رانا سیف
ہمارا ہر سرکاری ادارہ شتر بے مہار اور بد عنوانی کے ایسے ظالمانہ طریقوں اور راستوں کا استعمال کرتا نظر آتا ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان میں سرکاری اداروں کی بد عنوانیوں اور بد انتظامیوں کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے، کہ اس ملک میں کوئی نظام کار سرکار ہے بھی یا نہیں؟
چند روز قبل مجھے اپنی بیٹی کے شناختی کارڈ کے لئے نادرا کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔ لاہور جیسے کروڑوں کی آبادی پر مشتمل بڑے شہر میں 24 گھنٹے خدمات کی فراہمی کے لئے صرف ایک ہی سنٹر ہے۔ وہاں ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات چھٹی کے روز کی وجہ سے لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ جب میں نے ٹوکن لیا، تو مجھے 3175 نمبر ملا، جبکہ اس وقت 2280 نمبر سکرین پر چل رہا تھا۔ اتنا رش دیکھ کر لوگ پریشان تھے کہ کریں تو کیا کریں؟
اسی اثنا میں رات کے 11 بجے پتہ چلا کہ 60 فیصد کاؤنٹر بند کر دئیے گئے ہیں اور عملہ گھروں کو چلا گیا ہے۔ میں اس صورتحال میں اندر سے باہر آیا تو مجھے ایک ایجنٹ نے گھیر لیا کہ صاحب اگر جلدی کارڈ بنوانا ہے تو صرف 500 روپے لگیں گے۔ میں نے انکار کیا تو وہ ایک اور صاحب کے پیچھے ہو لیا، ان صاحب نے 400 میں ایجنٹ سے معاملہ طے کیا اورصرف آدھے گھنٹے بعد ان کی باری آ گئی۔ یہاں یہ چکر کیسے چلتا ہے اور کیا ہوتا ہے اور ایسا کیسے ممکن ہے؟
یہ جاننے کے لئے میں ٹوکن مشین کے پاس آن کھڑا ہوا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایجنٹ ٹائپ لوگ وہاں سے اضافی ٹوکن لے کر اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں۔ بعد میں آنے والوں کو یہ ٹوکن نمبر فروخت کئے جاتے ہیں۔ اگر کسی ٹوکن نمبر کے لئے آواز پڑ بھی چکی ہو تو عملہ کی ملی بھگت سے اسے دوبارہ بھی موقع مل سکتا ہے۔ اس طرح نادرا کے دفتر میں جہاں عام شناختی کارڈ کی فیس 750 روپے ہے، وہاں 500 تک اضافی رشوت دینے سے معاملہ فوری حل ہو جاتا ہے۔
رات 3 بجے کے بعد نئے ٹوکن جاری کرنے کے لئے کاؤنٹر بند کر دئیے جاتے ہیں اور گنتی پھر ایک دو تین سے شروع کر دی جاتی ہے۔ اس عمل پر بھی کافی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔
بہر حال جب ہماری باری آئی تو پتہ چلا کہ اگر ہم شناختی کارڈ گھر پر منگوانا چاہیں، تو بذریعہ کورئیر یہ سہولت بھی دستیاب ہے۔ بس اس کے لئے الگ سے فیس جمع کروائیں۔ وہاں رش کا عالم دیکھ کر میں نے بھی کورئیر کی خدمات حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی، تو یہ جان کر حیران رہ گیا کہ یہ سہولت پاکستان پوسٹ کی بجائے ایک نجی کورئیر کمپنی ’TCS‘ کے ذریعہ دی جا رہی ہے۔ یہ کس قدر بڑا ظلم ہے کہ ایک سرکاری ادارہ دوسرے سرکاری ادارہ کو چھوڑ کر نجی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر کے قومی خزانہ کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگا رہا ہے۔ جس کاؤنٹر سے ہم شناختی کارڈ بنوا رہے تھے، صرف اسی کاؤنٹر پر میری موجودگی میں کارڈ بنوانے والے 3 افراد نے کورئیر کے ذریعہ ہی کارڈ منگوانے کے لئے الگ رقم جمع کروائی۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ فیس جمع کرواتے وقت اگر کسی شخص کا بقایا 10، 20 یا 50 روپے بن رہا ہے، تو کاونٹر پر موجود صاحب کے پاس چھوٹے نوٹ نہ ہیں اور صارف کو چینج لانے کے لئے کہا جاتا ہے۔ لوگ باہر خوار ہونے سے بچنے کے لیے وہ رقم تکنیکی مہارت سے لیس فقیروں کو دل ہی دل میں گالیاں نکالتے ہوئے بخش آتے ہیں۔
بد عنوانی کرنے اور سرکاری معاملات کو اپنی مرضی سے طے کرنے کی اس سے بد ترین مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔
کیا کوئی یہ بتانے کا حوصلہ کرے گا کہ نادرا حکام نے کس قانون اور ضابطے کے تحت سرکاری ادارہ پاکستان پوسٹ کو نظر انداز کر کے ایک پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ شناختی کارڈ جیسی اہم دستاویزات گھر پر بھجوانے کے لئے معاملات طے کئے؟
نادرا کب سے اس غیر قانونی حرکت میں ملوث ہے اور وزارت داخلہ نے اب تک اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا ہے؟
کیا نادرا کی اس سنگین بے ضابطگی کے خلاف نظام احتساب حرکت میں آئے گا؟
اوپر سے مزید ظلم یہ کہ نادرا لاہور کے دفتر واقع شملہ پہاڑی ایجرٹن روڈ کے ہال میں غلط بنا ہوا قومی جھنڈا ایستادہ ہے۔ اس کی تحریری نشاندہی کی لیکن آج تک اس پر کوئی جواب نہ آیا اور نہ ہی جھنڈا درست کر کے ہال میں آویزاں کیا گیا۔ کر لو جو کرنا ہے نادرا کا!