان فوج کے خلاف کوئی اہم جنگ نہیں جیتی تھی، معاہدے کے بعد ہم ایک دن میں درجنوں فوجی کھو رہے تھے۔ پھر بھی ہم لڑتے رہے لیکن جب اپریل میں بائیڈن نے ٹرمپ کے منصوبے پر قائم رہنے اور امریکی انخلا کیلئے شرائط طے کرنے کا اعلان کیا تو یہ وہ وقت تھا جب سب کچھ نیچے کی طرف جانے لگا۔ افغان فورسز کو امریکیوں نے امریکی فوجی ماڈل کے تحت انتہائی تکنیکی جاسوسی یونٹس، ہیلی کاپٹروں اور فضائی حملوں کی تربیت دی تھی۔ تاہم ہم نے اس وقت طالبان پر اپنی برتری کھو دی جب ہماری فضائی مدد ختم ہو گئی اور ہمارا گولہ بارود ختم ہو گیا۔
انکا کہنا تھا کہ جولائی تک 17000 سپورٹ کنٹریکٹرز میں سے اکثریت چھوڑ چکی تھی، اب ایک تکنیکی مسئلے کا مطلب یہ تھا کہ طیارے، ہیلی کاپٹر یا ڈراؤن کو گراؤنڈ کر دیا جائے۔ ٹھیکیدار سافٹ ویئر اور ہتھیاروں کا نظام بھی ساتھ لے گئے، ہیلی کاپٹر میزائل ڈیفنس سسٹم کو ہٹا دیا گیا، گاڑیوں، ہتھیاروں اور اہلکاروں کو ٹریک کرنے والے سافٹ ویئر غائب ہو گئے، رئیل ٹائم انٹیلی جنس بھی ختم ہو گئی۔ طالبان سنائپرز اور دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات سے لڑے جبکہ ہم نے فضائی اور لیزر ہتھیاروں کی صلاحیت کھو دی، ہیلی کاپٹر کی مدد کے بغیر اڈوں کی دوبارہ فراہمی نہیں ہو سکتی تھی، طالبان نے کئی اڈوں پر قبضہ کر لیا اور کئی جگہوں پر پوری یونٹس نے ہتھیار ڈال دیئے۔
انہوں نے بدعنوانی کے عنصر کو حکومت اور فوج کو بوسیدہ کرنے کا اہم موجب قرار دیا اور لکھا کہ بہت سے رہنما بشمول فوج بدعنوانی کا شکار تھے، جعلی اور فرضی تقرریاں فوج تک میں کی گئیں، خوراک اور ایندھن کی فراہمی میں رکاوٹوں اور کرپشن نے فوجیوں کے حوصلے تباہ کئے۔ افغانستان بھر میں فوجیوں نے لڑائی بند کر دی، میری کور کابل کے سقوط کے بعد اسلحہ چھوڑنے والوں میں سے ایک تھی۔