فاروق سلہریا
گذشتہ روز امن کے نوبل انعام کا اعلان کر دیا گیا۔ اس سال یہ انعام مشترکہ طور پر دو صحافیوں، ماریا رسا اور دمتری ماروتوف کو دیا گیا ہے (تفصیلی رپورٹ آج کے جدوجہد میں شامل ہے)۔ گو نوبل انعام فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی اور ساٹھ کی دہائی سے معیشت کے شعبے میں بھی دیا جاتا ہے مگر ہر سال ادب اور امن کا نوبل انعام ہی عالمی سطح پر شہ سرخیاں بناتا ہے۔
گو ان انعامات کو سویڈن سے منسوب کیا جاتا ہے مگر امن کا نوبل انعام ناروے کی جانب سے دیا جاتا ہے۔ یاد رہے، بیسویں صدی کے شروع میں جب نوبل انعام کا آغاز ہوا، تو ناروے سویڈش سلطنت کا حصہ تھا۔ 1905ء میں ایک جمہوری ریفرنڈم کے بعد ناروے اور سویڈن کی یونین کا خاتمہ ہو گیا (قومیتوں کا سوال حل کرنے کے لئے یہ ماڈل ولادیمیر لینن کو بہت پسند آیا تھا)۔ اس لئے اکتوبر کے آغاز سے ہی نہ صرف سویڈن بلکہ ناروے کے میڈیا میں بھی جوش و خروش دیکھنے میں آتا ہے۔
یہ پیش گوئیاں اور بحثیں ہونے لگتی ہیں کہ ادب اور امن کا انعام کسے ملے گا یا ملنا چاہئے۔ گو امن کا نوبل انعام دینے کا طریقہ کار جمہوری ہے: ایک طرح سے ناروے کی پارلیمنٹ اس عمل کی سرپرستی کرتی ہے۔ ادب کا نوبل انعام بہرحال ایک کمیٹی کرتی ہے جس کے ارکان سویڈن کا بادشاہ نامزد کرتا ہے۔ جب سے ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام ملا ہے، پاکستان میں بھی اس انعام پر کافی بحث ہونے لگی ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ناروے میں غیر سفید فام تارکین وطن کی سب سے بڑی کمیونٹی پاکستانیوں پر مبنی ہے۔ امن انعام دینے سے پہلے ناروے میں کس طرح کا ماحول ہوتا ہے، کس قسم کی بحثیں ہوتی ہیں، اس بارے جاننے کے لئے ”روزنامہ جدوجہد“ نے ٹونی عثمان سے مختصر سا انٹرویو کیا۔ ٹونی عثمان اوسلو میں مقیم فلم میکر، ڈائریکٹر اور ایکٹر ہیں۔ تفصیلات ذیل میں پیش خدمت ہیں:
جدوجہد: نوبل امن انعام کی نارویجن سماج کے لئے اہمیت کیا ہے۔ اس کا اعلان ہونے سے پہلے ملک میں ماحول کیا ہوتا ہے؟ لوگوں کی کیا توقعات ہوتی ہیں؟ یہ بھی کہ: کیا یہ انعام اب بھی بہت اہم سمجھا جاتا ہے؟
ٹونی عثمان: اہمیت تو ہے۔ ہر سال یہ تجسس ہوتا ہے کہ اس بار امن کا نوبل انعام کسے ملے گا۔ یہ دلچسپی ہر شعبے کے افراد میں پائی جاتی ہے۔ 2014ء میں ملالہ کو یہ انعام ملنے کے بعد بچوں اور نوجوانوں میں نوبل پیس پرائز بارے دلچسپی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔اجلاس کی کاروائی رازداری میں رکھی جاتی ہے۔ ان اجلاسوں کی کاروائی کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے نہ پریس کو ان اجلاسوں کی کوریج کی اجازت ہوتی ہے۔ اس لئے لوگوں کا تجسس برقرار رہتا ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے اور میڈیا والے اندازے لگاتے ہیں کہ انعام کس کو ملے گا۔
اس انعام کی کتنی اہمیت ہے یا نہیں ہے، اس پر بھی بحث ہوتی رہتی ہے۔ اہمیت کے سلسلے میں ایک مثال آپ کو دوں گا۔ 2010ء میں چین میں بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے اور عدم تشدد کا پرچار کرنے والے لیو ژیابو (Liu Xiaobo) کو انعام ملا۔ چینی حکام کی طرف سے نہ صرف نوبل انعام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ چین میں ناروے کے مفادات کے خلاف کچھ پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔
جدوجہد: اس سال کیسا ماحول بنا ہوا تھا؟
ٹونی عثمان: اس سال بھی گذشتہ سالوں کی طرح اندازے لگ رہے تھے، بحثیں ہو رہی تھیں۔ زیر بحث آنے والے ناموں میں ایک نام بلیک لائیوز میٹر کا تھا۔ کہا جا رہا تھا کہ نسل پرستی اور پولیس تشدد کے خلاف تحریکوں کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔ ایک اور بحث کووڈ 19 کے سلسلے میں تھی۔ پینڈیمک پرائز (Pandemic Prize) کی اصطلاح بھی استعمال کی جا رہی تھی۔ کہا جا رہا تھا کہ کرونا وبا کے خلاف کام کرنے والوں کو انعام ملنا چاہئے۔ تیسری بحث تھی کہ ماحولیات کے مسئلے کو اجاگر کرنا اہم ترین سوال ہے۔ اس ضمن میں سویڈن کی گریتا تھن بیری (Greta Thunberg)کا نام لیا جا رہا تھا۔
جدوجہد: اس سال دو صحافیوں کو یہ انعام دیا گیا۔ آپ سے یہ انٹرویو اس اعلان کے چند گھنٹوں بعد کیا جا رہا ہے۔ اس فیصلے پر ناروے میں رد عمل بارے بھی ہمیں تھورا سا آگاہ کیجئے۔
ٹونی عثمان: دو جراتمند صحافیوں کو نوبل کا امن انعام ملنے پر ناروے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ فیک نیوز کے خلاف اور اظہار رائے کی آزادی کے لئے یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔ بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ نوبل کمیٹی نے عرصے بعد ایک اچھا اور جراتمندانہ فیصلہ کیا ہے۔
اس طرح سے بہادر صحافیوں کو سراہنا پاکستان کے لئے بھی علامتی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں کبھی بھی کھل کر یہ آزادی میسر نہیں رہی۔ ”نیا پاکستان“ بننے کے بعد تو آزادی اظہارکا گلا گھوٹنے کی متعدد مثالیں ہیں۔ مسئلہ چاہے سرمد کھوسٹ کی فلم ”زندگی تماشہ“ کی ریلیز کا ہو یا جیو سے صحافی حامد میر کو ہٹانے کا، یا مصنف محمد حنیف کے بین القوامی شہرت یافتہ ناول ’The Case of Exploding Mangoes‘ کا…جس کا اردو ترجمہ بک سٹورز سے ہٹا دیا گیا۔ ’بات کرنی مجھے مشکل ایسی ہی تھی‘۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔