لاہور (جدوجہد رپورٹ) تاجکستان پر طالبان مخالف جنگجوؤں کی میزبانی کا الزام لگائے جانے کے بعد طالبان اور تاجکستان کے مابین کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
الجزیرہ کے مطابق گزشتہ ہفتے طالبان نے تاجک حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ طالبان کی طرف سے یہ بیان تاجک صدر امام علی رحمان کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے اور طالبان کی جانب سے وادی پنجشیر میں تاجک اقلیت کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام کے بعد سامنے آیا ہے۔
دوسری طرف روس اور پاکستان نے تاجکستان اور طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان تاجک سرحد پر جاری تنازعہ سے دور رہیں۔
’دی ڈپلومیٹ‘ کے مطابق روسی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان کا کہنا تھا کہ دنوں ملکوں کے رہنماؤں کے باہمی سخت بیانات کے نتیجے میں تاجک افغان تعلقات میں بڑھتے ہوئی کشیدگی باعث تشویش ہے۔ انہوں نے سرحدی علاقے میں طالبان کے جمع ہونے کی اطلاعات کا بھی ذکر کیا۔
تاجکستان کی افغانستان کے ساتھ 1400 کلومیٹر طویل سرحد موجود ہے جبکہ تاجکستان کے طالبان کے ساتھ تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے، ماضی میں بھی شمالی اتحاد کے طالبان مخالف جنگجوؤں کو تاجکستان حکومت کی جانب سے پناہ دی گئی تھی جبکہ پنجشیر وادی میں طالبان کی فتح کے بعد اس وقت بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ طالبان مخالف جنگجوؤں کے رہنماؤں احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود، سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح سمیت دیگر طالبان مخالف جنگجوؤں کو تاجکستان میں پناہ دی گئی ہے۔
طالبان کی جانب سے افغانستان پر قبضے کے بعد تاجک صدر امام علی رحمان نے واضح موقف اختیار کیا اور ازبکستان کے برعکس تاجکستان نے کبھی بھی طالبان کی حمایت نہیں کی اور ان کے اقتدار میں آجانے کے بعد بھی تاجکستان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
تاجکستان اور افغانستان کی سرحد پر کشیدگی کا ماحول بدستور موجود ہے۔ دو روز قبل 4 اکتوبر کو طالبان جنگجوؤں نے مبینہ طور پر تاجکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے ایک افغان شخص کو قتل کر دیا ہے جبکہ طالبان کی جانب سے سرحد پر پناہ گزینوں کو واپس لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تاجکستان بارڈر گارڈز بھی کسی کو سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں اور طالبان مبینہ طور پر ان لوگوں کی تلاش کر رہے ہیں جو پنجشیر وادی سے بھاگ گئے ہیں۔