فاروق طارق
اصل سرپرائز اب ملا ہے۔ ججوں نے آئین شکنوں کے خلاف ایک واضع فیصلہ کر کے سب کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ بڑے بڑے سیاسی پنڈٹ اور اینکرز بھی سوچ نہ سکتے تھے کہ یہ پانچ جج اس قسم کا فیصلہ دیں گے جو ابھی سامنے آیا ہے۔
یہ کیوں ہوا؟ اس لئے کہ ججوں کے پاس کوئی اور چوائس نہیں تھی۔ آئین کی اس قدر کھلی پامالی وہ بھی ایک سویلین حکومت کے ہاتھوں، دو منٹوں میں تحریک عدم اعتماد مسترد، 15 منٹوں میں اسمبلیاں تحلیل اور آدھے گھنٹے میں صدر نے سمری منظور بھی کر لی۔ یہ سب کو نظر آ رہا تھا۔ ججوں نے تھوڑی اٹکھیلیاں کیں، چار دن پورے ملک کی توجہ کا مرکز بنے رہے اور پھر وہ فیصلہ سنایا جس کی کم لوگ امید کر رہے تھے سوائے ہمارے۔
عمران خان نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طریقے سے وہ اقتدار پرچمٹا رہے۔ کبھی مذہب کے استعمال کے نام پر اور کبھی غیر ملکی سازش کے نام پر، مگر علیم خان اور جہانگیر ترین کے کھل کر سامنے آنے سے اس کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا۔ یہ دونوں دبے لفظوں میں بار بار کہہ رہے تھے ”ہماری بلی اور ہمیں ہی میاؤں میاؤں“۔ آپ ان سرمایہ داروں سے اپوزیشن میں جب تھے کھل کے پیسے کھاتے رہے اور پھر ان کو ان عہدوں پر فائز نہ کیا جس کا وہ مطالبہ کر رہے تھے۔ جہانگیر ترین کو اسی سپریم کورٹ سے نااہل قرار دلوا دیا۔ یہی کچھ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیا، ان کو بھی اقتدار میں آ کر آنکھیں دکھائیں۔ کھلی دھمکیاں دیں اور کہا ”میں اقتدار سے باہر زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا“۔ اقتدار بڑی ظالم چیز ہے آپ کے پاس ہے تو آپ سب پر بھاری، یہ گیا تو سب کچھ الٹ۔
عمران خان نے پہلے آئی ایم ایف کی ہر طرح سے منتیں کیں کہ قرضہ دیدو۔ ان کے بندے حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ لگا دیا اور انہی کے بندے رضا باقر کو سٹیٹ بینک کا گورنر بنا دیا۔ پہلے حفیظ شیخ کو بے عزت کر کے نکالا، پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پشت پناہی، امریکہ مخالف جعلی نعرے بازی اور سب سے بڑھ کے روس کا اس وقت دورہ جب جنگ چھڑ گئی تھی۔ پھر اس کی حمائیت کا اعلان۔ عمران خان کے نزدیک یہ سب تماشا تھا، کھیل کود تھی۔ کچھ نہیں ہوتا۔ آپنے آپ کو دنیا کا سب سے ذہین سمجھنے کی غلطی، تو نتیجہ تو بھگتنا ہی پڑنا تھا۔ بلی اپنے آقا کو ایک دو بار تو میاؤں میاؤں کر سکتی ہے بار بار نہیں۔
عمران خان حکومت پاکستان کی نالائق ترین حکومت ہے، ابھی’تھی‘ ہو جائے گی ایک دو روز میں۔ یہ گورننس میں بہتر تو نہ تھی مگر بڑھک بازی سارے جہاں کی کرتی رہی۔ عمران خان سرمایہ داری کا بگڑا بچہ تھا ساری عمر یورپ کی عیاشیاں کرتا رہا۔ سرمایہ دار خواتین سے نئی نئی عشق بازیاں اور حاجی نمازی ہونے کا ڈھونگ سجا لیا۔ جادو ٹونے پر یقین اور اس کی ناک تلے دنیا بھر کی کرپشن عروج پر۔ رشوت کے ریٹ جس طرح عمران خان دور میں بڑھے کسی اور دور میں نہ تھے۔ فرح خان ایک مثال تھی مگر درجنوں فرح خانیاں ملک بھر میں موجود تھیں۔ کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرنے والی حکومت کے دور میں کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم اور نئے طریقے دریافت۔ کیا وزیر اعلیٰ ڈھونڈا پنجاب کے لئے جس میں گورننس نام کی کوئی اہلیت نہ تھی۔ پورے پنجاب کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی اور یہ اپنے ضلع کو بہتر بنانے کا ڈرامہ کرتا رہا۔ پھر جب پوری پارٹی اس کو ہٹانے پر مصر تھی۔ خان صاحب کی سوئی ان پر اٹکی ہوئی تھی۔ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ان کا فیصلہ غلط ثابت ہو ہی نہیں سکتا۔
عمران خان کی پارٹی میں بغاوت کروڑوں روپے کے لئے نہیں تھی اپنا ووٹ بینک بچانے کے لئے تھی۔ ممبران پارلیمنٹ کو واضح تھا کہ تحریک انصاف اب ووٹ کھو دینے کا نام ہے جیتنے کا نہیں۔ اگر سیٹ جیتنی ہے تو اس کو چھوڑو، ان پر الزام کہ بک گئے مگر اگر وہ واپس آ جائیں تو دودھ کے دھلے ڈیکلیئرڈ ہوں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس قدر تیز مہنگائی کی لہر کبھی نہ آئی تھی جس قدر ساڑھے تین سالوں میں سامنے آئی۔ بری طرز حکومت کا بھی اس میں بڑا ہاتھ تھا دیگر فیکٹرز کے علاوہ۔ پاکستان کو بے رحم مارکیٹ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس دور میں جتنا منافع سرمایہ داروں، بینکوں، انشورنس کمپنیوں، پرائیویٹ بڑے اداروں نے کمایا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک سال میں 2500 ارب روپے کی سرکاری مراعات سرمایہ دار طبقات کے لئے ایک ریکارڈ تھی۔ صحت کاشعبہ صحت کارڈ کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ پرائیویٹ بڑے ہسپتالوں کے منافعوں میں دن دگنی رات چوگنی اضافہ ہوا۔ حکومت عجیب طرز کے ڈھیٹ منافقوں کی تھی جن کو جھوٹ بولتے کوئی شرم نہیں۔ پیسے ہے نہیں اور ہر ضلع میں یونیورسٹیوں کے قیام کا جھوٹا اعلان۔ بزدار جہاں جاتا سینکڑوں ارب کے منصوبوں کا اعلان۔ اعلان کرنا ہی اپنی صلاحیت سمجھ لیا گیا۔ جھوٹے اعلانات کی بھرمار اوراعلانات کی بنیاد پر اخبارات کو صفحے صفحے کے مبارک باد اشتہارات چھپوا لینا کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔
دو سو روپے لیٹر خوردنی آئل جب پانچ سو روپے کا ملے تو ایسے اعلانات پر لوگ غصہ نہ کریں تو کیا کریں۔ استعمال کی ہر چیز انہوں نے مہنگی کی اور ریاستی کنٹرول نام کی کوئی چیز نظر ہی نہ آتی تھی۔ بجلی، آئل اور گیس کی قیمتوں میں بھی مسلسل آضافہ کیا گیا۔ جس میں اضافہ نہ ہوا وہ تنخواہ تھی۔ محنت کش طبقات کی عزت نفس کی مزید تذلیل کرنے کے لئے انہوں نے باقاعدہ سرکاری لنگر خانے کھول دیئے۔ اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کیا جاتا تھا۔
اب اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو سکتی ہے شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں۔ ان سے بہتری کی امید رکھنا مشکل ہے۔ شہباز شریف تو ہر صورت نجکاری کو فروغ دے گا۔ تیزی سے سرکاری ادارے بیچنے کی کوشش کرے گا۔ مزید قرضے حاصل کرے گا مگر یہ سب کچھ محنت کش طبقات کے لئے نہیں اپنے سرمایہ دار طبقہ کے لئے۔ ضرورت ہے ایک آزادانہ انقلابی آواز اور تنظیم تعمیر کرنے کی جو ان سرمایہ دار طبقات پر خوش فہمیاں رکھنے کی بجائے بائیں بازو کے نظریات کی تعمیر کرے۔ ایک سے جان چھوٹے گی تو دیکھیں گے کہ نئے حکمرانوں کی کیا چال ڈھال ہے۔ اگر عمرانی وطیرہ رہا جس کی زیادہ امید کی جا سکتی ہے تو پھر محنت کش طبقات کو منظم کرنے کی مہم پہلے سے بھی زیادہ تیز کریں گے۔