طارق علی
ترجمہ: سلیم شیخ
یہ مضمون یوکرائن پر روس کے حملے سے چند دن پہلے شائع ہوا تھا، مضمون کے بعض مندرجات کو سمجھنے کے لئے اس مضمون کی تاریخ اشاعت کو ذہن میں رکھا جائے۔ مدیر
پچھلے برس 3 دسمبر کو واشنگٹن پوسٹ نے کچھ خیموں کی فضائی تصاویر اور امریکی خفیہ اداروں سے حاصل کردہ دیگر چنیدہ معلومات کی بنیاد پر یہ بریکنگ نیوز دی کہ پورے انگریزی زبان میں چھپنے اور نشر ہونے والے میڈیا میں یوکرائن پر روس کے ایک بڑے اور فیصلہ کن فوجی حملے کی ایک انتہائی منظم مہم شروع ہو گئی ہے۔ گو کہ اس وقت تک ایسے کسی حملے کی کوئی حقیقی خبر نہ تھی مگر امریکی سکیورٹی اداروں سے وابستہ نام نہاد حکام گویا ایک مشین کی طرح حرکت میں آ گئے اور جہاں جہاں مزید مدد کی ضرورت پڑی وہاں نیٹو کے اکابرین (جیسے نیٹو کے سیکرٹری جنرل ہینز سٹولٹن برگ) کو بھی آگے بڑھایا گیا۔ اخبارات کے صفحہ اؤل پر لگی شہ سرخیوں میں تمام تجزیہ نگار غیر معمولی طور پر یک آواز ایک دوسرے کی لے میں لے ملاتے جنگ کے خطرے کا شور مچاتے نظر آنے لگے۔
ذرا ڈھکے چھپے لفظوں میں کہیں تو بائیڈن انتظامیہ نے پہلے بلی کو تھیلے سے نکال کر کے اپنا پہلا اہم ہدف حاصل کیا اور پھر (دوسرے مر حلے پر) نیو یارک ٹائمز میں امریکی سکیورٹی حکام کی طرف سے کی گئی بریفنگ پر مبنی تین ہفتے قبل چھپے ایک مضمون میں یہ انکشاف کیا گیا کہ امریکی حکام یورپی ممالک پر روس کے خلاف ایک ’مشترکہ لائحہ عمل‘ وضع کرنے پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
ادھر دوسری جانب لندن میں سارے نام نہاد معتبر اخبارات بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے۔ فنانشل ٹائمز نے واشنگٹن پوسٹ پر بازی لے جاتے ہوئے زور و شورسے اسی مال کو بیچنا شروع کر دیا اور اکانومسٹ نے اس کے پیچھے صدا لگانا شروع کر دی۔
یہاں تک کہ ’لندن ریویو آف بکس‘ جیسے ادبی مجلے نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھتے ہوئے ایک ایسا جارِحانہ مضمون شائع کر ڈالا جس کے مصنف کو بظاہر اس بات کا علم نہیں تھا کہ 2008ء میں جنوبی ارستان یا اوستیا (South Ossetia) پر روس نے نہیں بلکہ جارجیا نے حملہ کیا تھا۔
جنگی جنونیوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے والے لغو استعاروں اور دلائل پر نظر ڈالئے تو انکے نزدیک سب سے پہلے تو پیوٹن ہی وہ واحد شخص ہے جو بیٹھے بیٹھائے یکطرفہ طور پر ننگی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لشکر کشی پر تلا بیٹھا ہے۔ دوسرے نیٹو تو وہ مقدس صحیفہ ہے جس پرنہ تو کوئی بات چیت اور نہ اس میں کوئی رد و بدل ہو سکتی ہے۔
تیسرے (امریکی قیادت میں تشکیل دیے گئے) بین الاقوامی قوائد یا ’رول بیس آرڈر‘ کی رو سے بزور طاقت (کسی ملک کو) سرحدوں میں رد و بدل کا اختیار نہیں ہے (۱)۔
چوتھے کسی بھی (ملک) کی قومی خود مختاری کا احترام لازمی ہے یعنی یوکرائن کو اپنی خارجہ پالیسی خود طے کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اب چلیں ذرا اِن دعوؤں سے ہٹ کر اصل حقائق پر نظر ڈالتے ہیں۔
سب سے پہلے تو جہاں تک یکطرفہ طور پر فوجوں کے اجتماع کا تعلق ہے تو روسی افواج کی تعداد تو بدستور وہی ہے جو پچھلے برس موسم بہار میں روس کی سرحدوں کے نزدیک نیٹو کی دو ماہ طویل ’ڈیفینڈر یورپ‘ نامی فوجی مشقوں، جس میں 28000 امریکی اور یورپی فوجی شامل تھے اور جس کے دوران امریکہ اور برطانیہ کی بحری افوج نے بحیرۂ اسود میں نہایت جارحانہ انداز میں اپنی بحری طاقت کی نمود و نمائش کی تھی، کے موقع پر متحرک کی گئیں تھیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس وقت امریکہ کی جانب سے روسی فوج کی سرحدوں پر اجتماع کو نیٹو کی فوجی مشقوں کے جواب کے طور پر ایک ’اسٹینڈرڈ آپریٹینگ پروسیجر‘ یا ایک معمول کی کاروائی کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔
ماسکو نے اکتوبر 2021ء میں ڈونباس میں یوکرائنی فوج کی جانب سے (ترکی کے تیار کردہ ’بیرقدارتی 2‘ (Bayraktar-2) جنگی ڈرون کے استعمال پر بائیڈن انتظامیہ کی خاموشی سے دی گئی آشیرباد پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ یاد رہے کہ اس وقت جنگی ڈرون کا استعمال (روس اور یوکرائن کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے 2014ء میں ہوئے) منسک معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی تھا جس میں فضائی ہتھیاروں کے استعمال کی سختی سے ممانعت کی گئی تھی اور دوسرا ابھی اس سے قبل 2020ء میں آذربائیجان کی جانب سے ناگورنو کاراباخ کی جنگ کے دوران ڈرون کے استعمال کے نتیجہ میں ہوئی ہلاکت خیزی کے مناظر سب کے سامنے تھے۔ اسی سب کے دوران بائیڈن انتظامیہ نے براہ راست یوکرائن میں نیٹو کی فوجی مشقوں میں بھی اضافہ کر دیا جس کی ایک مثال 2021ء کے موسم گرما میں یوکرائن کے جنوب میں واقع اوڈیسا اور کریمیا کے درمیان واقع خطہ میں کوسک ماک نامی فوجی مشقوں کا انعقاد ہے۔
عسکری نقطہ نگاہ سے یہ نیٹو کی افواج ہیں جو کہ پچھلے تیس سالوں میں 800 میل مشرق کی طرف سابقہ سوویت یونین کی سرحدوں کے اندر مسلسل پیش قدمی کر رہی ہیں اور اب براۂ راست روسی بولنے والے علاقوں میں گھس رہی ہیں۔
کریملن اس پیش قدمی کا جواب دینے میں سست روی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ پہلے تو یلسن اور پھر پوٹن دونوں ہی امریکی یقین دہانیوں کے بہلاوے میں آتے رہے اور پھر بش اور بلیئر کی جانب سے 2008ء میں نیٹو کو یوکرائن اور جارجیا تک پھیلانے کے لیے زبردست سفارتی کوششوں کا کرارا جواب دینے میں بھونڈے اور اناڑی پن کا مظاہرہ کیا۔
دراصل نیٹو کی توسیع کا پس پردہ مقصد ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ یورپی ملکوں کو امریکی فوجی کمانڈ کے تابع کرنا ہے باالفاط دیگریہ کوئی قومی دفاع کا سوال نہیں بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی سامراجی حکمت عملی ہے۔ نظریاتی اور تذویراتی طور پر یہ واشنگٹن کی لبرل بین الاقوامی عسکریت پسندی اور دنیا کو ’اچھی‘ اور ’بری‘ ریاستوں میں تقسیم کرنے اور نام نہاد بری حکومت کو تبدیل کرنے کی وہ حکمت عملی ہے جو بقول اسٹیفن والٹ جنگ پر منتہج ہوتی ہے۔
تبصرہ نگاروں کی یہ آہ و بکا کہ روس کے لیے اپنے ’اثر و رسوخ کے دائرہ‘ کو بڑھانے کی کوئی گنجائش نہیں اس بات کو قطعی نظرانداز کر دیتی ہے کہ امریکہ دراصل یہ سمجھتا ہے کہ اسے دنیا کی کمان اور اسے کنٹرول کرنے کا پیدائشی حق حاصل ہے۔ جہاں امریکی مفادات کا معاملہ ہو تو وہاں طاقت کے ذریعے سرحدوں میں رد و بدل کوئی مسئلہ نہیں مثال کے طور پر جیسے ترکی کو شمالی شام پر قبضہ کی آشیرباد دینا اور اسکے قبرص پر قبضہ پر آنکھیں موند لینا، یا پھر اسرائیل کی جانب سے جنوبی لبنان اور جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ، یا شمالی عراق پر عملاً امریکی اسرائیلی تسلط جس کا کہیں ذکر تک نہیں ملتا۔ اسی طرح قومی خود مختاری کا نام نہاد ’روول بیس آرڈر‘، بھی واشنگٹن کی اپنی منشا اور ضرورت کے تقاضوں پر منحصر ہے۔ 2014ء میں یوکرائن کی روس نواز یانوکووچ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد یوکرائن کے اگلے وزیر اعظم کے انتخاب سے متعلق امریکی سفارتکار وکٹوریہ نولینڈ کی (یوکرائن میں امریکی سفیر کے ساتھ افشاں ہونے والی خفیہ) گفتگو (امریکی پالیسی) کی اصلیت کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔
اس جنگی ہسٹیریا کے ماحول میں ہمیں جنگ مخالف ہر (اس مبصر کی) آواز، جو چاہے کتنی ہی مدہم کیوں نہ ہو، کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ والٹ کے علاوہ، سائمن جینکنز نے خبردار کیا ہے کہ نیٹو کا جو روس کے ساتھ سلوک اور رویہ ہے اس کا لازمی نتیجہ (روس کی جانب سے) ایک شاؤنسٹ یا بالادست جنگجوانہ ردعمل (باالفاظ دیگر لشکر کشی) کی شکل میں سامنے آئے گا۔ اناٹول لیوین کی طرح جینکنز کا استدلال بھی یہ ہے کہ کسی بھی تصادم اور ٹکراؤ سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ منسک معاہدوں میں موجود اس مجوزہ آئینی کنفیڈرل حل پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے جسے یوکر ائن اس بنیاد پر رد کرتا آیا ہے کہ اس سے ڈونباس کو ’داخلی خود مختاری‘ حا صل ہو جائے گی۔ اسکے علاوہ نیٹو کی توسیع پسندی کا خاتمہ، روسی فوجوں کا انخلا اور یوکرائن کی سرحدوں کی بحالی بھی ضروری ہے۔ اسی طرح ایڈم ٹوز، اسی تسلسل میں، کریشڈ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں یکطرفہ روسی جارحیت کی فرضی داستانوں کے بخیے اڈھیڑتا ہے۔
پیٹر بینارٹ (روس اور امریکہ کے)’اثر و رسوخ کے حلقے‘ جیسی تھیوریز پر بات کرتے ہوئے یوکرین کو بحیثیت ایک ’بفر ریاست‘ برقرار رکھنے پر زور دیتا ہے۔ راجن مینن او ر تھامس گراہم، یوکرین کی نیٹو رکنیت پر بیس سے پچیس سال تک کی پابندی کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ رابرٹ کپلان ’فن لینڈائزیشن‘ ’Finlandization‘ (۳) کے بارے میں بات کرتا ہے۔ راس ڈاؤتھ اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کس طرح ایک کامیاب پسپائی کا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔
ڈیوڈ ہینڈرکسن اپنے زیادہ مفصل اور تنقیدی تجزیہ میں اینڈرس آسلنڈ ’Anders Åslund‘ (سویڈش ماہر اقتصادیات اور امریکی تھینک ٹینک، اٹلانٹک کونسل کے سینئر فیلو) اور دیگر دوسرے سخت گیر اور رجعتی خیالات کے حامی ماہرین کے پیش کردہ مقالات کا جائزہ لیتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کی ’انتہائی جارحانہ مگر ساتھ ہی انتہائی محتاط‘ نقطہ نظر کو اجاگر کرتے ہوئے یہ واضح کرتا ہے کہ یہ تمام سخت گیر اور جارحانہ خیالات رکھنے والے ماہرین چاہتے ہیں کہ ماسکو سے ’بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر‘ کا (بزور طاقت) احترام کروایا جائے، نیٹوکی عملداری میں یورپ میں مزید فوجی سرگرمیوں میں اضافہ ہو، یوکرین کا مرحلہ وارنیٹو کے بالائی حلقوں (بنیادی ارکین کے علاوہ ممالک) میں شمولیت، کریمیا اور ڈونباس کے معاملہ کو دوبارہ سے میز پر لایاجائے (یعنی2014ء میں کریمیا کے روس کے ساتھ ہوئے الحاق کو واپس کرنا) اور ساتھ نورڈ اسٹریم 2 (گیس پائپ لائن) کا خاتمہ اورجیسا کہ بائیڈن کے ایک اہلکار نے کہا کہ یوکرین پر ’پہلے دن سے ہی‘ توجہ مرکوز کرنا مگر ساتھ ہی چین کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویہ کے پس منظر میں امریکی افواج کے بڑے پیمانے پر تعنیاتی سے گریزکیا جائے۔ ان تمام باتوں کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ پرانی دنیا (سرد جنگ) کے اتحادیوں کودوبارہ سے ایک بڑی کارروائی کے لیے تیار کرنا ہے۔
اگر برطانوی میڈیا یورپ بھر میں سب سے زیادہ جنگی جنونی شکار ہے تو برطانوی سیاستدان بھی اس ضمن میں کچھ کم نہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے جنگی جنون اور حزب اختلاف کے لیبر لیڈر کیئر اسٹارمر کی جانبسے اس جنگی جنون کی بھرپور حمایت کا صحیح تجزیہ اولیور ایگلٹن نے کیا ہے۔ لیبر رہنماا سٹارمر تو اس جنون میں اندھے ہو کر اب موجودہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے خلاف آواز اٹھانے والے گنے چنے گروپوں جیسے ’اسٹاپ دی وار‘نامی برطانیہ کی امن تحریک پربھی حملہ آور ہوچکے ہیں۔ اسٹارمر گارڈین اخبار میں اس بات کا اعادہ کہ ’نیٹو کے ساتھ لیبر (پارٹی) کی وابستگی غیر متزلزل ہے‘ کچھ اسطرح کرتے ہیں کہ گویا سرد جنگ کے زمانے میں لیبر پارٹی کے شرمناک کردار اور اسکے بعد ٹونی بلیئرکی وحشیانہ جنگی ریکارڈ نے لوگوں کے لیے اس امر پر کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش چھوڑ دی ہو۔ اسٹارمر کی منطق کے ’اسٹاپ دی وار‘کا مطلب ’آمر رہنماؤں کو مدد اورجارحیت پسند ی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہے۔‘
یہ وہی گھسا پٹا دقیانوسی نعرہ ہے جو 1950ء کی دہائی میں جوہری تخفیف اسلحہ کی مہم اور 60ء کی دہائی میں ویتنام کے ساتھ یکجہتی مہم کے خلاف لگایا جاتا تھا۔ ہم سے بہت سے لوگ جو ویتنام کے ساتھ یکجہتی مہم کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل ہیں، امریکی بمباروں اور نیپام بموں کے خلاف ویت نامی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے 1956ء میں ہنگری میں بغاوت کو کچلنے کے لیے سوویت فوجیوں کے داخلے اور 1968ء میں چیکوسلواکیہ پر وارسا پیکٹ کے ممالک (سوویت یونین، پولینڈ، بلغاریہ اور ہنگری) کے حملے کی مخالفت کی۔ افغانستان کے حوالے سے میں ذاتی طور پر دسمبر 1979ء میں سوویت قبضے اور 2001ء میں نیٹو کے ’آپریشن ان فری ڈم‘ دونوں کی مخالفت کی ہے۔
2003ء میں عراق پر ہونے والے حملے کے خلاف یورپ اور امریکہ میں مارچ کرنے والے لاکھوں افراد اس صدام کے حامی نہیں تھے، جس کی آمرانہ حکومت کو کئی دہائیوں تک امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے پال پوس کر پروان چڑھایا اور ساتھ اسے اچھی طرح مسلح کیا۔ ان لاکھوں افراد نے صاف صاف بش او ر بلیئر کی شکل میں مشرق وسطیٰ پر قتل و غارت اور تباہی کی پیشین گوئی کی اور اسے روکنے کے لیے جدوجہد کی۔ کیا اسٹارمر اور ’MI5‘ اپنی درست دماغی حالت میں سر سائمن ڈیوڈ جینکنز (برطانوی مصنف اور اخبار کے کالم نگار) کو پوتن کا آلہ کار ہونے کا الزام لگا سکتے ہیں؟ کیا ہم نیٹو کے ارکان کی جانب سے مراکش اور سعودی عرب کے حکمرانوں کے شاہی تشدد اور قاتلوں کی دی گئی حمایت سے صرف نظر کر سکتے ہیں جو آج بھی یمن میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ اگر جنگوں کی بنیاد اخلاقی بلندی ہے تو لندن کے یہ جنگجو مسخرے افغانستان سے کیوں بھاگ آئے؟
چلیں ماضی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ کیا کسی کو یاد ہے کے وہ کون لوگ تھے جنھوں نے 2000-1999ء میں چیچنیا پر پوٹن کے قاتلانہ حملے کی حمایت اور اس کے دارالحکومت گروزنی کو زمین بوس ہوتے ہوئے بڑے اطمینان سے دیکھا؟ جی ہاں وہ تھے سابق امریکی صدر بل کلنٹن اورسابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور اگر کسی کو یاد ہو تو یہ وہی ٹونی بلیئر تھے جو پوٹن کو ان کی انتخابی کامیابی پر مبارکباد دینے کے لیے سب سے پہلے نیٹو کے دیگر اراکین کے ہمراہ ماسکو پہنچے تھے۔ یہ وہ سنہری دور تھا جب روس کو ایک وفادار ماتحت ملک سمجھا جاتا تھا، کیونکہ اس وقت وہ زیادہ تر معاملات میں مغرب کی حمایت کرتا تھا جس میں افغانستان پر قبضے میں مدد کے لیے نیٹو کو اپنے اڈے فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ ’نیو لیفٹ ریویو‘میں چیچنیا کے سانحہ کے بارے میں ٹونی ووڈ کا تجزیہ پوٹن کے کردار کے ساتھ ساتھ نیٹو کے اس وقت کے ارکان کی ملی بھگت سے متعلق بھی واضح تفصیلات فراہم کرتا ہے۔
جب سے لے کر آج تک جو چیز بدلی ہے وہ یہ ہے کہ نیٹو کے آٹو پائلٹ پر لگے توسیع پسندی کے شتر بے مہار کا پاوں اب کی بار یوکرین اور جارجیا کو نگلنے کے چکر میں روس کی دم پر پڑ گیا ہے اور اب بحیثیت ایک خود مختار ریاست روسی حکومت کے لیے اسکا منہ توڑ جواب دینا ضروری ہے مگرروس کو اس عسکری ردعمل کی غلطی کا خمیازہ اپنے ترپ کے پتے یعنی یوکرین کی آدھی آبادی جو روسی بولنے والی یا روس کی طرفدار ہے کی حمایت کھونے کی صورت میں ادا کرنا پڑے گا۔ 2008ء میں جب بش او ر بلیئر نے بخارسٹ میں ہونے والے نیٹو کے سربراہ اجلاس کے موقع پر نیٹو کی ’اوپن ڈور‘ پالیسی کے تحت یوکرین اور جارجیا کی نیٹو میں شمولیت کی تجویز پیش کی تو یوکرین کی بمشکل 20 فیصد آبادی نے اس کی حمایت کی۔ اکثریت یا تو روس کے ساتھ فوجی اتحاد کرنے یا پھر یوکرین کے 1990ء کے آئین کے مطابق اس کی غیر جانبدار حیثیت کو برقرار رکھنے کے درمیان منقسم تھی (واضح رہے کہ 2019ء میں موجودہ زیلنسکی حکومت نے یوکرین کے 1990ء کے آئین میں ترمیم کرکے اس میں یورپی یونین اور نیٹو کی رکنیت کے حصول کو بطور قومی اہداف کے شامل کیا)۔
2014ء کے آتے آتے، جب اس عوامی تحریک کے بعد روس نواز حکومت بدلی اور پھر کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق اور ڈونباس کے علاقے میں جاری جنگی جھڑپوں کے نتیجہ میں گو کہ یو کرین کی نیٹو میں شمولیت کی حمایت بڑھ کر 40فیصد تک پہنچ گئی تھی، لیکن یوکرین کی 40 فیصد آبادی اب بھی اس کے خلاف ہے (یاد رہے کہ یوکرین میں اکھٹا کیے جانے والے ان اعداد و شمار میں ڈونباس اور کریمیا کے علاقے شامل نہیں تھے جسکے باعث اعداد و شمار کے نتائج پر اثر پڑا)۔
یوکرین کے مغربی علاقوں میں، جو پولینڈ سے آئے تارکین وطن کارکنوں کا گڑھ اور اقتصادی طور پر یورپی یونین جڑا ہوا ہے، نیٹو میں شمولیت کے خیال کو اکثریتی آبادی کی حمایت حاصل ہے مگر اسکے برعکس، جیساکہ ولادیمیر اشچینکونے لکھا ہے، بہت سے یوکرینیوں کو لگتا ہے کہ نیٹو کی رکنیت کا مطلب یوکرین کی خودمختاری کے مزید خا تمہ اور روس کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کی صورت میں نکلے گا جبکہ یوکرینیوں کے درمیان اندرونی تقسیم میں اضافہ ہوگا اور یوکرین بھی امریکہ کی ان ’نا ختم ہونے والی جنگوں‘ میں گھسیٹاجائے گا جن میں سے ایک جنگ (افغانستان کی جنگ) کا اختتام ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی ذلت آمیز شکست پر ہوا ہے۔
گو کہ مغربی میڈیا اپنے آپ کو مبارکباد دینے میں مصروف ہے کہ ان کے پروپیگنڈے کے لگاتار حملوں نے نیٹو کو متحد کر دیا ہے مگر یہ کہنا کہ سب اچھا ہے بالکل بھی درست نہیں۔ پچھلے بارہ ہفتوں میں نیٹو جہاں سب کے لیے مرکز نگاہ بنا ہے، وہیں آپسی اور اندرونی اختلافات کی دراڑیں بھی عیاں ہوکر سامنے آ رہی ہیں، مثلاً، جرمنی کے چیف نیول آفیسر، ایڈمرل کائیاخم شونباخ (Kay Achim Schönbach) کو نئی دہلی میں ایک فوجی تھنک ٹینک کو یہ بتانے پر کہ’پوٹن بس تھوڑا سا احترام اور عزت چاہتے ہیں‘ پر مستعفی ہونا پڑا۔ ان کا کہنا تھا:’’خدارا، اسے (پیوٹن) عزت دیں! اسمیں کچھ نہیں جاتا، واقعی کچھ بھی نہیں۔ اسے وہ عزت دینا آسان ہے جس کی اسے خواہش ہے اور جسکا واقعی وہ مستحق بھی ہے۔ روس ایک قدیم اور اہم ملک ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں یعنی بھارت اور جرمنی کو بھی روس کی ضرورت ہے، ہمیں چین سے نبردآزما ہونے کے لیے روس کی ضرورت ہے“۔
ایڈمرل شونباخ دراصل ماؤسٹ التھوسیرین (فرانسیسی فلسفی لوئی التھیوز کے مارکسزم اور ماؤزم کے نظریہ جس میں وہ ماؤزم کو مارکسزم اور لینن ازم سے قریب ترین قرار دیتا ہے) کے تناطر میں نیٹو کے سربراہان کے سامنے یہ سوال رکھ رہے تھے کہ انھیں روس اور چین میں سے کسی ایک کو چننا ہو گا اور یہ دیکھنا ہو گا کہ (انکا) کس کے ساتھ بنیادی اور کس کے ساتھ ثانوی تضاد ہے؟ نکسن کے دورہ بیجنگ کے نتیجے میں مغرب اور چین کے درمیان تعلقات کے استوار ہونے سے بلاشبہ سوویت یونین کو کمزور کرنے میں تو مدد ملی، مگر اس اشتراک نے چین کو ایک ایسی سیاسی اور اقتصادی قوت بننے میں بھی مدد دی جسے اب اپنا تابع بنانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔ دوسرے یوکر ین میں بائیڈن خاندان کی منافع بخش سرمایہ کاری کے ساتھ ’Democratic Leadership Council‘ اور کلنٹن کی جانب سے 2016ء کے انتخابات میں روسی مداخلت کا ہوا کھڑا کرنے جیسے عوامل کو ذہن میں رکھا جائے تو موجودہ امریکی انتظامیہ ماسکو کے بارے میں اپنی سوچ میں کوئی تبدیلی کرتی نظر نہیں آتی۔ ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن اب بھی یوریشیائی ممالک کے بندھن کے خلاف (یورپی ممالک کے ساتھ مل کر) ایک اتحاد قائم کرنے پر تلا ہوا بیٹھا ہے۔ پوٹن اور (چین کے صدر) شی نے بیجنگ سرمائی اولمپکس کے موقع پر نیٹو کی توسیع کے خلاف اور اپنے آپسی اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے اور چین کو روسی گیس کی درآمدات میں اضافہ کے بارے میں ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیاتھا۔
ایڈمرل شونباخ کے بیان پر فوری ردعمل دیتے ہوئے نئی جرمن وزیر دفاع، کرسٹین لیمبر یچٹ، جو کہ اسٹارمر کی ہی طرح ایک سوشل ڈیموکریٹ ہیں، نے شونباچ کو فوری طور پر تمام فرائض اور عہدوں سے معطل کر دیا۔ تاہم اسی اثنا میں جرمن مسلح افواج کی ایک سینئر اور بھاری بھرکم شخصیت اور نیٹو کی ملٹری کمیٹی کے سابق سربراہ، ریٹائرڈ جنرل ہیرالڈ کجاٹ نے بھی (جرمن حکومت کے لیے خجالت کا باعث بننے والا) ایک ٹی وی انٹرویو دیا (جو اب آن لائن تیزی سے ناپید ہوتا جا رہا ہے) جس میں انھوں نے کہا کہ: ”اگر میں آج اپنے عہدے پر ہوتا تو میں ایڈمرل شونباخ کی حمایت میں ضرور کھڑا ہوتا اور ان کی برطرفی کو روکنے کے لیے ہر طرح سے کوشش کرتا…ہمیں اپنے مفاد کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ایک متوازن اور معقول حل تلاش کرنا چاہئے، جہاں روس کے ساتھ کشیدگی میں کمی لانا لازمی ہے وہیں یوکرین کی سلامتی اور ا سکے مفادات کو بھی مدنظر رکھنا اہم ہے“۔
نیٹو کے اپنے اندر بھی اختلافات ہیں ایک طرف جانسن اور اسٹارمر نے ’جنگ جنگ‘ کی رٹ لگائی ہوئی ہے وہیں جرمنوں نے ’بک بک‘ کی صدا لگائی ہوئی ہے۔ برطانیہ کا بنیادی مقصد وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کو یہ باورکرانا ہے کہ بریگزٹ کے بعد کا برطانیہ آج ٹونی بلیر کے زمانے کے برطانیہ سے بھی زیادہ وفادار ہے۔ یہ سگ جفتی جیسا ملاپ اب اچھی طرح سے سیمنٹ لگا کر پکا کیا جا چکا ہے۔ یہی کچھ اسٹارمر بھی ’اسٹاپ دی وار‘ پر آمروں کی حمایت کا الزام لگا کر ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ برطانوی ریاست کی طرف سے جو بھی کہا جائے گا وہ اس سے سر مو بھی اختلاف نہیں کرے گا۔ اگر کل کلاں کو پوتن کو دوست قرار دے دیا جائے، تو اسٹارمر بھی فرمابرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے دوست مان لے گا۔ اسٹارمر کو تو خود بھی آمریت کے نشہ کی لت ہے جسکا مظاہرہ وہ پارٹی کے درجنوں نام نہاد منحرفین کو لیبر پارٹی سے نکال کر اور اپنے پیشرو پارٹی کے انقلای لیڈر کو جھوٹے الزامات کے تحت معطل کرکے کر چکا ہے۔ میکارتھیزم (مُشتبہ یا اعلانیہ اشتراکیوں کوچُن چُن کر سرکاری محکموں سے نکالنے کی امریکی پالیسی) کے رنگ میں رنگا اسٹارمر، آج مکمل طور پر امن کی تحریک سے کنارو کشی اختیار کرچکا ہے اور لیبر پارٹی کے حامیوں کو بھی ایسا ہی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ وہ ٹونی بلیر سے بھی دو ہاتھ آگے جاکر نیٹو کی حمایت کو پارٹی کی رکنیت کے لیے لازمی شرط قرار دے سکتا ہے اور یہ یہود دشمنی کوبطور ہتھیار اور اسرائیل پر تنقید نہ کرنے کی پالیسی کی ہی ایک طرح سے توسیع ہو گی۔
’اسٹاپ دی وار‘ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ اس میں ٹوری حامیوں کے ساتھ ساتھ اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے حامی بھی شامل ہیں۔ اس تحریک کا مقصد امریکہ یا نیٹو کی طرف سے لڑی جانے والی تمام جنگوں کو روکنا ہے، چاہے ان جنگوں کو، کوئی بھی جواز فراہم کیا گیا ہو۔ یہ سیاست دان اور اسلحے کے سوداگر جو ان جنگوں کی پشت پناہی کرتے ہیں وہ ایسا جمہوریت کی محبت میں نہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت کے تسلط پسندانہ مفادات کی تکمیل کے لیے کرتے ہیں۔ ’اسٹاپ دی وار‘ اور بہت سے دوسرے لوگ انکی دھمکیوں، بہتانوں اور چاپلوسیوں کے باوجود ان کی مخالفت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
نوٹس
۱۔ بین الاقوامی تعلقات میں، لبرل بین الاقوامی آرڈر : دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکہ کی قیادت میں لبرل جمہوری اتحادیوں کی جانب سے لبرل ازم اور لبرل انٹرنیشنلزم کے اصولوں پر تشکیل دیے گئے عالمی سلامتی، سیکورٹی تعاون، معیشت اور حکمرانی سے متعلق اصولوں اور اصولوں کاایک سیٹ جو ریاستوں کے درمیان پرامن، پیش قیاسی اور تعاون پر مبنی رویے کی حوصلہ افزائی کرنے والے ایسے قوانین کا مجموعہ ہے جو لبرل اقدار اور اصولوں سے مطابقت رکھتے ہوئے آزاد منڈیوں اور کھلی تجارت اور مالیات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی عالمی معیشتوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے، انسانی مساوات، جمہوری اقدار، آزادی، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کو فروغ دینے کا دعویدار ہے۔ اس نظام کو کبھی بھی طے نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوا جسے کثیرالجہتی ادارے جیسے اقوام متحدہ، عالمی تجارتی تنظیم، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور نیٹو وغیرہ اسے قانونی حیثیت دینے اور برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ مترجم
۲۔ ’اثر و رسوخ کے دائرہ (یا حلقے)‘ کی اصطلاح کا بین الاقوامی سیاست میں مطلب کسی ریاست کا کسی غیر ملکی علاقے یا علاقوں پر خصوصی یا غالب کنٹرول کا دعویٰ۔ یہ اصطلاح نے پہلی بار 1880ء میں ایک ایسے قانونی معاہدے کے طور پر سامنے آئی جسکا مقصد یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کی درمیان افریقہ اور ایشیا کی کالونیوں کی بندر بانٹ کے لیے جاری باہمی مسابقت کو پرامن اور طے شدہ طریقہ کار کے ذریعے جاری رکھنا تھا۔ مترجم
۳۔ اس اصطلاح کا مطلب بنیادی طور پر کسی ملک کی اپنی قومی خود مختاری کو برقرار رکھتے ہوئے، اپنے سے زیادہ طاقتور پڑوسی ملک کو خارجہ سیاست میں چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ ہے۔ مترجم