فاروق سلہریا
دفتر جاؤں
نہ دوستوں سے ملوں
کافی ہاوس میں بیٹھوں
نہ کوئی کتاب پڑھوں
چھوڑ دؤں پرانے سب مشغلے،
اورتم سے باتیں کرؤں بس
کارِدنیا میں
وقت برباد کرؤں
نہ فکر دنیا میں سر کھپاؤں
کہیں آؤں
نہ کہیں جاؤں
شاعروں کی صحبت،
نہ مصوروں کی دوستی
طواف کسی آرٹ نمائیش کا
نہ تقریبِ رونمائی کسی کتاب کی
چھوڑ دؤں سب ادبی حلقے،
اورتم سے باتیں کرؤں بس
آئے روز کی بغاوت بھی
چھوڑ دؤں
اشرافیہ سے عداوت بھی
کنارا کر لوں
مزاحمت سے
بلاتنخواہ کی
صحافت سے
تنظیم سے
سیاست سے
شب نامے لکھوں
نہ بانٹوں
رات کی تاریکیوں میں
فقیہہ شہر کے فتوؤں میں
معنی کیا تھا، پس معنی کیا تھا
کیا رکھا ہے ان باریکیوں میں
ہر نشستِ فکر و نظر
چھوڑ دؤں
جدل، جہد، عمل، امر
چھوڑ دؤں
مظاہرے، نہ نعرے نہ جلسے،
اورتم سے باتیں کروں بس
سب چھوڑ دؤں:
وہ دلچسپی شہر لاہور کے کھنڈروں میں
وہ ناسٹلجیا بے آباد مندروں میں
وہ تجسس کہ بھگت سنگھ
ہاسٹل کے کس کمرے میں رہتا تھا
وہ بحث کہ راوی
داتا صاحب کے اس پار
یا اس پار بہتا تھا
وہ تلاش امریتا شیر گل کے
لاپتہ شہ پاروں کی
وہ الٹ پلٹ دیال سنگھ لائبریری میں
کرم خوردہ رسالوں اخباروں کی
فراموشی کے گھاٹ اتار دوں سب مسئلے،
اورتم سے باتیں کروں بس
۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عام سی، اضافی سی باتیں
ادھوری سی، ناکافی سی باتیں
بے معنی سی باتیں
بے مقصد سی، لایعنی سی باتیں
جنہیں سن کر تم بے ساختہ ہنس دو
اور تمہاری ہنسی کے اعجاز سے
میری عام سی باتیں
تورات بن جائیں، زبور بن جائیں
جن کے حوالے دیں اہل ِوفا
یہ باتیں محبت کا دستور بن جائیں
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔