پاکستان

قوم یوتھ کا وینا ملک ڈس آرڈر: اے کیس آف ثمینہ پیرزادہ

حارث قدیر

قوم یوتھ کی خاصیتوں میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ انہیں دوسروں کی کرپشن نظر آتی ہے۔ انہیں ملک میں پھیلی کرپشن کی فکر کھائے جاتی ہے۔ اپنے ایک لیڈر کے علاوہ باقی سب چور نظر آتے ہیں۔ انہیں یہ بھی لگتا ہے کہ انسان سارے خود نیک اورپرہیزگار ہو جائیں تو دنیا سے ہر طرح کے مسائل کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ خود بے شک ٹریفک سگنل توڑ کر بھاگنے میں ایک لمحہ دیر نہیں کرینگے، لیکن اگر کوئی دوسرا نظر آجائے تو فوراً یہ اعلان فرمائیں گے کہ قانون کی عملداری ہو تو ملک کے اکثریتی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

قوم یوتھ کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ 70 سالہ نوجوان قائد سے لیکر 18 سال تک کی عمر کے تمام رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے انسان قوم یوتھ میں شمار ہو سکتے ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ مخصوص سماجی حالات کے پیش نظر موقع پرستی،خود پسندی، دروغ گوئی اور خودسری سمیت دیگر ایسی ہی خوبیوں کی حامل خاص نفسیاتی کیفیات بدرجہ اتم موجود ہوں۔

گزشتہ سال اکتوبر میں ’جدوجہد‘میں فاروق سلہریا نے ایک مضمون ’قوم یوتھ اسٹاک ہولم سنڈروم نہیں، وینا ملک ڈس آرڈرکا شکار ہے‘ میں قوم یوتھ کی وضاحت کرتے ہوئے انہیں ’وینا ملک ڈس آرڈر‘ کا شکار قرار دیا تھا۔ ثمینہ پیرزادہ اس ڈس آرڈر کی ایک اور دلچسپ کیس اسٹڈی ہیں۔

شاید لوگ سمجھ رہے ہوں کہ وینا ملک اس معاملے میں شوبزنس میں تنہا یوتھ کلب کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ ایسا بلکہ بھی نہیں ہے، ثمینہ پیرزادہ بھی کسی طور ان سے پیچھے نہیں رہی ہیں۔

آج کل انہیں لگتا ہے کہ ملک کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف فوری الیکشن کے انعقاد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہیں طاقتور حلقوں کی طاقت کی وجوہات جاننے میں بھی دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔

انہیں انتخابات میں دھاندلی سے چھٹکارے کا واحد نسخہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی صورت ہی نظر آتا ہے۔ البتہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے فوری بعد انہیں خیال آیا کہ ’جمہور کے ووٹ کا احترام کرنا ہی جمہوریت ہے۔‘ ہاں البتہ یہ خیال انہیں 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی قیادت کو باندھ کر،آرٹی ایس سسٹم کو ڈاؤن کر کے اور جہانگیر ترین کے جہازوں میں ممبران قومی اسمبلی کو لاد کر تحریک انصاف میں شامل کر کے حکومت سازی کی راہ ہموار کرتے وقت یہ والی جمہوریت کی تعریف انہیں شاید کہیں بھول گئی تھی۔

ایسے ہی بلوچستان میں باپ پارٹی کی حکومت کے قیام سے لیکر سینیٹ کے انتخابات تک ان کی ڈکشنری میں جمہوریت کی تعریف اس سے تھوڑی مختلف ہوا کرتی تھی۔

انہیں اب یہ بھی لگتا ہے کہ ’آزادی رائے، حقوق انسانی اور حق رائے دہی جمہوریت کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔‘تاہم گزشتہ 4 سالوں کے دوران گرفتار و لاپتہ ہونے والے سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنان کے علاوہ آزادی رائے پر عائد ہونے والی پابندیوں کے وقت بھی جمہوریت کی یہ تعریف ان تک نہیں پہنچ پائی تھی۔

فرسودہ نظام بھی تبدیل کرنا چاہتی ہیں، اوراکیلے شخص کی خداداد صلاحیتوں کی تعریفیں کرتے کرتے اس ایک شخص کی قابلیت پر کچھ شکوک و شبہات بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ اس لئے پوری قوم سے اپیل بھی کر رہی ہیں کہ یہ کام ایک اکیلی جان کے بس کا نہیں ہے،ا سے پوری قوم کو مل کر ہی سرانجام دینا ہو گا۔

آج کل تو ان کے خیالات میں انقلابی ٹچ بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے تازہ ٹویٹ میں لکھا کہ ”ہمیں ضرورت ہے ایک ایسے انقلاب کی، جہاں سب کام پر جائیں اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ جہاں سب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہنر مند ہوں اور انہیں اپنے ہنر پر فخر ہو۔ ہمارے کاشتکار اور ہمارے فیکٹری ورکر ہماری معیشت کے بازو ہوں، کام کام اور صرف کام ہی صحیح معنوں میں انقلاب ہے۔“

قوم یوتھ کی سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ انہیں جب اپنے قائد کی جانب سے جو اشارہ ملے اس پر لبیک کہتے ہوئے وکالت میں جی جان کی بازی لگا لیتے ہیں۔ چاہے ایسا کرنے میں اپنے ہی ماضی کو نظر انداز کیوں نہ کر دیا جائے۔ ثمینہ پیرزادہ فیملی کا کیس بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

2012ء میں امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے 6.7 ملین ڈالر کی رقم میں غبن کرنے کے چرچے ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ہو چکے ہیں۔ تاہم وہ ابھی تک اپنے لیڈر کی طرح دیانتدار، امانتدار ہیں، جبکہ ان سے اتفاق نہ کرنے والا پورا معاشرہ چور اور پٹواری ہے۔

پیرزادہ خاندان کے اس مالیاتی غبن کے چرچے ملکی اور عالمی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔ رائٹرز، بی بی سی، فارن پالیسی اور ٹربیون سمیت دیگر نے جون 2012ء میں اس مالیاتی غبن کے سامنے آنے کے بعد یو ایس ایڈ کی جانب سے فنڈنگ بند کئے جانے کی خبریں شہ سرخیوں کے طورپر شائع کیں۔

یہ فنڈنگ پیر زادہ خاندان کے کاروباری گروپ رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ کیساتھ ’سی سیم سٹریٹ‘ کا مقامی ورژن تیار کرنے کے ایک معاہدہ کے تحت دی جا رہی تھی۔

اس معاہدہ کے تحت اس شو کی تیاری کیلئے 20 ملین ڈالر کی رقم مختص کی گئی تھی۔ ’سم سم ہمارا‘ کے نام سے پاکستان میں اس شو کا پریمیئر بھی ہوا۔ تاہم کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا ہے کہ رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ کی جانب سے 6.7 ملین ڈالر کی رقم بدعنوانی کا شکار ہو چکی ہے۔ اس لئے باقی رقم دینے سے انکار کر دیا گیا۔

1974ء میں قائم ہونے والی رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ ڈرامائی فنون کی ترقی کیلئے کام کرنے کی شہرت رکھتی ہے۔ اس ورکشاپ کے مالکان میں ثمینہ پیرزادہ کے شوہر عثمان پیرزادہ، فیضان پیرزادہ، سعدان پیرزادہ، عمران پیرزادہ، تسنیم پیرزادہ اور سلمان پیرزادہ شامل ہیں۔ رفیع پیر گروپ کے زیر سایہ دیگر کاروبار بھی منظم کئے جا رہے ہیں (مالکان کی تفصیل سے اندازہ ہوا ہو گا کہ قوم یوتھ وراثتی سیاست کے کیوں خلاف ہے)۔

تاہم ثمینہ پیرزادہ بھی وینا ملک کی طرح گھر میں ہونے والی جعل سازیوں، مالیاتی غبن اور کرپشن پر عیاشیاں جاری رکھتے ہوئے ملک میں ہونے والی کرپشن کے غم میں مبتلا ہو کر پورے ملک کو چور قرار دے رہی ہیں۔ البتہ ان کے قائد عمران خان تمام تر برائیوں اور قباحتوں سے پاک ایک ہستی ہیں، جن کے آمرانہ اقتدار کی صورت انہیں ملکی مسائل کا خاتمہ نظر آرہا ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔