حارث قدیر
عبدالخالق کہتے ہیں کہ دنیا میں ایسے قواعد موجود ہیں جن کی بنیاد پر آفت زدہ ملک اپنے قرضے دینے سے انکار کر سکتے ہیں، یا کم از کم موخر کرنے کیلئے بات چیت کا آغاز کر سکتے ہیں۔ تاہم پاکستان کے حکمران ایسی جرات کرنے کی بجائے مزید قرض لینے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ قرض دینا عالمی مالیاتی اداروں کا کاروبار ہے، وہ اس کاروبار کو نقصان نہیں ہونے دے سکتے، اس لئے پاکستان جیسے ملکوں کو وہ دیوالیہ نہیں ہونے دیتے، بلکہ پالیسیوں پر اثر انداز ہوکر خودمختاری پر کمپرومائز کرواتے ہیں اور قرضوں کا یہ کاروبار جاری رکھتے ہیں۔ عبدالخالق ادارہ برائے سماجی و معاشی انصاف (ISEJ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں اور دنیا بھر میں ناجائز قرضوں کے خاتمے پر کام کرنے والے نیٹ ورک ’CADTM‘ کے رکن ہیں۔ پاکستان میں ناجائز اور غیر قانونی قرضوں کے خاتمے کی تحریک میں سرگرم ہیں۔ گزشتہ روز ’جدوجہد‘ نے ان کا ایک مختصر انٹرویو کیا جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
آپ غیر قانونی، ناجائز قرضوں یا اوڈئیس ڈیٹ کی ادائیگی سے انکار کے داعی ہیں۔ وہ کون سے عالمی قوانین اور طریقہ کار ہیں، جس کے ذریعے سے غیر قانونی یا ناجائز قرضوں کی ادائیگی سے انکار کیا جا سکتا ہے؟
عبدالخالق: سب سے پہلے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ غیر قانونی، ناجائز یا اوڈئیس ڈیٹ ہوتے کیا ہیں۔ غیر قانونی قرضوں میں ہم ان کی قانونی حیثیت دیکھتے ہیں۔ ان میں ایسے قرضے شامل ہیں جو آپ نے کسی اور کام کیلئے لئے اور خرچ کسی اور جگہ یا کام پر کر دیئے، یا پھر جب آپ نے معاہدے پر دستخط کئے تو دستخط کرنے والا نمائندہ وہ مجاز اتھارٹی نہیں تھا، جسے یہ کرنا چاہیے تھے۔ اس میں ایک مشترکہ ذمہ داری کا تصور بھی ہے، یعنی قرض دینے کے بعد قرض دینے والا اس پر نظر نہ رکھے کہ وہ کہاں خرچ ہو رہے ہیں۔ جو بھی قرض دیتا ہے، وہ چاہے بائی لیٹرل ہوں یا ملٹی لیٹرل، دینے والی کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ جس مقصد کیلئے قرض لیا جا رہا ہے، اسی مقصد پر خرچ ہو۔ اگر پراجیکٹ میں نقص ہے تو پھر قرضہ غیر قانونی کہلائے گا۔ مثال کے طور پر دریائے سندھ پر ایک بڑی کینال کا ورلڈ بینک کا پراجیکٹ تھا، جو سیلاب کا باعث بنا۔ اس پرمعائنہ پینل بنا، جس کے بعد یہ ثابت ہوا کہ وہ فالٹی پراجیکٹ ہے، جسے ورلڈ بینک نے بھی تسلیم کیا اور وہ قرضہ غیر قانونی قرار پایا۔ اسی طرح فلپائن میں ایک ورلڈ بینک کی فنڈنگ سے ڈیم بنا، جس کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ وہ سسمک زون میں ہے، جہاں زلزلہ آسکتا ہے۔ اس پراجیکٹ کے خلاف ابھی بھی مہم چل رہی ہے کہ یہ غیر قانونی قرضہ ہے، اگر ڈیم ٹوٹا تو نقصان ہو گا۔
اوڈئیس ڈیٹ ایک روسی اکانومسٹ الیگزینڈر سیک کی ٹرم تھی۔ انکا خیال ہے کہ جو ناجائز حکومتیں یا آمریتیں ہوتی ہیں، انہیں کوئی حق نہیں ہوتا کہ وہ بائی لیٹرل یا ملٹی لیٹرل اداروں یا حکومتوں سے کوئی معاہدہ کرسکیں۔ ان کی قانونی حیثیت کا مسئلہ ہوتا ہے، وہ عوام کی منتخب کردہ حکومتیں نہیں ہوتیں۔ موجودہ پاکستانی حکومت کو ہی دیکھ لیں، یہ زور دیا جا رہا تھا کہ یہ حکومت ہی آئی ایم ایف سے معاہدہ کر سکتی ہے، عبوری حکومت چونکہ عوامی نمائندہ نہیں ہوتی، اس لئے آئی ایم ایف اس سے معاہدہ نہیں کرتا۔ اس لئے غیر منتخب یا غیر نمائندہ حکومت کا لیا گیا قرضہ اوڈئیس ڈیٹ کہلاتا ہے۔
غیر قانونی قرضوں کیلئے بین الاقوامی عدالتوں کا ایک راستہ ہے، تاہم اس میں انصاف کی کوئی امید نہیں ہوتی۔ عام طور پر جب معاہدوں پر دستخط ہوتے ہیں تو اس میں ایسی شقیں لکھی جاتی ہیں کہ کسی تنازعہ پر فیصلہ مقامی قوانین کے تحت ہو گا، یا بین الاقوامی قانون کے تحت ہو گا۔ زیادہ تر بین الاقوامی قوانین لکھے جاتے ہیں اور یہ فیصلے یورپی عدالتوں میں ہوتے ہیں۔ سمجھداری کی بات یہ ہے کہ بائی لیٹرل قرضوں میں ایسی شقیں رکھی جانی چاہیے کہ تنازعات کی صورت میں لوکل قوانین کے تحت معاملات طے کئے جائیں گے۔ تاہم بدقسمتی سے ایسا ہوتا نہیں، عالمی فورمز پر ہی چیزیں طے کی جاتی ہیں۔
کچھ ایسے قواعد ہیں جو اقوام متحدہ نے منظور کئے ہیں۔ مثال کے طور پر 1980ء میں ایک یو این کمیشن آن انٹرنیشنل لا نے قاعدہ پاس کیا تھا، جو ’اسٹیٹ رسپانسبلٹی‘ کہلاتا تھا۔ اس کے مطابق اگر ریاست لوگوں کو بنیادی حقوق دینے میں ناکام ہو رہی ہے تو ایسی صورت میں یہ ترجیح نہیں دی جا سکتی کہ ریاست قرضوں کی ادائیگی جاری رکھے۔ مطلب کہ قرضوں کی ادائیگی کو روکا جا سکتا ہے۔ دوسرا قاعدہ 1991ء میں ہیومن رائٹس کمیشن نے منظور کیا۔ اس قاعدے کے مطابق جب صورتحال معاشی بقا کی بن جائے، یا آبادی کی بنیادی ترین ضروریات پوری کرنے میں ریاست ناکام ہو جائے تو پھر یکطرفہ طو رپر قرضوں کی واپسی سے انکار کر سکتی ہے۔ یہ قاعدہ موجودہ حالات میں پاکستان کوبھی یہ حق دیتا ہے کہ وہ قرضوں کی ادائیگی سے انکار کرے۔
ایک اور قاعدہ ہے، جسے 1999ء میں ہیومن رائٹس کمیشن نے منظور کیا۔ اس قاعدے کے مطابق قرض لینے والے ملک پر سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پالیسیوں کے نفاذ کے دوران خوراک، رہائش، کپڑوں، نوکری، صحت، تعلیم اور صحت مند ماحول کو کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اشارہ سیدھا آئی ایم ایف کی طرف ہے۔ جو آئی ایم ایف کی طرف سے پروگرام مسلط کئے جاتے ہیں۔ ان بنیادی ضرورتوں کو آئی ایم ایف کی بالادستی کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح یہ قواعد موجود ہیں، لیکن اس کا انحصار اس پر ہے کہ کیا آپ سیاسی طور پر ایسا کر سکتے ہیں یا نہیں کر سکتے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے، کیا یکطرفہ طور پر قرضوں کی واپسی سے انکار کر سکتا ہے، یا قرض موخر کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو کر سکتا ہے؟ اگر ہاں تو ایسا کیوں نہیں کر رہے؟
عبدالخالق: اس پر بالکل گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن جیسے میں نے پہلے کہا کہ یہ سب آپ پر انحصار کرتا ہے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ سیاسی اور اخلاقی طور پر اتنی کمزور ہے کہ انکار تو دور کی بات ہے، یہ قرضے موخر کرنے کیلئے بھی آئی ایم ایف سے درخواست نہیں کر رہے ہیں۔ فی الحال تو یہ حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ جو معاہدہ ابھی بحال ہوا ہے، اس کے علاوہ ایک اور قرضہ لیا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قرضوں کی ادائیگیاں معطل کرنے کی بات کی جائے، لیکن اس کی بجائے یہ نیا قرضہ مانگنے کی سوچ رہے ہیں۔ کورونا وبا کے دوران حکومت نے قرض موخر کرنے کی اپیل کی تھی، جس کے نتیجے میں بائی لیٹرل قرضے پہلے 6 ماہ اورپھر مزید 6 ماہ کیلئے موخر کئے گئے تھے۔ اس سے پاکستان کو کچھ فائدہ بھی ہواتھا۔ جیسے میں نے کچھ قواعد بیان کئے ہیں، ان کی روشنی میں یہ اپیل ڈال سکتے ہیں کہ ہماری یہ صورتحال ہے، قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہمارا مطالبہ تو منسوخی کی ہے، لیکن اگر یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم موخر کرنے کی بات تو کریں، تاکہ جو پیسے بچے وہ لوگوں کی امداد اور بحالی پر خرچ کئے جا سکیں۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ تیسری دنیا کی حکمران اشرافیہ اتنی جرات مند نہیں ہوتی کہ وہ یہ بات کر سکے۔
پاکستان کی تاریخ میں 4 مواقع ایسے آئے جب آپ قرض دینے سے انکار کر سکتے تھے، منسوخی یا ری شیڈولنگ کی بات کر سکتے تھے۔ جس طرح مشرف دور میں 15 سال کیلئے قرضے ری شیڈول کئے گئے تھے۔ اس وقت امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہو رہا تھا۔ اس وقت انہوں نے تھوڑے سے مذاکرات کے بعد ری شیڈول کر دیئے تھے۔ اس دوران معیشت کو بھی سانس لینے کا موقع ملا۔ اسی طرح 1979ء میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت بھی موقع تھا کہ یورپ اور امریکہ سے قرضوں کی منسوخی کی بات منوائی جائے۔ 2005ء میں جب زلزلہ آیا، 2010ء میں جب سیلاب آیا تھا، ان دونوں اوقات میں بھی قرض دینے سے انکار کیا جا سکتا تھا۔ موجودہ وقت بھی ایسا ہی کیا جا سکتا ہے۔
تاہم اس وقت بھی امداد مانگی گئی، قرضوں کی منسوخی پر بات نہیں کی گئی۔ موجودہ وقت بھی یہ موقع ہے کہ ان قواعد کے تحت قرضے موخر یا منسوخ کرنے کی بات کی جائے۔ البتہ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جو ملٹی لیٹرل قرضے ہیں، وہ پہلے بھی موخر نہیں ہوئے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے کورونا کی اپیل میں بھی قرضے موخر نہیں کئے۔ البتہ جو بائی لیٹرل قرضے ہیں ان کو موخر کرنے پر بات ہونی چاہیے۔
عراق پر امریکی قبضے کے بعد امریکہ کی جانب سے عراق کے قرضوں سے انکار کے علاوہ ماضی میں ایسی کوئی مثال ہے کہ کسی ملک نے قدرتی آفت یا ہنگامی حالات کے پیش نظر قرض دینے سے انکار کیا ہو؟
عبدالخالق: امریکہ نے بھی 2003ء میں بائی لیٹرل قرضے ہی دینے سے انکار کیا تھا۔ یہ فرانس، روس اور کچھ دیگر ملکوں کے قرضے تھے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے نہیں تھے۔ امریکہ نے یہ انکار کرنے کیلئے اوڈئیس ڈیٹ کی پلی لی تھی۔ قرض دینے والے ملکوں نے جب اعتراض کیا کہ وہاں الیکشن ہوتے تھے، صدام حسین 90 فیصد سے زائد ووٹ لیتا تھا، تو امریکہ نے ان انتخابات کو جعلی قرار دیکر صدام حسین کو آمر قرار دیا تھا۔ تاہم انہوں نے پھر 80 فیصد قرضے دینے سے انکار کر کے 20 فیصد قرض واپس کیا تھا۔ یہ بات ٹیبل پر ہوئی، کوئی معاہدہ اس لئے نہیں ہوا کہ اس طرح اوڈئیس ڈیٹ کا اصول ایک قانونی مثال بن سکتا تھا۔ فنانشل اداروں نے کوئی معاہدہ نہیں ہونے دیا، انکا خیال تھا کہ اس مثال کو بنیاد بنا کر بہت سے ترقی پذیر ملک قرض دینے سے انکار کرینگے۔ لہٰذا یہ سب خاموشی سے ہوا، لیکن ایسا بہرحال تاریخ میں ہو چکا ہے۔
جہاں تک آفت کی بات ہے تو اس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ قدرتی آفات میں قحط، سیلاب، زلزلے اور یہاں تک کے جنگیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ ابھی بھی بہت ساری تحریکیں یوکرین کے قرضے معاف کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ایسی کوششیں ماضی میں بھی ہوئیں، لیکن قدرتی آفات کی بنیاد پر قرض دینے سے انکارکیا نہیں جا سکا۔ مختلف آوازیں اٹھنے کی وجہ سے آئی ایم ایف نے ایک فنڈ بھی قائم کیا، جسے کیٹاسٹرافی ریلیف فنڈ کہتے ہیں۔ اگرچہ اسے حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ ڈیزاسٹر ریلیف ٹرسٹ فنڈ بھی آئی ایم ایف کا ہی فنڈ ہے، لیکن پاکستان یہ حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ لو انکم ملکوں کیلئے ہے اور پاکستان مڈل انکم ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
ایک ہنگامی حالت میں مبتلا ملک کو عالمی مالیاتی ادارے کس طرح کا ریلیف از خود دے سکتے ہیں؟
عبدالخالق: ایک مثال تو یہ ہے، جسے ملٹی لیٹرل ڈیٹ ریلیف کہتے ہیں، جب افریقہ میں ایبولہ وائرس کی وبا پھیلی تو اس کے بعد یہ متعارف ہوا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے کچھ قرضوں سے دستبرداری اختیار کی تھی۔ یہ ایک طرح کا از کود ریلیف تھا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ یہ مالیاتی ادارے ملٹری لیٹرل ہوتے ہیں۔ یہ سیدھا سیدھا کاروبار ہے۔ اس میں انسانی حقوق کی سپیس نہیں ہوتی کہ سیلاب یا قحط وغیرہ آ جائیں تو یہ انسانی حقوق کو سامنے رکھ کر کوئی اقدامات لیں۔ ایسا بائی لیٹرل قرضوں میں ہو سکتا ہے، ہوتا وہ بھی کاروبار ہے، لیکن ملکوں کے آپسی تعلقات وغیرہ کی ایک سپیس موجود رہتی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے از خود ریلیف دینے کا سوال بہت مشکل ہے۔ یہاں تک کہ متاثرہ ملک کے عوام اور حکومت سیاسی دباؤ کے ذریعے سے کوئی بڑا قدم لیں تو پھر ایسا کسی حد تک ممکن ہے۔
از خود ریلیف کی بات کو تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو دو اقدامات ایسے ہیں۔ ایک 1996ء میں افریقی ملکوں کے بائی لیٹرل قرضوں کے کچھ حصے منسوخ کئے گئے، اس رقم سے ویلفیئر پروگرام شروع کئے گئے۔ اسی طرح ایک ایم ڈی آر آئی کا اقدام تھا، جو 2006ء میں شروع ہوا۔ اس کے نتیجے میں بھی افریقی ملکوں کو کچھ ریلیف ملا۔ بعد میں ان کی اسسمنٹ کی گئی تو اس متعلق مختلف آرا ہیں، کچھ آرا ایسی ہیں کہ جتنے فوائد ہوئے، اس سے زیادہ نقصانات ہوئے، جبکہ کچھ کے مطابق فوائد زیادہ تھے۔
بائی لیٹرل، ملٹی لیٹرل اور کریڈٹ ایجنسیوں سے حاصل کئے گئے قرضوں کی ادائیگی سے انکار کے حوالے سے کوئی الگ الگ عالمی قوانین ہیں یا ایک ہی طرح سے ان سب قرضوں کو ڈیل کیا جاتا ہے؟ اگر الگ ہیں تو فرق کیا ہے؟
عبدالخالق: قرضوں کی ادائیگیوں سے انکار کے کوئی بین الاقوامی قوانین موجود نہیں ہیں، صرف اقوام متحدہ کے قواعد ہیں۔ قواعد کی بنیاد پر قوانین بن سکتے ہیں، جو بنے نہیں ہیں، بلکہ بنانے ہیں۔ طاقتور حکومتوں نے اپنے کلب اور ادارے بنائے ہوئے ہیں، جو آپس میں بہت ہی قریبی ہم آہنگی کے تحت کام کرتے ہیں۔ کریڈٹ ایجنسیاں ملکوں کی اپنی ہوتی ہیں۔ اسی طرح حکومتی بانڈ جاری کر کے مارکیٹ میں فروخت کرتی ہیں۔ ان کا پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس وقت حکومتیں کس کی مقروض ہیں، کیونکہ پرائیویٹ لوگ خریدو فروخت جاری رکھتے ہیں۔ تاہم اگر قواعد کو پڑھا جائے تو ان کی بنیاد پر تمام ہی قرضوں سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ جو صورتحال ملک میں پیدا ہوتی ہے، عوام کی فلاح و بہبود اور بحران سے نمٹنے کیلئے آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ جرات مندانہ اقدام ہے، جو کمزور حکومتوں کے بس میں نہیں ہوتا۔
ہمیشہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کو قرضوں کے حوالے سے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، مقامی حکمرانوں کے کردار پر زیادہ بات نہیں ہوتی، حکمرانوں کا کردار ان قرضوں میں کس نوعیت کا ہے اور یہ کیسے ملک کو قرضوں کے گرداب میں پھنسانے کے ذمہ دار ہیں؟
عبدالخالق: اس سوال کو قرضوں کی پوری سیاست کو سمجھے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ آئی ایم ایف کی قرضوں کی سیاست بالادستی کی تو ہے ہیں، اس سے ملکوں کی پالیسیوں کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ تاکہ پوری دنیا کے معاشی نظام میں اس کے مستقبل کو طے کیا جائے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ قرضوں کے خلاف اگر آوازیں اٹھتی ہیں تو وہ ان کی طرف نہ اٹھیں، بلکہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ یہ بتایا جائے کہ یہ قرضوں کا درست استعمال نہیں کرتے، گورننس کے مسائل ہیں۔ یہ درست ہے کہ گورننس کے مسائل ہیں۔ یہ لوگ بڑی پالیسی نہیں بنا سکتے۔ قرض لینا آسان راستہ ہے، دوسرا طریقہ پروگریسو ٹیکسیشن کا ہے، جو مشکل ہے۔ یہ حکومتیں غیر مقبول فیصلے نہیں کرتیں۔ البتہ دونوں ایک ہی جیسے ذمہ دار ہیں، دونوں ہم آہنگی میں کام کرتے ہیں۔ مقامی حکمران اشرافیہ عالمی حکمران اشرافیہ کا حصہ ہوتی ہے، دونوں ہی عوام کو قربان اور تباہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لئے یہ نہیں ہے کہ ہم صرف آئی ایم ایف کو زیادہ مورد الزام ٹھہرتے ہیں۔ گڈ گورننس کا مطلب یہ ہے کہ دولت پیدا کی جائے، یہ قرض پیدا کر رہے ہیں۔ جتنی بھی حکومتیں آئیں، چاہے وہ سیاسی ہوں یا فوجی، سب نے ہی کوئی عوام دوست حل نہیں سوچا۔ قرضوں کے گرداب کے ذمہ دار ہماری حکمران اشرافیہ اور مالیاتی ادارے دونوں ہیں۔ حکمران اشرافیہ میں یہ جرات بھی نہیں کہ یہ کہہ سکیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ ابھی ایک وزیر اعظم کہہ رہا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے بغیر چھینک بھی نہیں مار سکتے۔ اب آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ ملکی اثاثے اور ادارے فروخت کرو۔ قرضوں کی بالادستی اور قرضوں کی سیاست کے نظام میں جکڑنے کیلئے پوری شعوری کوشش کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ترقی پذیر ملکوں کی خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی اور خودمختاری تک کنٹرول کرنا شروع کر دی جاتی ہے۔
ایک ایسا ملک جس کی دو تہائی معیشت کالے دھن پر مشتمل ہے، برآمدات کم ہونے کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے، ایسے میں قرضوں کے علاوہ ملکی معیشت کو چلانے کا کوئی متبادل طریقہ بھی ہے؟
عبدالخالق: متبادل تھوڑا مشکل ہے، جب آپ عالمی معاشی آرکیٹیکچر کا چھوٹا سا پرزہ بن جاتے ہیں تو اس میں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان ایک ڈیٹ سپائرل میں ہے۔ سپائرل سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں دو تین تجاویز ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ قرضوں کی مینجمنٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ قرض کی پائیداری وغیرہ پر میں یقین نہیں رکھتا۔ پاکستان کو یہ کرنا چاہیے کہ اپنے اخراجات خاص کر کے غیر ترقیاتی اخراجات پر کٹوتی لگائے اور سنجیدہ نظر ثانی کی جائے۔ حکمران اشرافیہ اور بیوروکریسی وغیرہ کی مراعات بہت زیادہ ہیں ان پر نظر ثانی کی جائے۔ معیشت کو دو چیزیں کھا رہی ہیں، ایک دفاع اور دوسرا قرضہ ہے۔ پارلیمانی ڈیٹ آڈٹ کمیشن بننے چاہیے، جو غیر جانبدار اور خود مختار ہو۔ کمیشن میں تمام سیاسی آوازوں کی نمائندگی ہو، آڈٹ ایکسپرٹس شامل ہوں۔ یہ کمیشن ساری صورتحال کو سامنے لائے کہ کتنے قرضے لئے گئے، کہاں خرچ ہوئے اور کس کا کیا کردار تھا۔ ایک مستند رپورٹ بننی چاہیے اور یہ تجاویز بھی سامنے آنی چاہئیں، کہ اس گرداب سے کیسے نکلا جا سکتا ہے۔ زیادہ پیچھے جانے کی بجائے 1979ء سے شروع کیا جائے، تاکہ جنرل ضیا اور مشرف کے ادوار میں لئے گئے قرضوں اور سیاسی حکومتوں میں لئے گئے قرضوں کا جائزہ لیا جائے، پھر ایک فریم ورک بنایا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ٹیکسیشن کا نظام بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ پروگریسو ٹیکسیشن نہیں کی جا رہی، 85 فیصد ٹیکس بالواسطہ لئے جا رہے ہیں۔ دنیا میں 50 فیصد تک براہ راست ٹیکسیشن کی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، گورننس کے نظام کو تو بہت زیادہ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کا سسٹم ووٹر بیسڈ ہے۔ غیر مقبول فیصلے لینے کی کسی کو جرات نہیں ہوتی۔ بہر حال یہ فیصلے کسی نہ کسی کو لینے پڑیں گے، جب لیں گے تو ہی صحیح سمت کی طرف جائیں گے۔
آئی ایم ایف سے ابھی جو قسط مل رہی ہے، اس سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ ڈیل نہ ہوئی تو معیشت ڈوب جائیگی، پاکستان دیوالیہ ہو جائیگا، ایسی صورتحال عوام کیلئے خطرناک ہوگی، یا حکمرانوں کیلئے؟ اس کے بعد ہو گا کیا؟
عبدالخالق: آی ایم ایف سے تو ہمیں 1.17 ارب ڈالر کی قسط ملنی ہے، کل قرض 3 ارب ڈالر ہے۔ یہ معاہدہ بھی نیا نہیں، 2019ء کا ہی ہے، جو موخر ہوا تھا، دوبارہ مذاکرات کے بعد نئی شرائط کے تحت بحال ہوا ہے۔ معاہدے میں ایک سال کا بھی اضافہ ہوا ہے۔ بنیادی طور پر یہ مالیاتی نظام آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے گرد گھومتا ہے۔ جب تک آئی ایم ایف کسی ملک کی معیشت کی صحت کی گارنٹی نہیں دیتا، تب تک دیگر قرض دینے والے، بیرونی سرمایہ کار، یا سرمایہ کاری نہیں آتی۔ جب آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جاتا ہے تو پھر راستہ کھل جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب یہ ملک دیوالیہ نہیں ہو گا، اس کی معیشت چلنا شروع ہو جاتی ہے۔
یہ عالمی ادارے کسی ملک کو دیوالیہ ہونے بھی نہیں دیتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دیوالیہ ہونے کی صورت انکی اپنی آمدن رک جاتی ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ مزید قرض دیا جائے تاکہ پہلے سے موجود قرض کی ادائیگی کا سلسلہ تو کم از کم چلتا رہے۔ اگر آپ دیوالیہ ہوں تو قرضے نہیں ملتے، بیرونی تجارت رک جاتی ہے، اس کے علاوہ دیگر بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ملک کا تو اس طرح نقصان ہوتا ہے، لیکن مالیاتی ااروں کو بھی نقصان ہوتا ہے۔ سری لنکا نے دیوالیہ ہونے کا اعلان تو کیا ہے، لیکن قرض دینے سے انکار ابھی تک نہیں کیا۔ آئی ایم ایف سے دوبارہ بات چیت جاری ہے۔ پاکستان کا فوری دیوالیہ ہونے کا خطرہ تو نہیں ہے، لیکن مشکلات میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ قرضہ ایک عارضی ریلیف ہے، یوں کہیں کہ پیناڈول کھانے سے سرد درد وقتی طور پر تو ختم ہو گیا ہے، لیکن بیماری ختم نہیں ہوئی۔ اس طرح وقتی ریلیف مل جائے گا، مسائل حل نہیں ہونگے۔
عالمی مالیاتی اداروں اور دیگر کریڈٹ ایجنسیوں کے قرضوں کے ذریعے سے پسماندہ ملکوں کی معیشت کو فائدہ کتنا ہوتا ہے اور یہ مالیاتی ادارے اور ایجنسیاں کتنی دولت باہر منتقل کرتی ہیں؟ یہ سلسلہ کیسے چلتا ہے؟
عبدالخالق: میں نے پہلے بھی کہا کہ قرض ایک کاروبار ہے، اگر ان کو فائدہ اور منافع نہیں ہوتا تو وہ ایسا کیوں کرینگے۔ ان کو آپ کی مدد کی کوئی تڑپ نہیں ہے، نہ ہی یہ انسانیت کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ سیدھا سیدھا کاروبار ہے، اسی بنیا دپر اس کے ٹی او آرز طے ہوتے ہیں۔ جو بھی پسماندہ ملک ہیں، جنہیں ترقی پذیر ملک کہا جاتا ہے، وہ اگر ایک ڈالر امداد لیتے ہیں تو ان کے پاس سے دو ڈالر واپس چلے جاتے ہیں۔ یو ں جتنا بزنس آ رہا ہے، امداد مل رہی ہے، یا زرمبادلہ آ رہا ہے، یا بیرونی سرمایہ کاری ہے، یہ سب مجموعی طور پر اپنے ساتھ ہر ڈالر کے ساتھ دو ڈالر واپس لے کر جا رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے پاکستان جیسے ملکوں کے پاس عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے چنگل سے نکل کر ایک نسبتاً ہموار ترقی حاصل کرنے کا کوئی طریقہ ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کیا طریقہ ہے اور اگر نہیں تو پھر متبادل کیا ہے؟
عبدالخالق: یہ انتہائی مشکل سوال ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خواب دیکھنا بند کر دیں۔ جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ یقینی طور پر ہم شور بھی مچاتے ہیں، مطالبے بھی کرتے ہیں۔ ڈیٹ جسٹس کی بات کرتے ہیں، لیکن شکنجہ اتنا سخت ہے، سٹیٹ جیکٹ اتنی خوفناک ہے کہ اس سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ اتنا آسان ہوتا تو ہیوگوشاویز بھی ان مالیاتی اداروں سے نجات حاصل کر لیتا۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ ان سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ایسا نہیں کر سکا۔ ہاں کیوبا آئی ایم ایف کا حصہ نہیں ہے، لیکن جی رہا ہے، اچھا ہے۔ بہت مضبوط معیشت نہیں ہے، لیکن ہمارے جیسے حالات بھی نہیں ہیں۔ ضروری نہیں کہ آئی ایم ایف آپ کی شہ رگ ہے، اگر آپ کی پالیسیاں درست ہیں، گورننس درست ہے تو آپ اس چنگل سے نکل سکتے ہیں۔ یہ طریقہ ہے تو مشکل اور اتنا بڑا سوال بھی ہے کہ کوئی ملک اکیلا کھڑا نہیں ہو سکتا۔ آپ کو ریجنل بلاک بنانا پڑے گا، جیسے 70ء کی دہائی میں ’نان الائن کنٹریز‘ کی ایک تحریک تھی یا ایک بلاک تھا۔ ایسا کوئی بلاک ضرور بننا چاہیے، چاہے افریقی، لاطینی امریکی یا ایشیائی ملک ہی بنا لیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال کے تنازعات تو موجود ہیں، لیکن یہ ایک ایشو پر اکٹھے ہو سکتے ہیں، وہ ہمارا نوآبادیاتی قرضہ ہے۔ جب برطانوی یہاں حکومت کرتے تھے، وہ جاتے ہوئے سارے قرضے بھارت اور پاکستان پر منتقل کر کے گئے۔ جب یہ مذاکرات ہو رہے تھے تو ماؤنٹ بیٹن نے واضح طو رپر جناح اور نہرو کو بتا دیا تھا کہ جو قرضے ہم نے لئے ہوئے ہیں، وہ آپ لوگوں کو ادا کرنے پڑیں گے۔ دوسری طرف جب بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوا تو اس نے اپنے نام پر لئے گئے پاکستان کے قرضے ادا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ پاکستان ہی ادا کرے گا۔ ریجنل یکجہتی کی بڑی ضرورت ہے۔ ڈیٹ جسٹس موومنٹس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں کی وجہ سے دو بڑے ڈیٹ ریلیف ملے ہیں۔ ڈیٹ جسٹس فلیگ بلند رکھنا چاہیے، کبھی نہ کبھی منزل آجائے گی۔ یہی ایک امید ہے۔