حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں 31 سال بعد بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ حلقہ بندیوں پر شہریوں کے اعتراضات کے ساتھ ساتھ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ شاید اس مرتبہ بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو پائے گا۔
دوسری طرف سپریم کورٹ اپنے احکامات پر بہر صورت عملدرآمد کروانے کیلئے پر عزم ہے اور حکومت کو بھی فی الحال انتخابات کا انعقاد نہ کروانے کیلئے کوئی عذر میسر نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 21 دسمبر 2021ء کو حکم دیا کہ 45 ایام کے اندر حلقہ بندیوں کا مرحلہ مکمل کرتے ہوئے 6 ماہ کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کو یقینی بنایا جائے۔ سپریم کورٹ کے حکم میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ حلقہ بندیاں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1990ء کے تحت اور رولز میں ترمیم کیلئے جاری کئے گئے حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق کی جائیں گی۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ یہ حلقہ بندیاں 2017ء کی مردم شماری کے مطابق کی جائیں گی۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق الیکشن کمیشن نے حلقہ بندی افسران کا تقرر کرتے ہوئے مجوزہ حلقہ بندیوں کے حتمی نوٹیفکیشن جاری کر دیئے ہیں، جن کے خلاف مقامی عدالتوں میں اپیلوں کی سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔ اپیلوں پر سماعت رواں ماہ کے آخری ہفتے تک بہر صورت مکمل کی جانی ہے۔
ادھر سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف بھی اپیل دائر کی گئی ہے۔ مذکورہ اپیل میں سپریم کورٹ سے 2017ء کی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیوں کے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست کی گئی ہے اور موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مردم شماری 2017ء ابھی نوٹیفائیڈ نہیں ہے۔ مردم شماری کے مطابق آبادی اور ووٹرز میں فرق انتہائی معمولی رہ جاتا ہے۔
ڈپٹی کمشنر پونچھ ممتاز کاظمی پر امید ہیں کہ یہ تمام قانونی پیچیدگیاں جلد دور ہو جائیں گی اور سپریم کورٹ کی مقرر کردہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔
تاہم شہریوں کی ایک بڑی تعداد حلقہ بندیوں پر معترض ہے۔ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے کے علاوہ احتجاج کا راستہ بھی اختیار کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بلدیاتی اداروں کے قیام کیلئے ’لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1990ء‘نافذ العمل ہے۔ ایکٹ کے تحت بلدیاتی اداروں کو ضلع کونسل، میونسپل کارپوریشن، میونسپل کمیٹی، ٹاؤن کمیٹی، یونین کونسل اور وارڈ کی سطح پر تقسیم کیا جاتا ہے۔
حالیہ حلقہ بندیوں کے بعد اس خطہ کو 10 ضلع کونسلوں، 5 میونسپل کارپوریشنوں، 13 میونسپل کمیٹیوں، 18 ٹاؤن کمیٹیوں اور 190 سے زائد یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے لوکل گورنمنٹ رولز میں ترمیمی نوٹیفکیشن کے مطابق میونسپل کاپوریشن کو 3500 سے 5000 کی آبادی پر مشتمل وارڈوں میں تقسیم کیا گیا ہے، میونسپل کمیٹی کو 3000 سے 4 ہزار آبادی پر مشتمل وارڈوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ٹاؤن کمیٹی کو 2 ہزار سے 3 ہزار آبادی پر مشتمل وارڈوں، جبکہ یونین کونسل کو 1500 سے 2 ہزار آبادی پر مشتمل وارڈوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق یونین کونسل کی آبادی بھی کم از کم 10 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 15 ہزار مقرر کی گئی ہے۔
لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے مطابق منتخب کونسلرز کے 10 فیصد کے برابر یا ہر یونین کونسل، ٹاؤن کمیٹی، میونسپل کمیٹی اور کاپوریشن میں کم از کم 2 خواتین اراکین کونسل کا انتخاب منتخب کونسلروں کے ووٹوں سے کیا جائیگا۔
میونسپل کارپوریشن میں وارڈوں سے منتخب ہونے والے کونسلر میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب کرینگے، میونسپل کمیٹی، ٹاؤن کمیٹی اور یونین کونسل میں منتخب کونسلر چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب کرینگے۔ یونین کونسلوں سے ضلع کونسل کے اراکین کا انتخاب ہو گا، جو چیئرمین اور وائس چیئرمین ضلع کونسل کا انتخاب کرینگے۔
حلقہ بندیوں کے دوران یونین کونسلوں کی تقسیم، انضمام اور وارڈوں کے قیام کے حوالے سے شہریوں کے مختلف تحفظات ہیں۔ شہریوں کے تحفظات کی ایک بڑی وجہ آبادی اور ووٹروں کی تعداد میں انتہائی معمولی فرق کا ہونا بھی ہے۔
ڈپٹی کمشنر پونچھ ممتاز کاظمی کہتے ہیں کہ’’ووٹر فہرستیں نادرا کے ریکارڈ کے مطابق تیار کی گئی ہیں اور نادرا نے شناختی کارڈ پر درج مستقل پتہ کی بنیاد پر ووٹوں کا اندراج کیا ہے۔ ایک بڑی آبادی ایسی ہے جو اپنے مستقل پتہ پر رہائش پذیر نہیں ہے بلکہ وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں یا اندرون ریاست مختلف شہریوں میں رہائش پذیر ہے۔ اس طرح مردم شماری کے دوران جو آبادی شمار کی گئی ہے اس نسبت ووٹروں کا تناسب زیادہ ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ’’گو ابھی بھی آبادی ووٹروں سے زیادہ ہے، لیکن یہ تناسب اتنا نہیں ہے جتنا ہونا چاہیے۔ ووٹر چونکہ 18 سال سے زائد عمر کا ہی ہوتا ہے، جبکہ آبادی میں 18 سال سے کم عمر شہری بھی شمار ہوتے ہیں، اس طرح ووٹروں اور آبادی کی تعداد میں ایک واضح فرق ہونا چاہیے۔ تاہم یہ فرق یہاں بہت معمولی ہے۔“
شہریوں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ پہلے جو یونین کونسل موجود ہوتی تھی اب اسے ختم کر دیا گیا ہے یا پھر دو یونین کونسلوں کو ضم کر کے ایک کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح نئی یونین کونسلوں کے قیام پر تقسیم کے طریقہ کار پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح شہریوں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ آج سے 31 سال پہلے جو ایک وارڈ تھی، وہ آج بھی ایک وارڈ ہی ہے، یا پھر اس وقت کی 2 وارڈوں کو ضم کر کے ایک وارڈ بنا دی گئی ہے۔
ممتازکاظمی کہتے ہیں کہ’’پہلے یونین کونسل کی آبادی کم مقرر کی گئی تھی، اب زیادہ ہو گئی ہے، وارڈ کے قیام کیلئے بھی آبادی ماضی میں 700 سے 1000 کے درمیان تھی۔ اب شہری علاقوں میں ایک وارڈ 5 ہزار آبادی تک چلی گئی ہے۔ ہم سپریم کورٹ کے احکامات کے برخلاف لوگوں کی خواہشات پر اقدامات نہیں کر سکتے ہیں۔ تاہم اگر عدالت سے شہریوں کو کوئی ریلیف ملتا ہے تو ہم اسی نسبت سے حلقہ بندیوں میں تبدیلی بھی کر لیں گے۔“
انکا کہنا تھا کہ ’یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 2017ء کی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کیلئے حکومتی نوٹیفکیشن کے تحت ہی حلقہ بندیاں کی جانی تھیں اور ایسا ہی کیا گیا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ’’فروری کے آخری ہفتے تک حلقہ بندیوں کے خلاف دائر ہونے والی اپیلوں کی سماعت مکمل ہو جائے گی اور امید ہے کہ سپریم کورٹ میں دائر ہونیوالی اپیل پر بھی فیصلہ جلد ہی ہو جائیگا۔ اس کے بعدبلدیاتی انتخابات کے راستے میں اور کوئی رکاوٹ باقی رہ نہیں جاتی ہے۔ قومی امکان ہے کہ جون سے اگست 2022ء کے درمیان انتخابا ت کا انعقاد ہو جائیگا۔“
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں آخری مرتبہ بلدیاتی انتخابات 1991ء میں منعقد ہوئے تھے۔ منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندگان کی مدت انتخاب 4 سال بعد ختم ہو گئی تھی، تاہم اس کے بعد تاحال انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو پایا۔ اس طرح دیہی اور شہری کونسلوں کی ترقیاتی سکیمیں اور منصوبہ جات کی ذمہ داری ممبران قانون ساز اسمبلی سرانجام دے رہے ہیں۔ جبکہ حکومت، انتظامیہ اور مختلف محکمہ جات کو معلومات کے حصول، شہریوں کی تصدیق سمیت دیگر معاملات میں 1991ء میں آخری مرتبہ منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندگان کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے، جن کی بڑی تعداد اب زندہ ہی نہیں ہے۔
بلدیاتی اداروں کے نمائندگان دیہی اور شہری علاقوں کی تعمیر و ترقی، صفائی، سیوریج، سینیٹیشن سمیت ٹیکسوں کے حصول اور ان کے استعمال کے فیصلہ جات کرنے کے اختیارات کے حامل ہوتے ہیں۔ تاہم بلدیاتی اداروں کو 3 لاکھ روپے سے زائد کی ترقیاتی سکیم کی منظوری کیلئے ’لوکل گورنمنٹ ڈویلپمنٹ کونسل‘ سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ مذکورہ کونسل کے چیئرمین وزیر اعظم ہوتے ہیں جبکہ وزیر اعظم کے علاوہ کونسل کے 10 سے زائد اراکین ہوتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ممبران قانون ساز اسمبلی کو سمجھا جاتا ہے، کیونکہ بلدیاتی نمائندگان کی عدم موجودگی میں حلقے کی تمام ترقیاتی سکیمیں بذریعہ ممبر قانون ساز اسمبلی تقسیم ہوتی ہیں۔ مذکورہ سکیموں کو وہ سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ اس طرح ترقیاتی سکیموں کی تقسیم کے حوالے سے کچھ دیہات، یونین کونسلیں یا پھر شہری علاقے امتیازی سلوک کا نشانہ بن جاتے ہیں اور فنڈز کی برابری کی بنیاد پر تقسیم ممکن نہیں ہو پاتی۔ بلدیاتی اداروں کو طلبہ یونین کی طرح ایک سیاسی نرسری بھی سمجھا جاتا ہے۔
گو بلدیاتی اداروں کی فعالی سے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے، تاہم نوجوان سیاسی کارکنان کو عوامی مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کیلئے جدوجہد کے راستے متعین کرنے کا موقع ضرور ملے گا اور سیاست میں شہریوں کی مداخلت نئے امکانات ضرور روشن کریگی۔