حارث قدیر
حالیہ دنوں میں روایتی میڈیا پر سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل پر دوران حراست تشدد پر بحث عروج پر ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت اور سوشل میڈیا بریگیڈ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ شہباز گل کو دوران حراست تھرڈ ڈگری تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مبینہ طور پر انہیں شدید جنسی استحصال کا شکار بھی بنایا گیا۔ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ انکے جنسی اعضا کو نقصان پہنچانے سمیت دیگر سنگین نوعیت کے ناقابل بیان تشدد کا راستہ انتخاب کیا گیا۔
تاہم دوسری طرف حکمران جماعتوں کے وزرا کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان دعوؤں کی سختی سے تردید کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں شہباز گل کی ہسپتال میں سرگرمیوں کی تصاویر اور ویڈیوز بھی جاری کی گئی ہیں، جنہیں تحریک انصاف جعلی اور فیبریکیٹڈ قرار دینے میں مصروف ہے۔ شہباز گل کی عدالت اور ہسپتال لے جائے جانے کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں انہیں چیخ و پکار کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دمہ کامریض ہونے کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری کی وجہ سے مخصوص انداز میں آوازیں نکالنے پر مجبور ہو رہے تھے۔ تاہم حکمران جماعتیں اور ان کے حامی اس سارے عمل کو اچھی اداکاری قرار دے رہے ہیں۔
ابھی تک کسی عدالت یا میڈیکل بورڈ نے تحریک انصاف کے دعوؤں کی تصدیق بھی نہیں کی ہے اور کسی طرح کے بھی تشدد کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سختی سے تردید کو بھی بارہا دہرایا جا چکا ہے۔
شہباز گل پر الزام ہے کہ انہوں نے ملک کے دفاعی محکمہ فوج میں بغاوت کیلئے نچلے رینکوں کے افسران اور سپاہیوں کو اکسانے کی کوشش کی اور ایسا انہوں نے ایک نجی ٹی وی پر بیٹھ کر کیا۔ انہوں نے افسران اور سپاہیوں کو فوجی قیادت کے احکامات ماننے سے انکار کرنے پر اکسایا۔ اس طرح ان پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ بجلی کی طویل ترین لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور بجلی بلات پر ناجائز ٹیکسوں کے خاتمے کیلئے احتجاجی تحریک کے دوران اس حکومت نے انسداد دہشت گردی کی دفعہ6کے تحت مقدمات قائم کئے۔ مظاہرین کو گرفتار کیا گیا اور بنیادی انسانی ضروریات کی مانگ کرنے والوں کو گرفتار کر کے تھرڈ ڈگری ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ٹارچر نہ صرف ثابت شدہ ہے،بلکہ ٹارچر سے زخمی ہونے والے گرفتار مظاہرین ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، ان کے جسموں پر ٹارچر کے زخموں کے نشانات ججوں نے بھی دیکھے اور میڈیکل رپورٹوں میں بھی اس تشدد کو تھرڈ ڈگری سے تعبیر کیاگیا۔ تاہم ابھی تک نہ تو کسی پولیس اہلکار، افسر یا انتظامی افسر کے خلاف کارروائی کی گئی اور نہ ہی کسی نے مقامی وزیراعظم سے اس بابت جواب مانگنے کی کوشش کی۔
تھوراڑ سے تعلق رکھنے والا عابد عزیز کھڈ بازار شاہراہ غازی ملت پر ہونے والے احتجاج میں دیگر سیکڑوں مظاہرین کے ہمراہ شریک تھا۔ وہ ایک لوڈر گاڑی چلاتا ہے، جس پر راولپنڈی سے روزانہ سبزی لاد کر لاتا ہے اوراپنے آبائی بازار تھوراڑ میں فروخت کرتا ہے۔ احتجاج کے تیسرے روز عابد عزیز کو آزاد پتن کے مقام سے راولپنڈی جاتے ہوئے اپنی گاڑی سے اتار کر گرفتار کیا گیا اور راولاکوٹ کی سٹی چوکی پر منتقل کیا گیا۔ رات بھر 10پولیس اہلکار اسے ننگا کر کے الٹا لٹکا کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ اس کے جسم پر جگہ جگہ تیز دھار آلے سے کٹ لگا کر خون رسنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ ان رستے ہوئے زخموں پر نمک اور لال مرچ پاؤڈر لگایا جاتارہا۔ رات بھر اسکی چیخوں سے پورا علاقہ گونجتا رہا۔ عابد کے بقول ڈنڈے پر لال مرچ پاؤڈر لگایا گیا اور پاخانے والے عضو سے میں وہ ڈانڈا بار بار ڈالا جاتا رہا۔
رات بھر بہیمانہ تشدد کا شکار بنانے کے بعد عابد کو سٹی پولیس اسٹیشن میں پھینک دیا گیا۔ جہاں قیدیوں کے شور مچانے پر عابد عزیز کو ہسپتال لے جانے کی بجائے دوبارہ چوکی پر پہنچایا گیا۔ کسی عدالت میں پیش کرنے کی بجائے عابد عزیز کو اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر پیش کیا گیا اور وہاں سے ریمانڈ حاصل کیا گیا۔ عابد کے بقول اسسٹنٹ کمشنر نے عابد کو کہا کہ اس تشدد سے اسی صورت نجات مل سکتی ہے کہ احتجاج میں شامل لوگوں کے نام پولیس کو دے دیئے جائیں تاکہ مزید گرفتاریاں کی جا سکیں۔
وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے احتجاج کے بعد عدالت العالیہ نے ججوں پر مبنی ایک کمیشن بنایا تاکہ پولیس اسٹیشن سے عابد عزیز اور دیگر قیدیوں کے حالات کا معائنہ کیا جا سکے۔ تاہم پولیس نے حکومتی ایماء پر تشدد زدہ عابدعزیز کو غائب کر دیا اور پورا دن جج ہسپتال، پولیس اسٹیشن اور پولیس چوکیوں کا چکر لگاتے رہے لیکن عابد عزیز کو نہیں تلاش کر سکے۔ اگلے روز جب عابد عزیز کو عدالت پیش کیا گیا تو جج کے سامنے اس کی قمیض اتاری گئی، زخموں کو دیکھ کر جج نے عابد کو ہسپتال منتقل کرنے اور جوڈیشل کرنے کا حکم دیا۔ میڈیکل رپورٹ پیش کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ تاہم ابھی تک اس میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں عابد عزیز پر یہ مظالم ڈھانے والے ذمہ داران کے خلاف کوئی کاررائی نہیں کی جا سکی۔ عابد عزیز کئی روز تک ہسپتال میں رہا، وہ اٹھنے،بیٹھنے اور ہلنے سے بھی قاصر تھا۔
وزیراعظم تنویر الیاس نے ایک تقریب میں تقریر کے دوران احتجاج کرنے والوں کے خلاف انتظامیہ کو سخت اقدامات کی ہدایات دینے کا اعلان کیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نہ تو کوئی میڈیا عابد عزیز پر ہونے والے اس بہیمانہ تشدد کا تذکرہ کر سکا اور نہ ہی اس تشدد کے ذمہ داران کے خلاف کوئی عدالت اور کوئی انصاف کا ادارہ قانون کے کٹہرے میں لا سکا ہے۔
یوں شہباز گل بھی ایک سیاسی کارکن ہیں، جن پر تشدد کی تصدیق ہونے سے پہلے ہی گزشتہ کئی روز سے وہ تمام ٹی وی چینلوں کے پرائم ٹائم اور ہیڈلائنوں کا حصہ ہیں۔ ان کی ویڈیوز روزانہ گھنٹوں کا ایئرٹائم لے رہی ہیں۔ عابد عزیز بھی ایک کارکن ہے، جس پر تشدد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر تو وائرل ہوئیں لیکن نہ تو ٹی وی چینلوں اور اخبارات کی زینت بن سکیں، نہ حکمرانوں کے ایوانوں میں زیر بحث لائی جا سکیں اور نہ ہی اس کیلئے کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کو کوئی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکا۔
فرق صرف اتنا ہے کہ شہباز گل حکمران طبقے کا حصہ ہیں۔ وہ ریاستی دھڑے بندیوں میں ایک دھڑے کے مہرے کے طور کام کر رہے ہیں۔ تاہم عابد عزیز ایک غریب محنت کش ہے۔ اسکا کسی حکمران اشرافیہ کے کارندے کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں۔ وہ ریاستی دھڑے بندیوں کی گہرائیوں کو بھی نہیں سمجھتا۔ وہ دن رات محنت مزدوری کر کے بمشکل اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عابد عزیز پراس تھرڈ ڈگری تشدد کا نوٹس کہیں بھی نہیں لیا جاتا، البتہ شہباز گل تو انسانی حقوق کے کارکنوں کے ہمدردیاں بھی سمیٹنے میں مصروف ہیں، کیونکہ انسانی حقوق کا کاروبار بھی اے سی والے ٹھنڈے کمروں اور حکمرانوں کے ایوانوں کے گرد ہی جاری رہتا ہے۔ عابد عزیز اور اس جیسے کروڑوں محنت کشوں کو انسانی حقوق لینے کیلئے پہلے خود کو انسان کے درجے پر فائز کرنے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔