ناصر اقبال
علم ِتاریخ کو کبھی بادشاہوں سے جوڑا گیا اور کبھی طبقات کی باہمی کشمکش سے تعبیر کیا گیا۔ گزشتہ صدی کا اگر جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے تاریخ بادشاہوں اور مزدورں کی قید سے آزاد ہو کر سیاسی لیڈروں کی اسیر ہو چکی ہے۔ لینن، ماوزئے تنگ، جمال ناصر، گرومیکو، مارشل ٹیٹو سے لیکر ایک لمبی لسٹ اور اب صبح سے شام تک کی خبریں نواز شریف یہ اور عمران خان وہ…پھر خبروں کے درمیان کبھی کبھی ذکر راجہ پرویز اشرف ٹائپ ہر دل عزیز چھوٹے عوامی رہنماؤں کا، پڑھ کر گمان غالب یہ آتا ہے کہ تاریخ نے محمود و ایاز کو ایک بار پھر سے یکجا کر دیا ہو۔
سیاسی لیڈروں کی تعریف اور تنقید کے اس شور میں البتہ سیاسی کارکنان ہر قسم کے حساب کتاب سے ماورا ہو چکے ہیں۔ کارکنان کا تعلق خواہ دائیں بازو سے ہو یا بائیں بازو سے، پاکستان سے ہو یا دنیا بھر سے، لگتا ہے کہ وہ لیڈران کی مسلسل بے وفائیوں یا کوتاہیوں سے اکتا کر اپنے اصل راستے سے ہٹ گئے ہیں۔
ہمارے کچھ دوستوں کے مطابق آجکل کے کارکنان ”ترقی “پا کر سیاسی کارکنان سے سیاسی مزارعین کا روپ دھار چکے ہیں، چونکہ راقم بھی اپنے تئیں ایک سیاسی کارکن ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے اس ناطے سے ہم اپنے اور اپنے ہمرائیوں بارے اتنی سخت رائے نہیں اپنا سکتے۔
یہ بات درست ہے کہ گزشتہ صدیوں کے دوران جہاں لیڈروں اور سیاستدانوں نے بادشاہوں کا سا طرز عمل اور سوچ کو اپنایا تو دوسری طرف کارکنان نے بھی بزور جمہر کا انداز زندگی اختیار کر لیا۔ بزور جمہر ایران کے کسی بادشاہ کا چالاک درباری ہو گزرا ہے جس کا فلسفہ تھا کہ دربار میں خاموش رہو، بادشاہ کی ہر درست اور غلط بات میں ہاں سے ہاں ملاؤ، چمچہ گیری کا کوئی موقع ہاتھ سے مت جانے دو اور خاموشی سے بادشاہ کے پیش کردہ منصوبے کے نتائج کا انتظار کرو۔ اگر نتائج بہتر ہوں تو عوام کو بتاؤ کہ اس کامیاب منصوبے کی منظوری ہم نے دی تھی۔ ناکامی کی صورت میں سارا الزام بادشاہ پہ دھر دو۔ اس طریقے سے جان بھی محفوظ رہے گی اور عوام کی نظروں میں وقار بھی قائم رہے گا۔
راجہ ٹوڈر مل نے چار بادشاہوں کو کامیابی سے خوش کیا۔ بادشاہ اور درباری بحرحال لازم و ملزوم رہے ہیں البتہ اس بات کا سراغ ضرور لگانا چاہیے کہ ہماری حالیہ سیاست میں باشاہ پہلے وارد ہوئے یا درباری۔ لہٰذا انڈے اور مرغی والی اس بحث میں جانے کی بجائے ہم کچھ اور زاویوں سے اپنے اصل موضوع پر بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے اس کالم کو دنیا بھر کے سیاسی کارکنان کے نام کرتے ہیں۔
لیڈر اور کارکن کے معاملات کو ہم دو زاویوں یا تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے کو ہم الوہی یا ماورائی زاویہ کہہ سکتے ہیں جبکہ دوسرے کو جدید یا مادی زاویے کا نام دے دیتے ہیں۔
قدیم انسانی تاریخ سے لے کر اٹھارویں صدی تک لیڈر اور کارکن کی موجودہ اصطلاحات دنیا میں مستعمل ہی نہیں تھیں، سیاسی پارٹیوں کا وجود نہیں تھا، جموریت اور پارلیمان کا کوئی تصور نہیں تھا، اسی طرح لیڈر اور کارکنان بھی وجود میں نہیں آئے تھے۔ تاریخ کے اس دورانیہ کی سیاسی لیڈر شپ البتہ بادشاہوں، فرعون، سیزر، سلاطین، جرنیل یاسہنہ پتی، قاضی، راہب اور ہامان، قبائلی سرداروں اور بعض اوقات بغاوت کے نتیجے میں باغیوں کے سرغنہ کی صورت میں ہوتی تھی جبکہ درباری، حواری، دس ہزاری ٹائپ کے موالیوں کو کارکنان کے درجے پر رکھا جا سکتا ہے۔
تاریخ کے اس دورانیہ میں لیڈر کی حیثیت ماورائی تصور کی جاتی ہے اور لیڈر اپنے آپ کو دیوتا یا دیوتاؤں کا بیٹا یا اوتار یا پھر کم از کم خدا کا نائب یا ظل سبحانی جیسے القابات سے ضرور نوازتے اور زمین سے سارے رشتے ناطے توڑ کر آسمانوں سے نسبت جوڑ لیتے ہیں۔ جلوت میں یا خلوت میں ان کا ہر حکم ابدی و آفاقی سمجھا جاتا اور نافرمانی کی کوئی گنجائش نہ ہوتی۔ کارکنان اور عوام پر اطاعت فرض تھی اورکسی بھی قسم کی تنقید یا اختلاف رائے کا تصور تک نہ تھا۔
تیرہویں صدی سے یورپ میں احیائے علوم کی تحریک برپا ہونے کے بعد ’کلاسیکل لیڈر‘ یعنی بادشاہ دھیرے دھیرے سے اپنے اپنے رنگون پہنچ گئے اور ان کے کارکن یا تو مارے گئے یا انہوں نے چھوٹے موٹے پیشے اختیار کر لیے۔
دربا ر کی جگہ پر پارلیمان اور بادشاہوں کی جگہ پر سیاسی لیڈران یا الیکشن سے چنے گئے حکمران براجمان ہوئے۔ سیاسی پارٹیاں بننے سے سیاسی کارکنان بھی وجود میں آ گئے اور دنیا جمہوریت کے راستے پر گامزن ہو گئی۔
آج صنعتی انقلاب کو آئے بھی 6 سو سال بیت گئے مگر دنیا بھر کے اکثرسیاسی حکمران اپنے آپ کو قانون، آئین اور مروجہ اخلاقیات سے بالاتر سمجھتے ہیں اور پسند اور ناپسند جیسی طفلانہ خواہشات کے زیر اثر سیاسی فیصلے کرتے ہیں البتہ یہ شکر ہے کہ ان میں سے کسی نے کبھی آسمانی دعویٰ نہیں کیالیکن جب تک ہمارے پدی خان کریز پر موجود ہیں اور انہیں اگر چھوٹی موٹی کامیابی ہی حاصل ہو گئی اورتمام روحانی اور غیر روحانی علوم پر عبور تو انہیں بہت پہلے سے ہی حاصل ہے تو اس بات کے امکانات خاصے روشن ہیں۔
جہاں لیڈروں نے بادشاہوں کی روش اپنائی تو وہاں دیکھا دیکھی میں سیاسی کارکنان نے بھی ’درباری‘ والی روش اپنا لی اور جی حضوریوں کے نئے ریکارڈ قائم کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
اسی طرح کے رجحانات دائیں بازو کے ساتھ ساتھ بدقسمتی سے بائیں بازو کی سیاست میں بھی موجود ہیں۔ سوویت روس اور چین میں ابتک بنیادی جمہوری اور انسانی حقوق معطل رہے ہیں۔ شمالی کوریا میں عظیم انقلابی رہنما جناب کم ال سنگ کا خانوادہ ہی حکمران ہے اور بادشاہوں سے زیادہ نشوں میں ہے۔
بحیثیت ترقی پسندی کے ادنیٰ طالب علم کے ہماری دانست میں لیڈر اور کارکن کوئی دو علیحدہ سے وجود نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کے درمیان روح و کلبوت کا رشتہ ہوتا ہے بلکہ ایک ہی اکائی ہوتے ہیں جو سیاسی پارٹی، حکومت، تنظیم یا گروپ کی شکل میں ہو سکتی ہے۔ اپنے اپنے سماجی جثے یا سیاسی جدوجہد کے حجم کا فرق البتہ سیاسی جدوجہد کی تمام کی تمام منازل پر رہتا ہی ہے اور مذکورہ تخصیص یعنی لیڈر اور کارکن والی محض دنیاوی معاملات کی تقسیم کاری ہے۔ تمام سیاسی نفعوں اور نقصانات، کامیابیوں اور ناکامیوں کی تقسیم بھی اسی تقسیم کاری کے ہی تحت ہوتی ہے۔ ہم خاصی تحقیق کے بعد ذمہ داری سے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جناب ذالفقارعلی بھٹو اکیلے پھانسی نہیں لگے تھے بلکہ تمام جیالے بھی اپنی اپنی گردن اور جثے کے تناسب کے بلیدان ہو گئے۔ کچھ جیالوں نے ’توبہ‘ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی کام نہ آئی۔
آج دنیا میں سیاست کے بحران کی بڑی وجہ سیاسی حکمرانوں یا قیادتوں کی عوام اور ان کے مسائل سے دوری ہے اور اس دوری کی بڑی ذمہ داری بھی سیاسی کارکنان پر ہی عائد ہوتی ہے۔ مصر کے اہراموں سے لے کر آج کے ایوانوں کی ایک ایک اینیٹ کارکنان (مزدوروں) نے اپنے ہاتھوں خود بنا کر رکھی ہے بین اسی طرح سیاسی کارکنان کی تمام تر ذمہ داری ہے کہ سیاست کے میدان کاہر قدم سوچ سمجھ کے رکھیں اور پارٹی قیادت کو غلطیوں سے یا غلط فیصلوں سے باز رکھیں۔ مسابقت کی اس دنیا میں کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کب کسی لیڈر، کارکن یا پارٹی پر مشکل وقت آ جائے۔