لاہور (جدوجہد رپورٹ) افغان دارالحکومت کابل میں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کے بعد طالبان کی جانب سے خواتین کارکنوں کو اغوا کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ چند روز میں مجموعی طور پر 7 خواتین کو اغوا کیا گیا ہے۔
بدھ کے روز خواتین حقوق کی کارکن مرسل عیار کو کابل شہر سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب انہوں نے خواتین کیلئے مساوی حقوق کے مطالبے کی ریلیوں میں شرکت کی۔ جمعرات کے روز ایک اور خاتون کارکن زہرہ محمدی کو ان کے کام کی جگہ سے اغوا کر لیا گیا۔ زہرہ محمدی اغوا کی جانیوالی ساتویں خاتون ہیں۔
زہرہ محمدی پیشہ سے ڈینٹسٹ ہیں اور خواتین کے حقوق کیلئے احتجاجی مظاہروں کو منعقد کروانے کے حوالے سے مشہور ہیں۔
’بی بی سی‘ کے مطابق طالبان نے خواتین کو حراست میں لینے کی تردید کی ہے اور ایک ترجمان نے کہا ہے کہ وہ مرسل عیار کے کیس کو دیکھ رہے ہیں۔
زہرہ محمدی اور مرسل عیار کے علاوہ پروانہ ابراہیم خیل، تمنا پرانی اورتمنا کی 3 بہنوں زرمینہ، شفیقہ اور کریمہ بھی 19 جنوری کو لاپتہ ہو گئی تھیں۔ تمام خواتین کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ انہیں طالبان جنگجوؤں نے ان کے گھروں سے اغوا کیا ہے۔
پروانہ ابراہیم خیل اور تمنا پرانی نے 16 جنوری کو ایک بڑے احتجاج میں شرکت کی تھی، مذکورہ احتجاج میں خواتین کو کام، تعلیم اور سیاسی حقوق دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
چند روز بعد تمناپرانی نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی، جس میں مسلح افراد کو ان کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے دیکھا جا سکتا تھا۔ مذکورہ ویڈیو میں تمنا پرانی مدد کیلئے پکار رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ طالبان ان کے گھر پر آ گئے ہیں۔
ادھر معلوم ہوا ہے کہ کابل سے گرفتار ہونے والے مقامی صحافیوں وارث حسرت اور اسلم حجاب کو رہا کر دیا گیا ہے۔ انہیں پیر کے روز اپنے چینل کے دفتر کے قریب سے طالبان نے گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا۔
گزشتہ سال اگست میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مختلف واقعات آئے روز سامنے آرہے ہیں۔ خواتین کارکنوں کو گرفتار کرنے، خواتین کے کام اور تعلیم پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ احتجاجی مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر تشدد اور گرفتاریاں معمل بن چکا ہے۔
طالبان کے دور حکومت میں افغانستان دنیا کا واحد ملک بن گیا ہے جو عوامی طور پر صنف کی بنیاد پر تعلیم کو محدود کرتا ہے، یہ طالبان سے بین الاقوامی پابندیاں ہٹانے میں ایک اہم نکتہ ہے۔
اس مسئلے کو اجاگر کرنے والی خواتین کے باقاعدہ احتجاج کو طالبان کے لیے شرمندگی کے ایک بڑے ذریعہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔