حارث قدیر
سیاسی طنز و مزاح پر مبنی ولاگ ’سیاسی کلاس روم‘ کرنے والی وی لاگر تامینہ مرزا کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اپنی حمایتی مڈل کلاس کو گالم گلوچ کلچر پر اس طرح سے تیار کیا ہے کہ معاشرہ سیاسی سیٹائر یا طنز و مزاح کو سمجھنے اور حس جمالیات سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
تامینہ مرزا بنیادی طور پر درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ سیاسی طور پر متحرک رہی ہیں اور بالخصوص معاشرے میں شدت پسندی کے خلاف انسانی حقوق اور امن کیلئے آواز بلند کر تی رہی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر ’سیاسی کلاس روم‘ کے نام سے سیاسی طنزو مزاح پر مبنی ولاگ بناتی ہیں۔ حال ہی میں شروع کیا گیا یہ سلسلہ تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔
ان کے یہ وی لاگس اس لنک پر سنے جا سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ’جدوجہد‘ نے ان کا ایک انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
’سیاسی کلاس روم‘ شروع کرنے کا خیال کیسے آیا؟
تامینہ مرزا: سیاسی کلاس روم ایک طنزو مزاح کے حوالے سے بنایا گیا سوشل میڈیا پیج ہے۔ یہاں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سیاست پر تبصرہ کیا جائے۔ میرا بیک گراؤنڈ چونکہ درس و تدریس سے ہے، اس لئے اپنی پہچان اور ٹائٹل کو ملانے کی کوشش کی ہے، تاکہ مقصد بھی پتا چل سکے اور شناخت بھی بن جائے۔ اپنی آواز کو ’وی لاگنگ‘ کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
تھوڑا بہت ایکٹو ازم بھی کیا ہے، سیاست اور ملکی حالات کے حوالے سے آپ زیادہ دیر اس سب سے دور بھی نہیں رہ سکتے، جب بھی آپ کو یہ لگے کہ کچھ ہو رہا ہے، تو آپ کو اس پر رد عمل دینا ہوتا ہے۔ ابتدا میں وقت نکالنا مشکل تھا، لیکن سوشل میڈیا نے کچھ آسانیاں پیدا کیں، سوشل میڈیا وی لاگنگ شروع کی۔ ابتدا میں اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ہی ویڈیوز ڈالنا شروع کیں، لیکن جب یہ محسوس ہوا کہ لوگ ویڈیوز کو پسند کر رہے ہیں تو پھر پیج بنانے پر غور شروع کیا اور ’سیاسی کلاس روم‘ بنا دیا۔ اس میں ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر ذاتیات پر حملہ کئے بغیر طنز و مزاح کے ذریعے منافقت کو بے نقاب کیا جائے۔ سیاسی صورتحال یا موجودہ صورتحال پر اظہار رائے کا ایک موقع بھی مل جاتا ہے۔
کسی حد تک یہ ایک انوکھی بات ہے کہ ایک خاتون سیاسی سیٹائر کر رہی ہیں۔ آپ کے اپنے خیال میں جینڈر اس معاملے میں کتنا اہم ہے اور کیا یہ پہلو آپ کے ذہن میں تھا؟
تامینہ مرزا: ایک تو یقینی طور پر وقت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، عورتوں کی شرکت ہر شعبہ میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔ سیاست میں شرکت ہو، خواتین کے حقوق، سماجی حقوق یا شہری حقوق ہوں، خواتین کو اب ہر بات کا شعور ہے۔ سوشل میڈیا، خاص کر انسٹاگرام نے اس چیز کو محدود کر دیا اور ایسا بنا دیا کہ جیسے عورتیں صرف میک اپ ہی کر سکتی ہیں، لیکن اس کے علاوہ بھی بہت کام ہو رہا ہے۔
ٹاک شوز دیکھیں تو سیاسی کارکنان، انسانی حقوق کی کارکنان، سیاسی تجزیہ نگار اور پھر اینکرز کی ایک بڑی تعداد نظر آئے گی۔ جو بھی کوئی فیصلہ ہوتا ہے وہ صرف ایک جینڈر کو متاثر نہیں کرتا، عورت کو بھی اتنا ہی متاثر کرتا ہے، اس لئے انہیں بھی اس فیصلہ سازی کا حصہ ہونا چاہیے۔ جب میں نے یہ اپنی سیاسی کمنٹری شروع کی تھی تو مجھے لگا کہ قدرتی طور پر مجھ میں ایک طنز و مزاح کی صلاحیت موجود ہے، جسے نکھارا جانا چاہیے۔ جب لوگوں نے پسند کیا تو مزید نکھار لانے کی کوشش کر رہی ہوں، یہی پروگرام ہے کہ اس کو آگے بڑھانا ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ مزاح کو شامل کرتے ہوئے سیٹائر کے ساتھ اس کو پیش کیا جائے۔
اگر ہم کہیں کہ پاکستان میں بڑی کوئی صنفی مساوات ہے تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے، لیکن اس سب سے ہمیں باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ اگر میں بطور عورت یہ سوچتی رہوں کہ اگر میں نے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر لی تو کل میری ٹرولنگ ہو گی یا مجھے تنگ کیا جائے تو پھر کچھ بھی نہیں ہو سکتا، ان چیزوں کو پیچھے رکھ کر آپ کو اپنا کام مستقل مزاجی سے کرنا چاہیے۔ یہ میں نے بھی نہیں سوچا کہ یہ کوئی انوکھی یا انہونی بات ہے، مجھی یہ ایک نیچرل سی چیز لگی تو میں نے کر لی۔
آپ کے ابتدائی وی لاگس عمران خان اور پی ٹی آئی بارے تھے۔ بعد ازاں، مریم نواز بھی آپ کی لطیف تنقید کا نشانہ بنیں۔ ’قوم یوتھ‘ اور مریم نواز کے حامیوں کا رد عمل کیسا ریا؟
تامینہ مرزا: زیادہ تر میرا مواد عمران خان اور ان کے فالوورز کے حوالے سے ہوتا ہے۔ تاہم مجھے جو بھی چیز غلط نظر آئے گی، بلاتفریق سب کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔ کسی کی تضحیک کئے بغیر اس کو اپنی نیچرل کمنٹری کی شکل میں منافقت کو سامنے لایا جائے۔ آہستہ آہستہ سب پر تنقید ہو گی۔ عمومی طور پر لوگوں کی طرف سے تین طرح کے رد عمل ہوتے ہیں، ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو دلیل اوراعداد و شمار کے ساتھ کاؤنٹر کرتے ہیں۔ دوسرے گالیاں دینے میں شیر ہوتے ہیں۔ یہ وہ کی بورڈ وارئیرز ہیں جو دھمکیاں دیتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، آپ کی شکل پر تنقید کرتے اور عورت مخالف سوچ کی بنیاد پر تنقید کرتے ہیں، تاکہ تنقید کرنے والا گھبرا کر چپ ہو جائے۔ تیسرے وہ لوگ ہوتے ہیں، جو آپ سے اتفاق کر رہے ہوتے ہیں۔ عمران خان نے لوگوں کو ایسے ہی تربیت کی ہے، خود بھی وہ تنقید برداشت نہیں کر سکتے۔ جب ان سے کوئی بات کی جائے تو ان کے پاس کوئی اعداد و شمار اور دلیل نہیں ہوتی۔ سب چیزوں کو توڑ مروڑ کر ایک ہی جگہ پر لے آتے ہیں کہ کیا ہم کوئی غلام ہیں یا چور ڈاکو لٹیرے والی کہانی سے جوڑ دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ مسلسل سن سن کر پوری ایک نسل اس طریقے پر چل پڑی ہے۔ یہ عجیب قسم کا ایک عنصر ہے جس کے اثرات آنیوالی نسلوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔ عمران خان نے نسلوں کو تباہ کر دیا ہے۔ 50 لاکھ گھروں، ایک کروڑ نوکریوں کے وعدوں سمیت دیگر اعلانات پورے نہ کرنے پر جو بھی تنقید کرے گا اسے گالیاں دی جاتی ہیں۔ مریم نواز پر بھی میں نے تنقید کی ہے لیکن جتنے لوگ بھی رائے کا اظہار کرتے ہیں، خاص کر ن لیگ کے لوگ اس تنقید سے اتفاق بھی کرتے ہیں۔ شاید کہیں تنقید بھی ہوئی ہو، ہر ایک کو کوئی بات اچھی اور کوئی بری لگتی ہے۔ بہر حال سیاسی کلاس روم کو جو چیز بری لگے گی اسے ہم طنزیہ طریقے سے ضرور بے نقاب کرنے کی کوشش کرینگے۔
کن مشکلات کا سامنا رہا؟
تامینہ مرزا: زندگی میں کوئی بھی کام کرنے کیلئے نکلتے ہیں تو ہمیں چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں خاص طور پر عورتوں کیلئے زیادہ مشکلات اور چیلنجز ہیں۔ اگر میں مشکلات گننا شروع کر دوں گی، تو میرے مقاصد پیچھے رہ جائیں گے۔ وقت نکالنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ آئیڈیاز اور انکا تجزیہ کرنا اور ان کو ایک مزاحیہ طریقے میں ڈھالنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ ایک مسئلہ تنقید یا گالم گلوچ کا بھی ہے۔ تنقید کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن یہاں لوگ سیدھا گالم گلوچ پر پہنچ جاتے ہیں، عورت مخالف حملے شروع ہو جاتے ہیں اور کردارکشی شروع کر دی جاتی ہے۔ یہ کام بہت آسان ہوتا ہے، ایک بندہ شروع کرے گا، تو 100 اور بعض اوقات ہزاروں لوگ اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔
کوئی چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو اس چیز کی مذمت کر رہے ہوتے ہیں۔ میرے دوستوں اور جاننے والوں نے کافی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس لئے میں نے اس سب کو نظر انداز کر کے اپنا کام جاری رکھا۔ میں ان خواتین میں سے ہوں، جنہیں یہ یقین ہے کہ آپ کو ہر حال میں اپنے آپ پر بھروسہ کرنا چاہیے اور مضبوط رہنا چاہیے۔ میں ٹیچربھی ہوں، اس لئے طلبہ کو بھی یہی بتاتی ہوں کہ ان چیزوں سے گھبرا کر آپ نے رکنا نہیں ہے۔ خصوصی طور پر طالبات کو میں بتاتی ہوں کہ مشکلات آئیں گی، لیکن انہیں دیکھ کر گھبرانا نہیں ہے، بلکہ آگے بڑھتے جانا ہے۔
اب تک کا عمومی رد عمل کیسا رہا۔ بہت سے لوگوں نے آپ کو سراہا اور پذیرائی بھی ملی۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟
تامینہ مرزا: جہاں تک سراہنے کی بات ہے، مجھے اس بات پر یقین ہے کہ انسان کو خوشامد پسند نہیں ہونی چاہیے۔ تعریف ہر ایک کو پسند ہوتی ہے، لیکن جو لوگ آپ کے کام کو دیکھتے ہوئے یا آپ کی کوشش کو تسلیم کرتے ہوئے دل سے آپ کو تعریفی کلمات سے نوازتے ہیں تو لازمی بات ہے خوشی ہوتی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ لوگ آپ کا نقطہ نظر سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص آپ کی بات سمجھ کر آپ کو داد دیتا ہے، تو یہ بہت بڑی حاصلات ہوتی ہیں۔ اب الیکٹرانک میڈیا کادور ہے، یہ سب کو پتہ چل چکا ہے کہ عوام کا دماغ ایک ساختی طریقے سے تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ ہر ایک اپنے حالات سے تنگ آیا ہوا ہے اور کچھ لوگ ہیں جو اپنے ضمیر کی آواز سن کر بولتے ہیں۔ اس میں میری تھوڑی بہت آواز اگر کہیں پہنچتی ہے اور لوگ اسے سنتے ہیں تو اس پر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ جب خیالات ملتے ہیں تو ہی رابطہ بنتا ہے اور بات آگے سے آگے بڑھتی ہے۔ جو تنقید کرتے ہیں، وہ بالکل حق رکھتے ہیں ضروری نہیں کہ ہر بندہ آپ سے اتفاق کرے، تنقید کے بھی طریقے ہوتے ہیں، منطقی اختلاف کریں، تنقید کریں۔ آزادی اظہارآپ کا حق ہے، تھاٹ پراسیس کو آگے بڑھنا چاہیے۔ گالی دینا یا مذاق اڑا دینا اختلاف رائے نہیں ہے، یہ ایسا ہے کہ آپ نے شکست تسلیم کر لی، آپ کے پاس کاؤنٹر کرنے کیلئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہم نے ابھی تک مل بیٹھ کر باتوں کو زیر بحث لانا، تمیز کے دائرے میں رہ کرمباحثہ کرنا سیکھا ہی نہیں ہے۔ ہر بات کا حل گالی دینا، تھپڑ مارنا یا جان سے مار دینا ہی سکھایا گیا ہے اور یہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔
ملک میں جس طرح گالی گلوچ کا سیاسی کلچر فروغ پا گیا ہے، ایسے میں سٹائر کیوں ضروری ہے، اس کی کیا اہمیت ہے؟
تامینہ مرزا: گالم گلوچ کا جو کلچر ہے، اس کو فروغ دینے کے پیچھے عمران خان کا ایک بہت بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے مڈل کلاس میں زبردست طریقے سے پیر جمائے ہوئے ہیں اور اس کو پراگندہ کرنے میں بھی ان کا بہت کردار ہے۔ مڈل کلاس کے جتنے مسائل ہیں، ان کا اظہار وہ گالیاں دے کر کرتے ہیں۔ ایک فضول طریقہ انہوں نے اپنا لیا ہے۔ یہ نفسیات تبدیل نہیں ہو رہی ہے۔ وہی مسائل جو اپنے دور میں ڈیل نہیں کر سکے، اب اس کا دفاع کرنے کیلئے عمران خان کا جو گروہ ہے، وہ گالم گلوچ کا سہارا لیتا ہے۔ اس لئے طنزیہ ویڈیوز بنانے کا خیال ذہن میں آیا کہ اگر تنقید ہی کرنی ہے، تو اس کو تہذیب کے دائرے میں رہ کر طنز کیا جا سکتا ہے۔
ضروری نہیں کہ گالم گلوچ کر کے ہی یہ سمجھا جائے کہ بہت بڑا تیر مار لیا ہے۔ طنز یا سیٹائر کی ایک بہت بڑی اہمیت ہے، اگر اس کو درست طریقے سے استعمال کیا جائے، تو اس سے معاشرے کی کافی برائیوں کی نہ صرف نشاندہی ہوتی ہے، بلکہ اصلاح کا بھی پہلو نکلتا ہے۔ گالی سے کچھ بھی نہیں نکلتا، سیٹائر سے لوگ شناخت کر سکتے ہیں اور آپ سے جڑتے ہیں، گالی سے آگے بندہ غصے میں آتا ہے اور اس طرح کوئی مباحثہ یا کوئی تعمیری کام نہیں نکلے گا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ریاستی ٹی وی چینلوں پر اس طرح کے طنزیہ پروگرام اپنی حکومتوں پر سیٹائر کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ اس لئے نہیں ہوتاکہ ہم نے اتنی شدت پسندی معاشرے میں بھر لی ہے کہ صبر ختم ہو گیا ہے۔ بس صرف گالی دینی ہے، اگلے کو اتنا ذلیل کرنا ہے کہ وہ آپ سے بات کرنے کا روادار ہی نہ ہو۔ اب تو مین سٹریم میڈیا کا بھی اس میں بہت بڑا ہاتھ ہے، کیونکہ آپ نے ریٹنگ بڑھانی ہے، ایسے ایسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، جن کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
میں عام فہم زبان استعمال کرتی ہوں، جو گھروں میں استعمال ہوتی ہے اور حدود میں رہتے ہوئے طنز کرتی ہوں۔ گالم گلوچ کا کلچر کوئی تعمیری چیز نہیں ہے، اس سے ہماری معاشرتی پستی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جب ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تو ہم گالی دے کر سوچتے ہیں کہ ہم نے جواب دے دیا ہے۔ تاہم گالم گلوچ نے کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں کیا ہے۔
اردو ادب میں تو سیاسی سیٹائر کی ایک زبردست روایت موجود رہی ہے۔ منٹو کے چچا سام کو خطوط سے لے کر محمد حنیف کے کالموں تک۔ سیاسی سیٹائر کو سوشل میڈیا پر لے کر آنا کس حد تک مختلف یا چیلنجنگ ہے۔ کیا آپ سیٹائر لکھتی بھی ہیں؟
تامینہ مرزا: پطرس بخاری کے پیدا ہونے والے نہ حالات رہے اور نہ وہ سامعین رہے، جو اس لیول کا سیٹائر سمجھ سکیں، یہاں تک کہ سیٹائر کو سمجھنے والے ذہن بھی ہمارے اس طرح کے نہیں رہے۔ عمران خان پر طنز ہو رہا ہو تو عمران خان کے ساتھی خوش ہو جاتے ہیں۔ ن لیگ کے خلاف تنقید ہو تو اسے وہی خوش ہو کر شیئر کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نہ وہ حس جمالیات رہی، نہ وہ ادب اور لٹریچر سے لگاؤ والے لوگ رہے ہیں۔ انور مقصود نے جو سیٹائر کیا ہے اور جو طنز کیا ہے وہ بھی آؤٹ کلاس ہے، اسے دیکھ دیکھ کر ہم بڑے ہوئے ہیں۔ اب تو ہمیں ایسا کچھ نظر نہیں آتا، جسے ہم کہیں کہ کوئی کلاسیکل کام ہو رہا ہے، جس سے نئی جنریشن کچھ سیکھ سکے۔