خبریں/تبصرے

ہندو طالبان زبردستی حجاب اتروانا چاہتے ہیں

فاروق سلہریا

بھارتی ریاست کرناٹک حجاب کے سوال پر کئی دنوں سے خبروں کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ گذشتہ روز ایک وائرل ویڈیو جس میں ایک باحجاب طالبہ کے کالج پہنچنے پر اسے ہندو طالبان ہراساں کرتے ہیں، وائرل ہوئی تو اس موضوع پر زیادہ شدت سے بات ہونے لگی۔ وائے ستم! افغانستان اور پاکستان کے طالبان زبردستی حجاب پہنانا چاہتے ہیں۔ ہندو طالبان زبردستی حجاب اتروانا چاہتے ہیں۔

یاد رہے کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ حسب معمول بی جے پی کے پاس لوگوں کے مسائل کا تو کوئی حل ہے نہیں لہٰذا تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس کے خلاف بجا طور پر نہ صرف مسلمان آبادی بلکہ سیکولر اور بائیں بازو کے حلقوں نے بھی اعتراض و احتجاج کیا ہے۔ کچھ طالبات یہ معاملہ عدالت میں لے گئیں۔ اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔

ایک دور تھا ہندوستان کی مذہبی اقلیتیں عدالت پر اعتبار کرتی تھیں۔ مودی سرکار کے بعد عدالتوں کو بھی ایسے ججوں سے بھرنے کا عمل شروع ہو گیا جن کی آنکھوں پر زعفرانی پٹی بندھی ہے۔ عدالت سے اب انصاف کی توقع تو نہیں لیکن چلئے دیکھتے ہیں…

اس سے بھی اہم بات: عدالت نے اگر مسلمان طالبات کے حق میں فیصلہ دے بھی دیا تو سنگھ پریوار کل کو کوئی اور معاملہ کھڑا کر دیں گے۔ ان کی تو سیاست ہی اقلیت (بالخصوص مسلمان) دشمنی پر استوار ہے۔ جب تک اس سوچ کو ہندوستان میں زبردست سیاسی و نظریاتی شکست نہیں ہوتی، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

انہی صفحات پر بارہا کہا جا چکا ہے کہ بی جے پی ہو یا طالبان، مغرب کے ٹرمپ نما فسطائی ہوں یا روس اور لاطینی امریکہ کے انتہا پسند قوم پرست، یہ بظاہر ایک دوسرے کے مخالف ہیں مگر ایک دوسرے کی سیاست کو آگے بڑھاتے ہیں۔ بی جے پی کی مقبولیت کا پاکستان میں فائدہ جماعت اسلامی، ٹی ایل پی اور طالبان کو ہوتا ہے۔ پاکستان میں بی جے پی کا فائدہ بنیاد پرستوں اور ان کے ابا جی کو ہوتا ہے۔

بارہا یہ بھی کہا جا چکا ہے کہ اقلیت بہانہ ہوتی ہے، اکثریت نشانہ ہوتی ہے۔

اس لئے اگر ہم پاکستان میں رہ کر ہندو طالبان کو شکست دینا چاہتے ہیں تو اس کا بہترین طریقہ ہے پاکستانی طالبان کو سیاسی و نظریاتی شکست دی جائے۔ اگر ہندوستان میں رہ کر لوگ پاکستانی اور افغان طالبان کو شکست دینا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ بی جے پی پریوار کو شکست سے دوچار کیا جائے۔

مذہبی جنونیت نے پورے خطے کو آگ کا دریا بنا دیا ہے۔

اس خطے میں امن کے لئے ضروری ہے کہ جنوبی ایشیا کی ایک جمہوری سوشلسٹ کنفیڈریشن قائم کی جائے جس میں تمام قومیتوں کو برابری کی بنیاد پر شامل ہونے یا علیحدہ ہونے کا حق حاصل ہو۔ اگر یورپ میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر یورپی یونین قائم ہو سکتی ہے تو جنوبی ایشیا میں سوشلسٹ بنیادوں پر ایک اتحاد بھی بن سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ خطہ یوں ہی سلگتا رہے گا۔ ایک ایسا خطہ جہاں ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگے ہوں، وہاں مسلسل کشیدگی اجتماعی خودکشی کے سوا کچھ نہیں۔

جنوبی ایشیا کے پاس پچھلے ستر سال سے دو ہی راستے ہیں: سوشلسٹ امن یا مذہبی جنونیت پر مبنی بربریت۔ حجاب پرہندو طالبان کا حملہ تو دھرم وادی بربریت کی محض ایک علامت ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔