حارث قدیر
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں پاکستان نواز سیاست کو پروان چڑھانے،مذہبی عسکریت پسندی کو پروان چڑھانے میں صف اول کا کردار ادا کرنے والے سید علی شاہ گیلانی 2روز قبل بدھ کی شب سرینگر میں طویل علالت کے بعد فوت ہو گئے ہیں۔ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی انتظامیہ اور پولیس نے انکی میت کو تحویل میں لیکر محض 50سے60افراد کی موجودگی میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد جمعرات کی صبح سپردخاک کر دیا۔
پوری وادی میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے، تمام راستوں کو بند کیا گیا، انٹرنیٹ اور موبائل سروس کو بند کیا گیا اور سرینگر شہرکو ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر کے ایک مرتبہ پھر وادی کشمیر پر ریاستی جبر اور تشدد کا خوف مسلط کیا گیا۔ پابندیوں کا یہ سلسلہ آج بھی جاری رکھے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ بھارتی ریاست اور کٹھ پتلی انتظامیہ کا یہ اقدام بوکھلاہٹ اورجبری قبضے کو قائم و دائم رکھنے کے اعتماد اور یقین کے فقدان کی غماضی کر رہا ہے۔
حکومت پاکستان نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا، پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی، پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا اور مختلف مقامات پر غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پاکستان اور زیر انتظام جموں کشمیر کی حکمران اشرافیہ، میڈیا، دانشور حلقے اور سیاسی جماعتوں کی قیادتیں سید علی شاہ گیلانی کی وفات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے اور گہرے رنج و غم کا اظہار کرنے میں مصروف ہیں۔
عام حالات میں ہمیشہ سماج کے عمومی شعور پر حکمران طبقات کے خیالات اورنظریات ان کے میڈیا اور دیگر ذرائع پر غلبے کی وجہ سے حاوی رہتے ہیں، تاہم جب معاشرے میں ترقی پسند نظریات کی بنیاد پرسیاسی عمل میں شریک قوتیں بھی حکمران طبقات کے خیالات اور نظریات کی رو میں بہنے لگیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سیاست سے نظریات کوسوں دور جا چکے ہیں، معاشی اور سیاسی بحران گہرے سماجی بحران کی صورت اپنا اظہار کر رہا ہے اورمعاشرے میں ترقی اور بہتری کی گنجائش رائج الوقت نظام کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہیں رہی ہے۔
سید علی گیلانی نے لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں درس و تدریس سے وابستگی اختیار کی اور جماعت اسلامی کے بنیاد پرست نظریات سے وابستگی کی بنیاد پر جماعت کی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے۔ 1959ء میں سرکاری ملازمت سے مستعفی ہو کر جماعت کے ضلعی امیر کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ مصر کی بنیاد پرست جماعت ’اخوان المسلمین‘ سے متاثر رہے، 1969ء میں لوکل گورنمنٹ انتخابات میں حصہ لیا، 1972ء سے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی،1977ء اور1983ء میں بھی ممبر اسمبلی رہے، 1987ء میں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی تمام مذہبی جماعتوں نے ’مسلم یونائیٹڈ فرنٹ‘کے نام سے ایک اتحاد قائم کر کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔جماعت اسلامی اس اتحاد کی سب سے اہم کھلاڑی تھی۔
1987ء کے انتخابات میں بھارتی ریاست کی بھرپور مداخلت کی خبریں منظر عام پر آئیں اور ان انتخابات کو اس خطے کے سب سے متنازعہ ترین انتخابات قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم ’مسلم یونائیٹڈ فرنٹ‘ کے سید علی گیلانی سمیت 4ممبر اسمبلی اس انتخاب میں بھی فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی مزاحمت کاآغاز ہوا اور بھارتی فوجی قبضہ سے آزادی کی تحریک پوری وادی میں پھیل گئی، اس تحریک کی حمایت بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے دیگر علاقوں میں بھی پھیلنا شروع ہو گئی تھی۔ مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے ایک اہم رہنما سید یوسف شاہ عرف ’صلاح الدین‘ ساتھیوں سمیت کنٹرول لائن عبور کر کے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر پہنچ گئے۔
کسی بھی سامراجی ریاست کیلئے پراکسی وار کے آغاز اور کسی خطے میں مداخلت کا موقع تب ہی پیدا ہوتا ہے جب وہاں کسی بھی نوعیت کا عدم استحکام ہو، سماجی بغاوت ہویا مزاحمتی تحریک ابھر رہی ہو۔ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھارتی مظالم اور جبری قبضے کے خلاف جب بھی بغاوت نے سراٹھانا شروع کیا، پاکستانی ریاست کی جانب سے اس تحریک میں مداخلت کرنے اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ 1947ء میں پونچھ کی بغاوت کوبنیاد بنا کر قبائلیوں اور پاکستان میں موجود سابق برطانوی فوجیوں پر مبنی فوج کو جموں کشمیر میں قبضے کیلئے بھیجے جانے کا اقدام ہو، 1955ء میں شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے وقت مرزا افضل بیگ کی سربراہی میں ’آل جموں کشمیر محاذ رائے شماری‘ کے قیام کے ذریعے سے تحریک کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش ہو، سرینگر اور گردونواح میں ابھرنے والی عوامی تحریک کے دوران اگست1965ء میں آپریشن جبرالٹر کے ذریعے سے ’آزادکشمیر ریگولر فورسز‘ کے دستوں کو بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھیجنے کا عمل ہویا پھر 1987ء میں انتخابات میں ہونے والی منظم ریاستی دھاندلی کے بعد ابھرنے والی عوامی بغاوت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کیلئے ’جموں کشمیر لبریشن فرنٹ‘ کے ذریعے سے مسلح تحریک کے آغاز کی کوشش ہو۔
ہر مرتبہ مقامی رد عمل کو اپنے حق میں استعمال کرنے کیلئے پاکستانی حکمران طبقات نے کوئی نہ کوئی منصوبہ بنایا ہے۔ نظریات پر یقین کے فقدان اور واضح پروگرام سے عاری قیادتوں کی التجائی نظریں بھی ہمیشہ سامراجی ریاستوں کی طرف رہی ہیں۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی قیادت نے پاکستانی اداروں کے ذریعے جن نوجوانوں کو عسکری تربیت دلوا کر بھارتی زیر انتظام جموں کشمیرمیں لڑنے کیلئے بھیجا، ان نوجوانوں کو بعد ازاں سید علی گیلانی اور سید یوسف شاہ(صلاح الدین) کی سرپرستی میں قائم ہونے والی حزب المجاہدین نے مسلح تصادموں، پاکستانی اداروں کی اطلاعات کی بنیاد پرٹارگٹ کلنگ اور بھارتی ریاست کو انکی مخبریاں کرتے ہوئے انکا قتل عام کروایا۔ یوں 1988ء میں بھارتی وزیر داخلہ کی بیٹی کے اغوا سے شروع ہونے والی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی مسلح تحریک کے 1991ء تک سیکڑوں عسکریت پسندوں کو قتل کر دیا گیا اور 7ہزار سے زائد کو غیر مسلح کر دیا گیا۔
سید علی شاہ اور ان کے ساتھیوں نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو ’غیر اسلامی‘اور ’سیکولر‘تنظیم قرار دیا۔ حزب المجاہدین پرلبریشن فرنٹ کے اہم رہنما ماہر امراض قلب ڈاکٹر عبدالاحد گورو،میرواعظ قاضی نثار، میر واعظ کشمیر مولوی فاروق، محمد مقبول ملک، پروفیسر عبدالاحد وانی، محمد سلطان بھٹ، عبدالغنی لون اور عبدالمجید بھٹ کو قتل کرنے کا الزام بھی ہے۔ اس کے علاوہ حزب المجاہدین اور ان کے حامیوں کی طرف سے مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں سے کشمیری پنڈتوں کو کافر قرار دیکر وادی کشمیر نہ چھوڑنے کی صورت قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔کشمیری پنڈت اور انسانی حقوق کے کارکن پنڈت ہری دے ناتھ وانچھو کو بھی قتل کیا گیا اور1990سے 2011ء تک 400کے لگ بھگ کشمیری پنڈتوں کو قتل کیا گیا۔ اس کے علاوہ حزب المجاہدین جموں کشمیر میں پنڈتوں کی واپسی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر موجود رہی ہے۔
1992ء میں 30سے زائدتنظیموں کے اتحاد’آل پارٹیز حریت کانفرنس‘ کی بنیاد رکھے جانے کے وقت سید علی شاہ گیلانی جماعت اسلامی کے نمائندہ کے طور پر اس تنظیم کا حصہ رہے۔حیرت انگیز طور پر میر واعظ کشمیر مولوی فاروق (جن کے قتل کا الزام حزب المجاہدین پر تھا)کے صاحبزادے میر واعظ عمر فاروق بھی اس اتحاد میں شریک ہوئے۔ بعد ازاں حریت کانفرنس تقسیم ہو گئی، علی گیلانی اور میر واعظ نے اپنے اپنے گروپ بنا لئے تھے۔ سید علی گیلانی نے 2004ء میں جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیارکی اور اپنے قریبی ساتھی اشرف صحرائی کے ہمراہ ’تحریک حریت‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی اورآخری دم تک اس تنظیم کے ساتھ وابستہ رہے۔
2سال قبل سید علی گیلانی نے ایک خط تحریر کیاتھا جس میں حریت کانفرنس کے نمائندوں پرمالی بے ضابطگیوں سمیت متعدد الزامات عائد کرتے ہوئے حریت کانفرنس سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیاگیا تھا۔
’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘ کا نعرہ لگانے کے علاوہ پاکستان میں سیکولر ازم اور سوشلزم کے نظریات پرہونے والی سیاست سے سخت ناراضگی کا اظہار کرنے والے علی گیلانی کو اس طور پر ہیرو بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انہو ں نے مشرف دور میں ’چار نکاتی فارمولے‘ کے تحت مسئلہ کشمیر کے حل کی مخالفت کی تھی۔ تاہم اس وقت ہر اس قوت نے بھی مشرف کے اس اقدام کی مخالفت کی تھی جو ’ڈیپ اسٹیٹ‘سے قریبی مراسم رکھنے کی شہرت رکھتی تھی۔
بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھارتی ریاستی جبر اور فوجی قبضے کے خلاف گزشتہ74سال سے نوجوانوں نے لہو رنگ جدوجہد کی ہے، سامراجی غلامی کو دھتکارا ہے اور جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں لیکن قیادتوں نے نوجوانوں کی امنگوں، خواہشات اور جذبوں کو فروخت کرنے اور سامراجی عزائم کی تکمیل میں انکی مدد و معاونت کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ کوئی واضح نظریہ اور پروگرام دینے کی بجائے معاشرے کو مذہبی، لسانی، علاقائی اور قبیلائی تعصبات میں تقسیم کرنے کا بھی موجب بنی ہیں۔ واضح نظریہ اور سیاسی پروگرام کی بجائے ذاتی مفادات اور سامراجی مقاصد کے حصول کیلئے نوجوانوں کو انفرادی دہشت گردی کا راستہ دکھایا گیا، جس نے بھارتی ریاست کو جموں کشمیر میں وحشت اور بربریت مسلط کرنے کا جواز فراہم کیا اور گزشتہ 32سالوں میں 1لاکھ کے قریب لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔ کئی دیہات اجاڑے گئے، ہزاروں خواتین اور نوعمر بچیوں کی عصمت دری کی گئی، ہزاروں کو معذور کیاگیا۔ جب بھی کوئی ریاست کسی علاقے میں فوجی جبر کا راستہ اختیار کرتی ہے تو وہاں پر رونما ہونے والے انسانیت سوز مظالم سے انسانوں کی روح اور احساس تک تڑپ کر رہ جاتے ہیں۔ یہ سارے مناظر جموں کشمیر کے باسیوں نے ایک سامراجی پراکسی جنگ کا شکار بننے کے بعد نہ صرف دیکھے ہیں بلکہ بری طرح سے ان مناظرکا وہ شکار ہوئے ہیں۔بھارتی ریاست کے ان مظالم اور آبادیوں پر فوج کشی نے مزید نوجوانوں کو بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت پرمجبور کیا اورکسی حقیقی متبادل کی عدم موجودگی میں حزب المجاہدین کے پاکستان سے بھیجی گئی بندوق اٹھانے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ حزب المجاہدین کے علاوہ ’لشکر طیبہ‘، ’جیش محمد‘، ’حرکت المجاہدین‘، ’حزب اسلامی‘ سمیت متعدد ایسے لشکر اس پراکسی جنگ میں انسانی خون کے کاروبار میں مشغول ہوئے، اس بیچ بھارتی ریاست کی جانب سے بھی متعدد لشکر قائم کئے گئے جو بھارتی ریاست کے مفادات کے تحفظ کیلئے قتل عام میں مصروف رہے ہیں۔
سامراجی ریاستوں کے پراکسی ہرکاروں کا کبھی بھی کردار یکطرفہ نہیں رہا ہے، انہوں نے ہمیشہ دونوں ریاستوں کے ساتھ ساز باز کا راستہ اختیار کیا ہے، دونوں اطراف سے مال کمانے اور تحریک کو فروخت کرنے کا راستہ اختیار کیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف بھارتی ریاست کی جانب سے سید علی شاہ گیلانی کی وفات پرپوری وادی پرخوف، جبر اور پابندیوں کی فضاء مسلط کر رکھی ہے، دوسری طرف سید علی شاہ گیلانی کی وفات پر جن جرائم سے پردہ اٹھانے کی ضرورت تھی،ان جرائم پر پردہ ڈالتے ہوئے انکی شخصیت کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی ریاستی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس خطے کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو دونوں ملکوں کے حکمران طبقات کے اس کھیل کو پہچاننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ آج جو سماج پر مسلط سیاست کا ہر پہلو حکمران طبقات کے مسلط کردہ خیالات کے حصار میں نظر آرہا ہے اسکی بنیادی وجہ معاشی اور سیاسی بحران سے پھیلنے والا گہراسماجی بحران ہے، بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کی وجہ سے محنت کش طبقے پر مایوسی اور بدگمانی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایسا ہمیشہ نہیں رہنے والا، اس گہری مایوسی اور بدگمانی کے اندر سے بغاوت کے شعلے ابھرتے دیر نہیں لگے گی۔ جموں کشمیر کے محنت کشوں کی حقیقی آزادی کا راستہ حکمران طبقات کی مدد و معاونت میں مضمر نہیں ہے، حکمران طبقات کا ہر عمل مفادات کے حصول اور سرمایہ دارانہ حاکمیت کو جاری رکھنے تک ہی محدود رہتا ہے۔آزادی کا راستہ محنت کش طبقے کے وسیع تر اتحادمیں ہی پنہاں ہے، جموں کشمیر سے ابھرنے والی محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی بغاوت پورے برصغیر میں بغاوت کے شعلوں کو بھڑکانے کاباعث بن سکتی ہے۔ اس خطے سے سرمایہ دارانہ نظام حاکمیت کے خاتمے اور برصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے ذریعے سے ہی جموں کشمیر کے باسیوں کو حقیقی معاشی، سیاسی اور اسماجی آزادی میسر آسکتی ہے۔