حارث قدیر
پاکستان کی وزارت قانون و انصاف کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ عثمان مرزا کیس میں ریاست اب خود فریق بنے گی۔ اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں ایک جوڑے کو برہنہ کرنے، ان پر تشدد کرنے اور ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے مقدمہ میں ریاست تصدیق شدہ اور نا قابل تردید ویڈیو شواہد عدالت میں پیش کئے جائیں گے اور جوڑے کو بھرپور سکیورٹی فراہم کی جائیگی۔
یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا ہے جب متاثرہ جوڑے نے ملزمان عثمان مرزا اور ساتھیوں کے خلاف دیئے گئے اپنے بیانات سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے یہ بیان حلفی جمع کروائے ہیں کہ نہ تو وہ عثمان مرزا کو جانتے ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی زیادتی کی گئی ہے۔ متاثرہ جوڑے کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس نے ان سے زبردستی بیان لئے تھے۔
متاثرہ جوڑے کے بیان حلفی جمع کروانے کے بعد یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ عثمان مرزا اور اسکے ساتھیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔
متاثرہ جوڑے کے بیانات کے مطابق پولیس نے عثمان مرزا اور ان کے ساتھیوں کے خلاف من گھڑت کیس کیا ہے۔
متاثرہ خاتون کی جانب سے جمع کروائے گئے بیان حلفی میں جوڑے نے عدالت سے عثمان مرزا اور ساتھیوں کے خلاف مقدمہ روکنے کی استدعا کی ہے۔
متاثرہ جوڑے کے بیان حلفی کے بعد سوشل میڈیا پرمذکورہ کیس سے متعلق عدالتی کارروائی پر مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اکثریتی صارفین کا کہنا ہے کہ کیس کا انحصار متاثرین کے تعاون یا عدم تعاون پر نہیں ہونا چاہیے۔ ریاست کو ایسے مجرموں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے۔
سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا پر دباؤ کے بعد ریاست کی جانب سے مذکورہ کیس میں فریق بننے کا اعلان تو کیاگیا ہے، تاہم وفاقی دارالحکومت میں رہائشی متاثرہ جوڑے کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے بیان حلفی نے اس ریاست کے نظام انصاف کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں ایک جوڑے کو ہراساں کرنے، برہنہ کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے اقدامات کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے والے طاقتور ملزمان کے خلاف مقدمہ ٹرائل ہوتے ہوئے 4 ماہ گزر گئے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں یہ وقوعہ پیش آیا اور سوشل میڈیا ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد پولیس کو مقدمہ درج کرنا پڑا۔
اب 4 ماہ گزرنے کے بعد متاثرہ جوڑے کی جانب سے عدالت میں مقدمہ سے دستبرداری اختیار کرنے کی بابت بیان حلفی جمع کروانا اور ملزمان کو پہچاننے سے انکار کرنا، اس بات کا واضح اظہار ہے کہ شہریوں کو طاقتور اور بااثر ملزمان پر زیادہ بھروسہ ہے، جبکہ ریاست اور اس کے نظام انصاف کے علاوہ ریاست کی جانب سے تحفظ فراہم کئے جانے کے دعوؤں پر بھی کمزور شہری کو کسی قسم کا کوئی بھروسہ اور اعتماد موجود نہیں ہے۔
یہ صرف پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں نظام انصاف کے ساتھ اس طرح کا کھلواڑ کیا جا رہا ہو۔ اکثر طاقتور ملزمان عدالت سے باہر ہی متاثرین پر دباؤ ڈال کر انہیں مقدمات سے دستبردار کروا دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ریاستی اداروں کے اہلکاران کی جانب سے سرعام کئے جانے والے قتل کے مقدمات میں بھی متاثرین کو دباؤ ڈال کر یا بھاری رقوم دے کر ملزمان کو بری کروایا جاتا رہا ہے۔
اس نظام کے اندر انصاف کا حصول بھی طاقت اور سرمائے کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ غریب اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے انسان کو انصاف کے حصول کیلئے کئی نسلوں تک عدالتوں میں خوار ہونا پڑتا ہے اور زندگی بھر کی جمع پونجی داؤ پر لگانے کے بعد بھی بیرون عدالت ہی معاملات کو حل کرنے پر ترجیح دی جاتی ہے۔
ریاست کی جانب سے کیا جانے والا یہ فیصلہ بھی ایک کیس کے مین سٹریم میں آ جانے اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو جانے کی وجہ سے ہی ہے، بصورت دیگر ایسا میکنزم بنایا جانا چاہیے کہ ایسے کسی بھی مقدمہ میں متاثرین کو کسی مالی و دیگر نوعیت کے دباؤ کا شکار ہونے کی نوبت ہی نہ آئے۔ تاہم طبقاتی معاشرے کا انصاف بھی طبقاتی ہی ہوتا ہے۔