انٹرویو: قیصر عباس
معروف دانشور اور سرائیکی تحریک کی رہنما ڈاکٹر نخبہ تاج لنگاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ملک کی اصل تہذیبوں اور ان کی تاریخی پہچان کو ختم کرنا چاہتا ہے اور ان کی زبان و ثقافت کو پامال کر رہا ہے۔ ان کے مطابق سیاستدان ووٹ بینک حاصل کرنے کے لئے سرائیکی عوام کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں لیکن وہ صوبے کے قیام میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ مگر ان تمام کوششوں کے باوجود ”سرائیکی صوبے کا مطالبہ تاریخی اور تہذیبی حقیقتوں پر مبنی ہے جسے رد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مطالبہ علاقے کے لوگوں کا ایک جمہوری حق ہے۔“
پاکستان سرائیکی پارٹی کی چیرپرسن کی حیثیت سے انہوں نے حال ہی میں علاقے کے سیلاب زدہ شہروں کے دورے کے بعدکہا کہ لوگ سیلاب کی شدید تباہ کاریوں کاکا شکار ہیں جنہیں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے: ”راجن پور، فاضل پور اور ڈیرہ غازی خان کے سرائیکی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ رحیم یار خان میں ہمارے کارکن نجی طور پرلوگوں کی مدد کر رہے ہیں اور فاضل پور میں بھی کچھ ادبی تنظیمیں اور سیاسی کارکن مل کر کام کررہے ہیں۔“
ڈاکٹرنخبہ نے یونیورسٹی آف لیڈز، برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور آج کل ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور میں انگریزی کی پروفیسر ہیں۔ وہ تین کتابوں کی ادارت کر چکی ہیں اور ان کی کتاب ’Poetry and Resistance: Islam and Ethniciy in Pakistan (Rutledge, 2012)‘ کو مزاحمتی ادب اور سرائیکی شاعری میں اہم تصنیف قرار دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ سرائیکی تاریخ اور تہذیب ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ وہ علاقے کی زبان وتاریخ پر سنڑفا ر ساؤتھ ایشین سٹڈیز، پیرس اور یونیوسٹی آف لندن میں بھی تحقیقی کام کر چکی ہیں۔
اس خصوصی انٹرویو میں وہ سرائیکی صوبہ کی تحریک، سیاستدا نوں کے منافقانہ رویے، سرائیکی شاعری کے مزاحمتی پہلو اور سرائیکی عوام کے جمہوری حقوق پر بات کر رہی ہیں۔
آپ بیک وقت انگریزی ادب کی پروفیسر، سیاسی کارکن اور ریسرچ سکالر ہیں۔ اپنی شخصیت کے ان سب کرداروں میں آپ کاپسندیدہ کردار کون سا ہے؟
میں انگریزی ادب کی تدریس سے منسلک ہوں اور اس لحاظ سے درس وتدریس میراپیشہ اور میری پہچان ہے۔ ایک محقق کی حیثیت سے میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کو کوشش کرتی ہوں، ایک ادنیٰ طالب علم ہوں اورہمیشہ اپنی استعداد کو بہتر سے بہتر کرنے میں مصروف رہتی ہوں۔ دوسری جانب سیاست کے ذریعے میں اپنی ثقافتی پہچان کو اجاگر کرتی ہوں جو میرے والد کی سیاسی جدوجہدکاورثہ ہے اور اس شعبے میں انہوں نے ہی میری تربیت کی تھی۔
میں سمجھتی ہوں کہ زندگی کے اس موڑ پر یہ دونوں پہلو ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں۔ ایک سیاسی کارکن ہوتے ہوئے میری کوشش ہوتی ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے لوگوں اور اپنی تہذیب کو متعارف کراوں۔ میں نے اپنی کتاب ’مزاحمتی شاعر ی‘ کے ذریعے سرائیکی کے سوال پر بحث کی ہے۔ انگریزی ادب کی استاد اور محقق ہونے کے ناتے اپنی ثقافت پر ریسرچ کرنے کے مواقع بھی ملتے ہیں اور اس طرح میں نے لوک روایات، آج کا مزاحمتی ادب، تحریک نسواں، خواجہ فرید کے صوفیانہ افکار، اور برقی عمرانیات ’Digital Humanism‘ کے حوالوں سے سرائیکی ثقافت پر تحقیق کی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ میں سرائیکی ادب کو انگریزی زبان میں ترجمہ کر کے اسے بین الاقوامی سطح پر بھی متعارف کرا رہی ہوں۔ میں نے جن دانشوروں کی نگارشات کے تراجم کیے ہیں ان میں سفیر لاشاری، اسلم جاوید، شاکر شجاع آبادی، رفعت عباس، مسرت کلانچوی، شبنم اعوان اور اسلم انصاری جیسے لکھاری بھی شامل ہیں۔
زندگی کے اس مقام پر میں ان دونوں کرداروں کو نبھا رہی ہوں اور میرا رادہ نہیں ہے کہ میں دونوں میں سے کسی شعبے کا دامن چھوڑنا چاہوں گی کیوں کہ ان ہی سے میری دانشورانہ پہچان بنی ہے اور میری زندگی کو نئے معانی عطا کئے ہیں۔
آپ کے والد تاج محمد لنگاہ نے اپنی زندگی میں سرائیکی صوبہ تحریک کی بنیاد ڈالی۔ آج اس تحریک میں آپ کا کیا کردار ہے؟ ایک پدرسری معاشرے میں جہاں سیاست صرف مردوں کی جاگیر سمجھی جاتی ہے ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے کیا آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں، میرے والد تاج محمد لنگاہ نے سرائیکی تحریک کی سیاسی اور ثقافتی ترویج میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے وہ سیاسی فضا تیار کی جس نے آگے چل کر ادبی محاذ پر بھی سرائیکی صوبے کے قیام کی راہ ہموار کی۔ 1970ء سے لے کر آخری دم تک انہوں نے سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے انتھک کوشش کی اور اسی کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ ان کی سیاسی بصیرت اور لیڈرشپ کا متبادل تلاش کرنا آج کے دور میں بہت مشکل ہے۔
2013ء میں والد کے انتقال کے بعد پارٹی نے فیصلہ کیا کہ مجھے تنطیم کی صدارت سونپی جائے اور باقائدہ انتخابات کے بعدمیں نے یہ عہدہ سنبھالا۔ اپنی علمی اور تدریسی مصروفیات کے باوجود میں پارٹی کو متحد رکھنے میں کامیاب رہی۔ اپنے شوہر ڈاکٹر مقصود احمد لنگاہ کی ہمت افزائی سے میں نے پارٹی کے روزمرہ کے کام، تنظیم سازی اورفیصلہ سازی کو جاری رکھا۔ پانچ سال بعد پارٹی کے قوانین و ضوابط میں ترمیم کے ذریعے مجھے تاحیات چیئر پرسن منتخب کیا گیا اور اللہ نواز وینس ایڈوکیٹ کو صدر بنایا گیا۔ وہ بڑی تندہی سے کام کرتے ہیں اور صدارت کی تین سالہ دوسری مدت پوری کر رہے ہیں۔ پارٹی میں نئے ارکان شامل ہو رہے ہیں اور تمام اہم شعبے سیاسی سرگرمیوں میں پورے خلوص سے علاقے میں اور قومی سطح پر کام کر رہے ہیں۔ اس سال انہوں نے چولستان میں قبضہ گروپ اورقحط جیسے مسائل پر خصوصی توجہ دی ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنما عرصے سے عوامی رابطوں کے ذریعے ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میں اپنے والد کی زندگی میں ان کے شانہ بشانہ سیاسی جدوجہد میں شامل رہی اوران سے بہت کچھ سیکھا۔ اس دوران میں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور کچھ عرصہ ملک سے باہر بھی رہی لیکن ان کی سیاسی تحریک کاکوئی گوشہ ایسا نہیں جس سے میں عملی طورپر دور رہی۔ والد کی زیر نگرانی عوامی جلسوں اور پارٹی کے اجلاس میں شرکت نے مجھے پارٹی کے ارکان سے متعارف کرایا اور انہیں سمجھنے کاموقع فراہم کیا۔ ان تمام مصروفیات نے میری مزاحمتی تحریکوں پرتحقیق کو بھی بہت حد تک نکھارا۔
نتیجتاً والد کے انتقال کے بعد سیاسی اسرار ورموز میرے لئے نئے نہیں تھے، میں تمام ارکان اور رہنماوں کو جانتی تھی۔ میں اپنے والدین کی واحد اولاد تھی، میری والدہ 2008ء میں انتقال کر چکی تھیں اور اب میری پارٹی ہی میرے خاندان کی طرح میرے ساتھ کھڑی تھی۔ محدود ذرائع کے باوجودپارٹی نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور مجھے والدین کی کمی محسوس نہیں ہونے دی، بالخصوص میرے والد جنہوں نے ہم سب کی سیاسی رہنمائی کی۔
لیکن اکثر اوقات شاید ثقافتی روایات کی وجہ سے مجھے کچھ فاصلے ضرور نظر آئے۔ انہیں صنفی تعصب کہنا مشکل ہو گا کیوں کہ ایک عورت، ایک ماں، ایک بیوی اور ایک پروفیسر ہونے کی حیثیت سے میرا احترام کرتے ہوئے مجھے سیاسی کارکن کے طورپر بھی تسلیم کیا گیا۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ میرے والدین کی تربیت نے مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں ایک لڑکی ہوں۔ مجھے ایک بااختیار فرد بنانے میں پہلے میرے والدین اور پھر میرے شوہر کا بڑا ہاتھ ہے۔ میرے خاندان کے جاگیردارانہ پس منظر اور ایک پدرسری معاشرے میں جنم لینے کے باوجود میں نے اپنے فیصلے ہمیشہ خود کئے ہیں۔ پارٹی کی قیادت کے دوران مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہواکہ میں ایک عورت ہوں۔
میرے ذاتی تجربے کے علاوہ عام طور پر لکھی پڑھی سرائیکی خواتین کوگھر کی چار دیواری سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ خواتین لکھاریوں کوادبی محفلوں اور مشاعروں میں جانے نہیں دیاجاتا اور ان کی نگارشات کو شاز و نادر ہی ادبی مباحثوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً سیاسی سرگرمیوں میں صرف وہی خواتین حصہ لیتی ہیں جنہیں اپنے معاشرے کی خدمت کرنے کا جنون ہو اور شاید اسی لئے سرائیکی تحریک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین بہت کم نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس جدوجہد میں ملازمت پیشہ تعلیم یافتہ خواتین کا حصہ بہت کم ہے۔
ہمارا پدر سری اور جاگیردارانہ نظام عورت کو گھر کے باہر سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتا اور عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ان کے والد، بھائی یا شوہر حضرات ان سرگرمیوں کی حمایت نہیں کرتے۔ اس طرح صرف وہی خواتین سیاسی کارکن ہوتی ہیں جو مالی طور پر خود کفیل ہوں یا جن کا تعلق سرائیکی تحریک کی دوسری نسل سے ہو۔
اپنی تصانیف میں آپ کا موقف یہ رہا ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے بر سر اقتدار طبقوں اور سرکاری اداروں نے برطانوی سامراج کی جگہ لے لی ہے اور چھوٹے صوبوں کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ اس موقف کو آپ کس طرح ثابت کریں گی؟
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے برسر اقتدار طبقے نے نیو کلونیل نظام کے تمام ہتھ کنڈے اپنا لئے ہیں۔ جیساکہ میں نے اپنی تصنیف ’مزاحمتی شاعری‘ میں بھی کہا ہے کہ پاکستان میں پنجابی، مہاجر حکمران طبقہ اسی راہ پر گامزن ہے۔ ملک کے بڑھتے ہوئے بحران میں حکومتی ادارے، نوکر شاہی، مالی، نسلی اور لسانی بنیادوں پر قائم طاقتور طبقے بھی اس استحصال میں برابرکے شریک ہیں۔ یہ طبقے ملک میں علاقائی، لسانی اور ثقافتی قدروں کو ’ایک ملک ایک زبان‘ کی چوکھٹ پر قربان کر رہے ہیں۔
یہی طبقے ملک میں بادشاہ گر کا کردار ادا کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کی طاقت کو مزید مستحکم کریں۔ اس طرح وہ ایک منصفانہ نظام کے بجائے اسلام آباد اور لاہور کے قلعوں کو مزید مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ ملک کے اصلی باشندوں کے حقوق سلب کر رہے ہیں اور سرائیکی نوجوانوں کی آواز دبا نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ علاقائی ثقافتوں کی ترویج قومی پہچان کے لئے بہتر نہیں ہے لیکن وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ سرائیکی صوبے کا مطالبہ وفاتی نظام کے اندررہتے ہوئے اپنے جمہوری حقوق کاحصول ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ جمہوری حقوق کے سوال کو نظر انداز کرکے استحصال کوانتہائی حدوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔
مسلم لیگ نون، پی پی پی اور پی ٹی آئی تینوں بڑی جماعتیں سرائیکی صوبے کے قیام کو اصولی طور پر تسلیم کرتی ہیں لیکن وہ عملی طورپرٹال مٹول سے کام لے رہی ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں ہمارے جیتے جی صوبے کا قیام ممکن ہو سکے گا؟
مسئلے کا منفی پہلو یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ووٹ بینک حاصل کرنے کے لئے سرائیکی کارڈ استعمال کرتی ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد وہ پارلیمان میں صوبے کے قیام کے لئے کوئی قدم نہیں بڑھاتیں۔ اس تصویر کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ صوبے کے جائز مطالبے کو رونہیں کر سکتے۔ یہ مطالبہ دراصل اب ایک تاریخی حقیقت بن گیا ہے اور اس علاقے کے باسیوں کا جمہوری حق ہے جنہیں بزور پنجابی یا جنوبی پنجابی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے علاقے میں پنجابی بولی جاتی ہے جب کہ 23 اضلاع میں سرائیکی زبان بولی جاتی ہے۔
پنجاب میں اشرافیہ کی طاقت قائم رکھنے کیلئے سرائیکی علاقے، بہاولپور اور رحیم یار خان میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ تحریک کوکمزور کیا جائے۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر یہ صوبہ بن گیا توان کی طاقت اورسب سے بڑھ کرپارلیمان میں ان کی نمائندگی پرمنفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ایک اور حکمت عملی یہ ہے کہ علاقے میں چینی، کاٹن اور تیل کی صنعتوں میں مقامی آبادی کے بجائے بالائی پنجاب کے لوگوں کو ملازمتوں کے لئے بھرتی کیا جا رہا ہے۔ اس طرح مقامی آبادی ملازمت کے لئے لاہور، کراچی یا امارات جانے پر مجبورہے اور پنجابی یہاں آ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ضروری سرکاری ملازمتوں پرباہر کے لوگوں کوملازمتیں دی جارہی ہیں اور پڑھے لکھے سرائیکی نوجوانوں کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طر ح سرائیکی علاقوں میں صوبائی محکموں کے انتظامی یونٹ بنانے کا منصوبہ قابل عمل نہیں ہے۔
ادھر قبضہ مافیا بھی ہماری زمینوں پر قابض ہو رہا ہے۔ چولستان اس کی صرف ایک مثال ہے جہاں انتہائی سستے داموں علاقے کی زمینیں ہتھیائی جا رہی ہیں۔ اس علاقے کے نایاب تاریخی نوادرات نکال کر چوری کئے جا رہے ہیں۔ تاریخی عمارتوں اور ثقافتی ورثوں کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں، علاقے میں میوزیم کے قیام کاکوئی منصوبہ بھی زیر غور نہیں ہے اور نہ ہی سرائیکی زبان اور تہذیب کے تحفظ کی کوئی حکمت عملی ابھی تک سامنے آئی ہے۔
تمام سیاسی جماعتیں ان مسائل سے بخوبی واقف ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کے لئے ان پر غور نہیں کر رہے۔ سرائیکی عوام جارحانہ مزاحمت پر یقین نہیں رکھتے اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے پرامن جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ سرائیکی صوبے کاخواب کب حقیقت بنے گا لیکن یہ ضرورجانتی ہوں کہ ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ اصل سوال یہ ہے کہ جب تاریخی اور ثقافتی سطحوں پر سرائیکی وسیب کی الگ پہچان ثابت ہوچکی ہے تو اسے کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا؟
بلخ شیر مزاری کے حوالے سے آپ نے اپنی تصنیف میں کہا ہے کہ پنجاب کو سرائیکی، پوٹھوہار اور پنجاب کے تین صوبوں میں تقسیم کیا جانا چاہئے۔ آج کل کی سیاسی فضا میں یہ مطالبہ کہاں تک حقیقت پسندانہ ہے؟
جی ہاں، مزاری صاحب نے یہ خیال لندن میں ایک ملاقات میں ظاہر کیاتھا جس میں تاج لنگاہ صاحب اور میں خود موجود تھی۔ لسانی بنیادوں پر چھوٹے صوبوں کی تشکیل کوئی نیا خیال نہیں ہے اور کینڈا، سوئٹزرلینڈ اور انڈیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ملکوں میں قومی، علاقائی اور اقلیتی بنیادوں پر زبانوں کوتسلیم بھی کیا جاتا ہے۔ اس سے ایک متوازن وفاقی نظام قائم ہو سکتاہے اور اقلیتوں کو بھی حقوق دئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح لوکل باڈیز کے تحت اقلیتوں کو جمہوری نظام کا حصہ بنایا جاسکتاہے تاکہ اپنے گوناگوں مسائل وہ خود حل کر سکیں۔
یہی ایک مکمل جمہوری عمل ہے جو بدقسمتی سے پاکستان میں اب تک پنب نہیں سکا۔ تاہم اس پر سنجیدگی سے غورکرنا بہت ضروری ہے تاکہ لسانی اور نسلی اقلیتوں کا اقتصادی اور سیاسی استحصال ختم کیا جائے۔ موجودہ صورت حال میں کووڈ کے بعد جاری اقتصادی بدحالی، افراط زر اور غیر متوازن جمہوریت نے عام لوگوں کی زندگی دشوار کر دی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت صرف مسائل پیدا ہونے کے بعد ہی رد عمل ظاہر کرتی ہے اور دوررس اقدامات نہیں کئے جاتے اور اس طرح نئے صوبوں کی تشکیل ابھی تک کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے۔
اسی کتاب میں آپ نے سرائیکی صوبہ اور سرائیکستان دو اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ کیا یہ دو مختلف نظریے ہیں یا ایک ہی تصویر کے دو پہلوہیں؟
یہ دونوں اصطلاحات در اصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ غور کیا جائے تو پنجاب میں 23 اضلاع ایسے ہیں جہاں سرائیکی بولی جاتی ہے۔ سرائیکی تحریک عام طور پر سرائیکستان کی اصطلاح استعمال کرتی ہے جو یہاں لوگوں میں بھی ایک مقبول نام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صوبے کے لئے سرکاری طور پر غلط نام دئے جا رہے ہیں، مثلاً ’بہاولپور جنوبی پنجاب‘ یا ’جنوبی پنجاب۔‘
سرائیکستان کی اصطلاح سرائیکیوں کی پہچان بھی بن چکی ہے کیوں کہ جنوبی پنجاب اور شمالی پنجاب کی اصطلاحوں سے تاثر یہ ملتا ہے کہ دونوں پنجاب ہی کے حصے ہیں۔ ان ناموں کا اصل مقصد ہماری سرائیکی پہچان کو رد کرنا ہے۔ 2013ء میں مسلم لیگ نون نے ایک نیا نام ’بہاولپور جنوبی پنجاب صوبہ‘ایجاد کیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ بہاولپور کو ایک چھوٹا پنجاب کہا جائے اور اس مقصد کے لے غیر سرائیکی علاقوں سے لا کرلوگ یہاں آباد بھی کئے جا رہے ہیں جنہیں مقامی آبادی کے مقابلے میں بہتر مراعات اور تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔
کچھ نقاد سرائیکستان کے نام کو علیحدگی کی تحریک بھی قرار دیتے ہیں جو سراسر غلط تاثر ہے۔ تحریک کا مقصد یہ ہے کہ سرائیکی علاقے کے سیاسی اور اقتصادی حقوق نئے صوبے کے قیام کے ذریعے بحال کئے جائیں۔
مزاحمت سندھی، بلوچی اور سرائیکی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔ آپ کے خیال میں سرائیکی مزاحمتی شاعری کس طرح دوسری دو زبانوں سے مختلف ہے؟
میں نے دوسری دو زبانوں پر اتنی تحقیق نہیں کی کہ میں ان کا تقابلی جائز ہ لے سکوں۔ ان زبانوں میں میری استعداد بھی اتنی نہیں کہ میں انہیں پڑھ کر تبصرہ کر سکوں۔ اتنا ضرور کہوں گی کہ سیاسی مزاحمت ادب کا ایک اہم پہلوہے۔
حال ہی میں ایف سی کالج یونیورسٹی میں ایک سینئر رفیق کارڈاکٹر سکندر حیات کے توسط سے مجھے پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ادب پرکام کرنے کا موقع ملا۔اس تحقیق کے دوران مجھے معلوم ہواکہ پشتو، سندھی اور بلوچی سمیت علاقائی زبانوں میں سیاسی مزاحمت ایک اہم موضوع ہے۔ادب میں مزاحمتی پہلووں کا دارومدار اس وقت کے سیاسی حالات پر ہوتاہے۔دوسری زبانوں کے مقابلے میں سرائیکی شاعری علاقے کی ثقافتی پہچان اور صوبے کی تحریک کااہم حصہ ہے۔
یہ سرائیکیوں کے لئے بہت اہم ہے اس لئے بھی کہ دوسری زبانوں کی اپنی ایک صوبائی پہچان ہے اور ہماری نہیں ہے۔ایک عرصے سے سرائیکی کو پنجابی یا سندھی زبانوں کا حصہ قراردیا جارہے ہے جب کہ یہ زبان دوسرے صوبوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ہمیں مردم شماری کے فارم پر سرائیکی کو شامل کرانے اور اسے تعلیمی نصاب میں شامل کرانے میں بھی ایک عرصہ لگا۔اب یونیورسٹی کی سطح پر سرائیکی پڑھائی جارہی ہے لیکن اسکولوں میں نہیں۔ان حقائق کی روشنی میں ہم سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے صوبوں سے بہت پیچھے ہیں۔
آپ کے خیال میں سرائیکی شاعری نے علاقے کے حقوق اور صوبے کے قیام کی جدوجہد میں کیا کردار اداکیاہے؟
سرائیکی شاعری نے علاقے کے حقوق اور صوبے کی جدوجہد میں ایک بنیادی کردار اداکیاہے۔یہ کوشش نئی نہیں ہے، خواجہ غلام فریدنے بھی بہت پہلے اپنی کافیوں کے ذریعے یہ سوال اٹھایا تھا:
’اپنی نگری آپ وساتوں،پٹ انگریزی تھانے‘
یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ شاکر شجاع آبادی نے اپنے کلام میں طبقاتی استحصال کا زکرکیاہے۔عاشق بزدار، جہانگیر مخلص اور سفیر لاشاری نے سرائیکی پہچان اور صوبے کے مطالبے کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ادبی سطح پر اس مزاحمت نے سیاسی کارکنوں کو بھی مہمیزدی ور مزاحمتی شاعری ان کی سیاسی جدوجہد کا اہم حصہ بن کرابھری۔
سرائیکی ادب میں ابھرتے ہوئے مزاحمتی شعرا اور شاعرات کی کمی نہیں ہے لیکن ان کے محدود وسائل ہیں اورایسے ادارے یا مطبوعات بھی نہیں ہیں جو انہیں شائع کریں۔وہ نجی طورپر ادبی تنظیموں کا حصہ ہیں لیکن ریاست ان کے ہنرکو نکھارنے یا تراجم کرانے میں کوئی مددنہیں کررہی۔ اس کے برعکس پنجابی کیٹلاگ اور انتھالوجیز میں تو اب بھی سرائیکی لکھاریوں کوپنجابی لکھاریوں کی فہرست میں ہی شامل کیا جاتا ہے۔
مثال کے طورپر خواجہ فرید کاکلا م محفوظ کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے اور اسے انتہائی غیر محفوظ ماحول میں رکھا جاتا ہے۔شاکر شجاع آبادی اور ان جیسے کئی اور دانشوروں کوریاستی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ عاشق بزدار تین دہائیوں سے فنڈاکٹھا کرکے سالانہ ادبی میلہ منعقد کررہے ہیں۔
اسی طرح خواتین دانشور وں کوایک پدرسری ماحول میں پنبنے کے مواقع میسرنہیں ہیں۔یہاں کوئی سرائیکی اکیڈمی بھی نہیں ہے جو ان سرگرمیوں کی سرپرستی کرسکے۔ شاعری کی روایات اپنے جمالیاتی، تاریخی اور ثقافتی پہلووں کے ساتھ ہمیشہ سے سرائیکی تہذیب کا حصہ رہی ہیں جنہیں صوفیانہ افکاراور شاعری نے مزید نکھارنے کاکام سرانجام دیا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری ادبی روایات اب سیاسی جدوجہد کا حصہ بن گئی ہیں۔یہی ادبی سرگرمیاں اور سیاسی جدوجہد لوگوں کو مسائل سے آگاہی اورسیاسی شعوردے رہی ہیں۔ان دونوں شعبوں کا تعاون عوام کو زبان، ثقافت،تاریخ اور اپنی پہچان سمجھنے میں مددگار ثابت ہورہا ہے لیکن اس جدوجہدمیں خواتین اور نوجوانوں کی شرکت بھی وقت کا ایک اہم تقاضہ ہے۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔