پاکستان

احمقوں کی سامراج مخالفت

فاروق سلہریا

مندرجہ ذیل مضمون پہلی بار 5 اپریل 2005ء کو انگریزی روزنامہ ’دی نیوز‘ میں شائع ہوا۔ ان دنوں نہ صرف پاکستان میں اسامہ بن لادن کو ’سامراج مخالف‘بنا کر پیش کیا جا رہا تھا بلکہ دائیں بازو کے بعض عالمی میڈیا ہاوسز تو اسامہ بن لادن کا چے گویرا سے موازنہ کرنے لگے تھے جس کا اصل مقصد چے گویرا کو بدنام کرنا تھا۔ اسامہ بن لادن کی امریکہ دشمنی اور چے گویرا کی سامراج مخالفت کے فرق کو واضح کرتا ہوا مندرجہ ذیل مضمون کا مقصد اس بحث میں وضاحت پیدا کرنا ہے جو کچھ دنوں سے پاکستان میں چل رہی ہے۔ اس بحث کا محرک خود عمران خان اور ان کے حامی بنے ہیں جو عمران خان اور بھٹو کا موازنہ کر رہے ہیں۔ عمران خان کی منافقانہ اور جھوٹی ’امریکہ دشمنی‘ اور بائیں بازو کی حقیقی سامراج مخالفت کا فرق سمجھنے کے لئے یہ مضمون اتنا ہی تازہ ہے جتنا سولہ سال پہلے۔

جب بعض کمزور بینائی والے کالم نگاراسامہ بن لادن کا موازنہ خوفناک حد تک خوبصورت چے گویرا سے کرتے ہیں تو اس موازنے سے چے گویرا کی شخصیت بری طرح مسخ ہوتی ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ چے کی کیپ زیادہ خوب صورت ہے اور اسامہ بن لادن کی پگڑی خوب صورت نہیں۔ پگڑی ایشیا اور افریقہ کی بے شمار ثقافتوں میں عزت کی علامت سمجھی جاتی ہے اور اتنی ہی جاذبِ نظر ہے جتنی کوئی کیپ،ہیٹ یا اس طرح کا کوئی پہناوا۔

سرمایہ داری علامتوں کی خرید و فروخت کرتی ہے۔ کارپوریٹ میڈیا نے پگڑی اورداڑھی کو القاعدہ برانڈ والی اسلامی بنیاد پرستی کی علامت بنا کر رکھ دیا ہے۔ چے گویرا کی شخصیت اس وجہ سے مسخ نہیں ہوتی کہ اس کا موازنہ داڑھی اور پگڑی والے اسامہ بن لادن سے کیا جاتا ہے۔ داڑھی اور پگڑی اس کی وجہ ہرگز بھی نہیں۔

اس کی وجہ اسامہ بن لادن کی جعلی سامراج مخالفت ہے جس کا چے گویرا کی سامراج مخالفت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

چے گویرا کی سامراج مخالفت کا مطلب ہے قومی آزادی،عورتوں کی آزادی، جمہوریت، سیاسی و سماجی ایمپاورمنٹ، مذہبی اقلیتوں کا تحفظ، مظلوم قومیتوں کے لئے حق خود ارادیت۔ سامراج مخالفت کا مطلب ہے ہر طرح کے جبر سے ہر طرح کے محکوم لوگوں کی نجات و آزادی۔

اسامہ بن لادن، یا پھرامام خمینی، کی سامراج مخالفت ایسی کسی آزادی کی حمایت تو درکنار ان آزادیوں کوبرداشت تک نہیں کرتی۔ ان کی سامراج مخالفت کا مطلب تو یہ ہے کہ مذہبی اقلیتوں اور چھوٹی قومیتوں کا گلا ہی دبا دو۔

سامراج مخالفت کے معنی ہیں حریت۔ آزادی۔ آپ بیک وقت آزادی پسند اور ظالم نہیں ہو سکتے۔ اسامہ بن لادن کو پوسٹر بوائے بنانے والی سامراج مخالفت اس تضاد کا کوئی حل پیش نہیں کرتی۔ اس طرح کی سامراج مخالفت کا تماشہ ہم بعض پاکستانی شہروں،ایران اور طالبان والے افغانستان میں دیکھ چکے ہیں جہاں سامراج مخالفت کو برقعے اور اقلیتوں کے گلے کاٹنے تک محدود کر دیا گیا۔

القاعدہ اسی طرح کی سامراج مخالفت کی غیر ریاستی شکل ہے۔ بم حملے، ہائی جیکنگ، اغوا: یہ ہے القاعدہ کی سامراج مخالفت۔ مسلم دنیا میں جس طرح کی سامراج مخالفت کا اظہار کیا جا رہا ہے یہ خالی خولی امریکہ دشمنی ہے۔

یہ دشمنی در اصل سامراج اور مذہبی جنونیوں کے مابین بنتے ٹوٹتے رشتوں کی عکاسی ہے۔ ماضی کے عاشق اور معشوق اب دشمن بن گئے ہیں۔ایک دور میں دونوں مل کر مسلم دنیا سے حقیقی سامراج مخالفوں کا خاتمہ کر رہے تھے۔ اس اشتراک کی کامیابی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب دونوں اتحادی آپس میں لڑ پڑے ہیں۔

ایک زمانہ تھا مسلم دنیا میں ترقی پسند قوم پرست، سوشلسٹ،کیمونسٹ…تا آنکہ ان کا خاتمہ کر دیا گیا…سامراج مخالفت کی علامت تھے۔ مصر کے جمال عبدالناصر، انڈونیشیا کے سائیکارنو، ایران کے مصدق، عراق کے جنرل قاسم یا بعد ازاں لیبیا کے قذافی (ابتدائی دور میں) پی ایل او کے یاسر عرفات، پاکستان کے بھٹو: چار دہائیوں تک مسلم دنیا میں سامراج مخالفت کی علامت بنے رہے۔

یہ مہان شخصیات آسمان سے نہیں ٹپک پڑی تھیں۔ یہ تمام لوگ ایک ترقی پسندانہ عہد کی پیداوار تھے۔ اس وقت کے کمیونسٹ بلاک سے باہر دنیا کی سب سے بڑی کیمونسٹ پارٹی (پی کے آئی) انڈونیشیا میں تھی۔ پی کے آئی کی حمایت ہی کی وجہ سے سائیکارنو نے بندونگ کانفرنس منعقد کرنے کی جرات کی۔ جنرل قاسم نے اگر عراق کو معاہدہ بغداد سے الگ کیا تو وجہ یہ تھی کہ انہیں عراق کی کمیونسٹ پارٹی، جو عرب دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی تھی، جنرل قاسم کی پشت پر کھڑی تھی۔ مصدق نے اگر ایران میں تیل کو قومی ملکیت میں لیا تو اس کی وجہ تھی کہ انہیں ملک کی سب سی منظم جماعت تودہ پارٹی (کمیونسٹ پارٹی) کی حمایت کا یقین تھا۔ امریکہ نواز فوجی آمر، جنرل ایوب، کو شکست دینے کے بعد پاستانی عوام نے ’سوشلسٹ بھٹو‘ کو اقتدار تک پہنچا دیا۔ اسی اعتماد کی بنا پر بھٹو نے کسی حد تک آزادانہ خارجہ پالیسی چلائی، زرعی اصلاحات کیں اور نیشنلائزیشن کا عمل شروع کیا۔

مسلم دنیا میں ترقی پسند قیادتوں نے ایک بار توان ڈھانچوں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں جو سامراج نے قائم کئے تھے اور بہیمانہ جبر کی مدد سے ان ڈھانچوں کو منظم کر رکھا تھا۔ ایسی سیکولر قوم پرست قیادت، جسے کمیونسٹوں کی پشت پناہی حاصل تھی، ختم کرنا ضروری تھا۔

1953ء میں ایک خونی بغاوت کے ذریعے مصدق کی حکومت ہٹائی گئی۔ سی آئی اے نے ایرانی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے مصدق کو مولویوں کے ساتھ مل کر فارغ کیا۔ مغرب نواز ملاوں کو سی آئی اے کی جانب سے ان دنوں پانچ ملین ڈالر دئے گئے تا کہ وہ ہنگامے کرا سکیں اور شاہ ایران کو تخت پر بحال کرا سکیں۔ تودہ پارٹی کو بھی خاموش کرا دیا گیا۔ زبردست جبر کے ذریعے اسے کارنر کیا گیا۔

عراق اور انڈونیشیا ایک ہی وقت میں خون سے نہلا دئیے گئے۔ ملا ملٹری اور سی آئی کے اتحاد نے مل کر انڈونیشیا میں دس لاکھ کمیونسٹوں اور ان کے اتحادیوں کا قتل عام کیا۔ کمیونسٹوں کی یہ فہرستیں سی آئی اے نے فراہم کیں۔ ’سرخوں‘ کے خلاف اس ’جہاد‘ میں ندوۃ العلما پیش پیش تھی۔ عراق میں کمیونسٹوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا مکروہ فریضہ (پہلے 1963ء اور دوبارہ 1967-68ء میں) بعث پارٹی نے سر انجام دیا کیونکہ عراق سوشلزم کے دروازے پر دستک دے رہا تھا اور عراق میں مولویوں کی کوئی سماجی و سیاسی طاقت تھی ہی نہیں۔

دس سال بعد بھٹو کو بھی مثال بنا دیا گیا۔ ملا ملٹری الائنس، جسے امریکہ کی آشیرباد حاصل تھی، نے بھٹو کو پھانسی گھاٹ تک پہنچایا۔ مصر میں انور سادات نے ناصر دور کی اصلاحات کا گلا گھونٹا اور اخوان المسلمین یا اسلامی جہاد ایسے گروہوں کو بحال کیا تا کہ بائیں بازو کا مقابلہ کیا جا سکے۔ افغانستان کا قصہ تو سب کو ہی معلوم ہے۔ ڈاکٹر نجیب کی سیکولر حکومت کو ختم کرنے کے لئے اسامہ بن لادن کو سعودی عرب سے لایا گیا۔

مندرجہ بالا تمام واقعات میں جگہ جگہ آپ کو بنیاد پرستوں اور امریکی سامراج کا واضح اتحاد نظر آئے گا۔ جب مسلم دنیا میں قوم پرست رہنماوں کو مار دیا گیا یا کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کو کارنر کیا جا چکا تو میدان جعلی سامراج دشموں کے لئے کھلا تھا۔ خمینی، اسامہ بن لادن، ملا عمر، پاکستان میں فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد جیسے لوگ اس عمل کی علامت ہیں۔

ان جعلی سامراج مخالفوں کے پاس پروگرام کیا ہے؟

کسی امریکی سفارت خانے پر حملہ کر دو، ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو اڑا دو، میڈرڈ میں خود کش حملے کر دو، بدھا کا مجسمہ گرا دو…

اس طرح کی ’سامراج دشمنی‘ سے وقتی طور پر وائٹ ہاوس کا مکین یا لندن، پیرس اور برلن میں بیٹھے وائٹ ہاؤس کے صوبے دار وقتی طور پر پریشان ضرور ہوتے ہیں لیکن اس معمولی سی درد سر کا اس عارضہ قلب سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا جس کا شکار سامراج اس وقت ہوتا ہے کہ جب جمال عبدالناصر نہر سویز کو قومی ملکیت میں لے لیتا ہے، سائیکارنو بندونگ کانفرنس بلاتا ہے، بھٹو ایٹمی پروگرام شروع کر دیتا ہے، یا مصدق تیل کی پیداوار کو ایران کی قومی ملکیت میں لے لیتا ہے۔ یہ بات مسلم دنیا کی حد تک ہی درست نہیں۔ کاسترو، ڈاکٹر الاندے، ساندانستاز یا ہیوگو شاویز بھی جب لاطینی امریکہ میں اس طرح کے اقدامات کرتے ہیں تو امریکی سامراج کو ہارٹ اٹیک آنے لگتا ہے۔

ایک ایسی سامراج مخالفت جو تیل کو ینشنلائز کرنے کی بات نہ کرے (اسامہ بن لادن کا کہنا ہے کہ تیل عربوں کی ملکیت ہے مگر وہ اس کی نیشنلائزیشن کے خلاف ہیں)، زرعی اصلاحات متعارف نہ کرائے، یا مزدوروں کو ٹریڈ یونین نہ بنانے دے…ایسی سامراج مخالفت سے سامراج کو کوئی پریشانی نہیں۔

القاعدہ والی’سامراج مخالفت‘ کی بنیاد ہے: عورت دشمنی، مذہبی اقلیتوں پر جبر، مظلوم قومیتوں کے حق خود ارادیت پر ڈاکہ، مزدور کسان دشمنی، سیاسی جماعتوں پر پابندی۔

سامراج بھی تو یہی سب کچھ چاہتا ہے۔ یوں گویا سامراج جو کام تیسری دنیا یا مسلم دنیا میں کرنا چاہتا ہے اس کے لئے یہ خدمات مذہبی بنیاد پرست فراہم کر رہے ہیں۔

ملٹی نیشنل کمپنیوں کو وہ ملک زیادہ سود مند دکھائی دیتے ہیں جہاں عوام پر شدید جبر ہو، ٹریڈ یونینز مفقود یا کمزور ہوں اور شہری حقوق سلب کئے جا چکے ہوں۔ بنیاد پرست یہ تمام خدمات ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فراہم کرتے ہیں۔ اس قسم کی سامراج مخالفت کو احمقوں کی سامراج مخالفت ہی کہا جا سکتا ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔