تاریخ

راولپنڈی ’سازش‘ کیس (حِصہ دوم)

علی مدیح ہاشمی

زندگی جینا کوئی آسان کام نہیں۔ مایوسی، احساسِ ناکامی، چڑچڑا پن، آپ اِن سب میں (ہر صُورت) گِر کر ہی رہتے ہیں تا آنکہ آپ کے سامنے کوئی ایسا مقصد نہ ہو جو ذاتی تکالیف، کمزوریوں، پریشانیوں اور ہر قسم کی بے ایمانی اور کمینے پن سے ماورا ہو۔
(لیون ٹراٹسکی)

راولپنڈی سازش کیس کی تفصیلات مقدمہ ختم ہونے کے برسوں بعد تک بھی راز و اَسرار میں لپٹی ہوئی تھیں۔ آہستہ آہستہ یہ باتیں سامنے آنا شروع ہوئیں کہ اصل ’سازش‘ نئی نویلی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (CPP) پر پابندی لگانا اور ان تمام آوازوں کو خاموش کرنا تھا جو سیاسی آزادی اور کشادہ ذہنیت کا مطالبہ کر رہی تھیں۔یہ تفصیلات جو مقدمے کی کارروائی کے دوران اور بعد میں سامنے آتی رہیں تھیں ان سے الزام تراشی کے اصل مقاصد بھی سامنے آ گئے۔
برطانوی فوج سے سبکدوش ہونے کے بعدبھی بہت سے فوجی افسران سے فیضؔ کے اچھے تعلقات رہے جن میں سب سے سینئر افسر جو اس سازش میں ملوث کئے گئے میجر جنرل اکبر خان چیف آف اسٹاف آف پاکستان آرمی تھے۔ وہ اپنے سیاسی نظریات کے لحاظ سے جمہوریت پسند تھے مگرکسی بھی طور پر ان کا جھکاؤ سوشلسٹ یا کمیونسٹ نظریات کی جانب نہیں تھا۔
آرمی میں ایسے دیگر افسران بھی تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ ملک غلط راستے پر چل پڑا ہے اور تبدیلی ضروری ہے، خاص کر بائیں بازو یا ترقی پسند قسم کی تبدیلی۔ جنرل اکبر خان کی سید سجاد ظہیر،جنرل سیکریٹری CPP،سے بھی دوستی تھی۔ آرمی افسران سجّاد ظہیر سے بھی ملنا چاہتے تھے تا کہ ان سے بھی اس بارے میں تبادلہئ خیال کر سکیں لیکن وہ 2 برس پہلے ہندوستان سے پاکستان آئے تھے اور تب سے ہی زیرِ زمین تھے (چھپ کر رہ رہے تھے)۔ 1936ء سے ان کی نگرانی کی جا رہی تھی کیوں کہ آل انڈیا پروگریسیو رائیٹرز ایسو سی ایشن کی بنیاد رکھنے والے وہی تھے۔ جنرل اکبر نے سجاد ظہیر سے ملاقات کے لیے فیضؔ سے مدد کی درخواست کی تھی۔ مارچ 1951ء میں ایک روز فیضؔ اپنے انتہائی قریبی دوست سجاد ظہیر کے ہمراہ، راولپنڈی میں جنرل اکبر کے گھر ملنے گئے۔یہ مُلاقات حکومتِ وقت کے لئے اِس لئے بعد میں باعثِ تشویش بنی کہ پاکستان کے سب سے بڑے اخبار کے مدُیرِ اعلیٰ نیز پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر اور گرفتاری کے لئے پولیس کو مطلوب پاکستانی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری فوج کے سب سے اعلیٰ افسر سے مِل رہے تھے۔
برسوں بعد فیضؔ نے اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا: ”قِصّہ صِرف اِتنا تھاکہ ہم لوگوں نے ایک دِن بیٹھ کر بات کی کہ اِس مُلک میں کیا ہونا چاہیئے؟ کِس طریقے سے یہاں کے حالات بہتر بنائے جائیں چونکہ مُلک کو بنے چار سال کا عرصہ گُزر چُکا تھا اور نہ یہاں آئین بنا تھا، نہ سیاسی ڈھانچہ ٹھیک طرح سے منظم ہوا تھا“۔
جو لوگ جمع تھے، ان کا خیال تھا کہ وزیر اعظم ملکی اور غیر ملکی معاملات کو صحیح طور پر سنبھال نہیں پا رہے ہیں اور حال ہی میں امریکہ سے جو معاہدہ کیا گیا ہے وہ انتہائی خطر ناک ہے کیونکہ اِس کے نتیجے میں پاکستان میں امریکی اڈے تعمیر ہو جائیں گے اور جنگ کی صورت میں سوویت یونین پاکستان کے خلاف ایٹم بم استعمال کر سکتا ہے۔ اس گفتگو میں شریک تمام افراد کا خیال تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے تا کہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان جنگ کی صورت میں پاکستان پر آنچ نہ آئے۔ یہ آرمی افسران کمیونسٹ پارٹی کی حمایت حاصل کرنا چاہتے تھے تا کہ حکومت کو معزوُل کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
کئی گھنٹوں پر محیط بحث و تکرار کے بعد فیض ؔاور سجّاد ظہیر تمام لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے سب کو راضی کر لیا تھا کہ ملک کے موجودہ حالات میں مسئلے کو حل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال عقلمندی کا فیصلہ نہیں ہو گا۔ علاوہ ازیں جو بھی آرمی افسران اس میں شامل ہیں ان کے پاس کوئی سیاسی لائحہ عمل نہیں ہے کہ حکومت معزوُل کرنے میں کامیاب ہو جانے پر انہیں کیا کرنا ہوگا۔ ویسے بھی CPP بہت چھوٹی جماعت تھی اور وہ ملک کی سیاسی باگ ڈور سنبھالنے کی اہل نہیں ہے۔ اس کردار کو ادا کرنے کے لیے ابھی کوئی دوسری پارٹی موجود نہیں ہے اور اِس وجہ سے اس منصوبے کی ناکامی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
اس ملاقات سے پہلے، ایک اور تفصیلی گفتگو CPP کے ممبران (فیضؔ، جس کا حصہ نہیں تھے) کے درمیان ہوئی تھی اور وہ بھی اِسی نتیجے پر پہنچے تھے۔ CPP کے اہم ممبر سید سبطِ حسن کے مطابق:
”اِجلاس ہوا اور بنّے بھائی (سجاد ظہیر) نے پہلی بار ہمارے سامنے فوجیوں کے منصوبے کا خاکہ پیش کیا۔ اِس منصوبے پر دو تین دِن بحث ہوتی رہی اور دو تین ساتھیوں کے علاوہ سب نے اِس کی مُخالفت کی۔ یہ مُخالفت اصولی بھی تھی اور نظریاتی اور عملی بھی۔ہمارا کہنا تھا کہ اِنقلاب مُٹھی بھر فوجیوں کی سازش سے نہیں آتا۔ اِس کے لئے مزدوروں، کِسانوں اور درمیانے طبقے کے ترقی پسند لوگوں کی اکثریت کی عملی حمایت ضروری ہوتی ہے اور اِس اِنقلاب کی قیادت اِنقلابی جماعت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ دو دن کی مسلسل بحث کے بعد طے پایا کہ فوجیوں سے مزید تفصیلات معلوم کی جائیں۔ اُن کے مقاصد کیا ہیں، وہ ملُک میں کِس قسم کا معاشرتی نِظام قائم کرنا چاہتے ہیں اور اپنے منصوبے کو عملی شکل کیسے دیں گے۔ دو تین ہفتے بعد مرکزی کمیٹی کا اِجلاس پھر ہوا اور بنّے بھائی نے تفصیلات ہمارے سامنے رکھ دیں جِن سے پتا چلا کہ فوجیوں کا منصوبہ واقعی شیخ چِلی کا منصوبہ تھا۔ ا ن کو نہ تو یہ معلوم تھا کہ وہ کِن خطوط پر پاکستانی معیشت اور سیاست کو آگے بڑھائیں گے نہ یہ کہ عوام کے جمہوری حقوق کِس طرح فروغ پائیں گے، حکومت کا ڈھانچہ کیا ہوگا اور سب سے بڑھ کر کہ انہُیں ہم سے کیا توقعات ہیں؟ ہمیں فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگی چنانچہ یہ طے پایا کی فوجیوں کے اِس منصوبے کو رد کر دیا جائے اور اُن کو سمجھایا جائے کہ وہ اِن طفِلانہ حرکتوں سے باز آ جائیں۔ بعد میں بنّے بھئی نے بتایا کہ وہ فوجیوں سے مِل آئے تھے اور اُن کی بات مانی گئی تھی اور فوجی اِنقلاب کا اِرادہ ترک کر دیا گیا تھا“۔
جنرل اکبر خان نے اپنی یادداشتوں میں اس بات کی تصدیق کی کہ بعد میں اُن آرمی افسران، جنہوں نے یہ تجویز دی تھی اور CPP کے ممبران کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ اس ضمن میں کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ ان کا خیال تھا کہ معاملہ ختم ہو گیا ہے یہاں تک کہ انہوں نے اپنی میز سے وہ کاغذات ہٹانے کی زحمت بھی نہیں کی جِس پر انہوں نے میٹنگ کے بعد کچھ نوٹ لِکھے تھے جنہیں بعد میں ملزمان کے خلاف بطور شہادت پیش کیا گیا۔ جنرل اکبر اس نام نہاد سازش سے پہلے ہی اپنے افسروں کے ہدف پر تھے کہ وہ بہت آزاد منش اور خود مختار مزاج کا انسان ہے اور حتیٰ کہ شاہِ برطانیہ کا بھی بہت اطاعت گذار نہیں۔ ملزم کو گرفتار کرنے والے ایک پولیس افسر نے برسوں بعد تحریر کیا:
”بہت سے سینئر برطانوی افسران جیسے جنرل گریسی (قیام ِپاکستان کے بعد کمانڈر انچیف پاکستان آرمڈ فورسز) ان پاکستانی افسران کو ترجیح دیتے تھے جو تقسیم سے پہلے بہت فرمانبردار اور غلامانہ ذہنیت رکھتے تھے۔ سازش میں ملوث وہ افسران جو ان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی نہیں بنے تھے، وہ تمام نہایت بہادر اور مضبوط کردار کے مالک تھے البتہ ایوب خان (جو جنرل گریسی کے بعد اپنی باری کے بغیر (Out of turn) ترقی دے کر کمانڈر انچیف بنا دیئے گئے تھے) نان کمیشنڈ افسر کے بیٹے تھے اور انگریزکی خوشامد اُن کی سرشت میں شامل تھی۔ جنرل گریسی کا ان کو کمانڈر آف آرمی بنانے کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا نہیں تھا بلکہ آرمی کی کمانڈ ایک ایسے جنرل کے ہاتھ میں دینا تھا جو برطانیہ کا وفادار ہو اور وہ اپنے اس منصوبے میں کامیاب رہا۔ یہی جنرل ایوب خان تھے جنہوں نے فوج کی مدد سے راولپنڈی کیس کے ۷ سال بعد ۸۵۹۱میں پاکستان کی سیاسی حکومت کے خلاف پہلی کامیاب بغاوت کی جِس کے نتیجے میں پاکستان میں پہلا مارشل لاء نافِذ ہوا۔
قیدخانے میں آزاد
حراست میں لیے جانے کے بعد 3 مہینے تک فیضؔ اور ان کے ساتھیوں کو پہلے سرگودھا اور پھر لائل پور جیل میں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ اس کے بعد انہیں حیدر آباد سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا جہاں اُن پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی عدالت کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ حیدر آباد جیل ہی تھی جہاں آخر کار اِن الزامات کے بارے میں علِم ہوا جو اُن پر لگائے گئے تھے۔ تمام افراد الزامات کی اس فہرست کو دیکھ کر حیران بھی تھے اور پریشان بھی۔ زیادہ تر الزامات سراسر جھوٹ تھے اور بار بار دہرائے گئے تھے۔ کچھ ملزمان کا خیال تھا کہ یہ الزامات ایک مذاق ہیں اس لیے ان کو نظر انداز کر دینا چاہیے، مگر فیضؔ، سجادظہیر اور جنرل اکبر کا خیال تھا کہ ان الزامات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ بعض الزامات میں سزا عمر قید ہے اور سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ وہ اس بات سے واقف تھے کہ حکومت کسی طرح بھی اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو پھر سے بحال کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اپنی حمایت حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ مقدمے کا نتیجہ کچھ بھی رہے، عدالتی کارروائی تاریخی ریکارڈ کا حصہ بن جائے گا اس لیے ان الزامات کو پوری طاقت سے رد کرنا ہوگا۔
رہائی کے برسوں بعد، ’صلیبیں میرے دریچے میں‘ فیض کا ایک خط ایلس کے نام شائع ہوا تھا جس میں قید کے دوران ان کی مختلف ذہنی کیفیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک غیر معمولی چیز جو اِن خطوط میں بار بار نظر آتی ہے وہ ان کا اپنی معصومیت میں ایک غیر متزلزل یقین ہے۔ وہ جیل سے خط میں لکھتے ہیں: ”جب سے میں یہاں پہنچا ہوں خوف وخطر کا قطعی کوئی احساس دِل میں باقی نہیں رہا (اگرچہ یہ احساس پہلے بھی کچُھ ایسا زیادہ نہ تھا)، وہ اِس وجہ سے کہ نہ صرف مُجھ سے کوئی ایسی حرکت سر زد نہیں ہوئی جِسے اخلاقی طور سے گنُاہ کہہ سکیں کوئی ایساارِتکاب بھی نہیں کیا جِسے رسمی یا قانونی طور سے جُرم ٹھہرایا جا سکے“۔

فیضؔ کو حیدر آباد جیل میں 26 مہینے (4 جون 1951ء سے جولائی 1953ء) تک رکھا گیا۔یکم نومبر 1952ء یعنی 18 مہینے تک قانونی کارروائی چلتی رہی۔ 5 جنوری 1953ء کو فیصلہ سنایا گیا اور فیضؔ کو چار سال قید کی سزا ہو گئی۔ سازش کے دیگر ملزمان کو بھی اسی طرح کی سزائیں سنائی گئیں۔
اپنے مخصوص انداز میں انہوں نے ایلس کو لکھا:
”اب تک برُی خبرتمہیں پہنچ چکُی ہوگی۔ اِس سے اپنا دِل زیادہ پریشان نہ ہونے دو۔ جیسے ہم نے پِچھلے سال گُزار لئے، یہ بھی گُزار لیں گے۔ ذرا سوچو تو اِس نئی مصُیبت کے آخر معنی کیا ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ڈھائی سال کی مزید جُدائی۔ اگر تُم گِردو پیش پر نِگاہ دوڑاؤ تو ہندوستان پاکستان میں تمہیں شاید ہی کوئی نیک آدمی ایسا مِلے گا جِس نے برطانوی عہد میں اِس سے زیادہ جیل نہ کاٹی ہو۔ اور کِسی کا کچھ بھی نہیں بِگڑا۔ بد قِسمتی سے نیکی اور نِجات کی کوئی سہل راہ نہیں ہے“۔
تخلیقی اعتبار سے دیکھا جائے تو قید کا زمانہ ان کی زندگی کا سب سے بہترین دور ہے۔ کئی سال بعد انہوں نے خود یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کِس طرح شاعری کی دیوی دوبارہ اُن پر مہربان ہوئی تھی: ”بڑی چیز تو فرُصت ہے جو کہ شعر لکھنے کی پہلی شرط ہے۔ لیکن صرف فرُصت کی بات نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جیل خانے میں انسان میں ایک طریقے سے وہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو ابتدائے شباب کی ہوتی ہے۔ ہر چیزمیں نئے نئے پہلو نظر آتے ہیں نئے نئے رنگ نظر آتے ہیں، شعور زیادہ ہو جاتا ہے۔ خاص طور سے جب ہم چار مہینے قید تنہائی میں رہے جب ہمارے پاس کاغذقلم کتاب خط اخبار کچھ بھی نہیں تھا سوائے مشاہدہ ء فطرت کے اور کوئی مشغلہ نہیں تھا۔اس زمانے میں بہت سی چیزیں منکشف ہوئیں۔ ہم نے کسی خط میں لکھا بھی ہے بھئی کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جنگلی کبوتر کی گردن پہ کتنے رنگ ہوتے ہیں یا یہ کہ اگر پیپل کا کوئی پیڑ ہو اور صبح سے آپ اسے دیکھنا شروع کریں تو سورج کے ساتھ ساتھ اس کے پتوں پہ اور اس کی شاخوں کے کتنے رنگ بدلتے ہیں صبح سے شام تک۔ پھر جب موسم بدلتا ہے تو اس موسم کے بدلنے میں کیا کیا کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں یعنی جس طریقے سے گرمیوں کے بعد پہلا جھونکا آتا ہے برسات کی ٹھنڈی ہوا کا تو یہ جو آدمی کی sensation کا حصہ ہوتا ہے یہ جیل خانے میں اور تیز ہو جاتا ہے اس لئے کہ اور ان کی آسوُدگی کی کوئی صورت ہوتی نہیں ہے۔اس وجہ سے ذہن اور شعور اور جذبے میں زیادہ ذکاوت پیدا ہو جاتی ہے اور بہت سی چیزوں پر تحیرّ جو کہ آدمی روز مرہ کہ زندگی میں کھو دیتا ہے اُس تحیرّ کی کیفیت کی کچھ دوبارہ تجدید ہو جاتی ہے“ ۔
جیل میں میجر اسحق محمد، فیض ؔکے خود ساختہ، ’سرپرست‘بن گئے تھے اور جب فیضؔ پر کوئی نئی نظم وارد ہو رہی ہوتی تو وہ ان کی کیفیت کو فوراً سمجھ لیتے تھے۔ انہوں نے اِس بارے میں اپنے مضمون ”رودادِ قفس“ میں لکھا ہے۔ یہ مضمون فیض ؔکے تیسرے مجموعے ”زنداں نامہ“ کے پیش لفظ کے طور پر بھی شائع ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”میں ان (فیضؔ) کی مزاجی کیفیتوں (موڈز) سے اچھی طرح واقف تھا۔ شعرکا عالم طاری ہوتا تھا تو فیضؔ صاحب خاموش ہو جایا کرتے تھے۔ البتہ اُٹھتے بیٹھتے گُنگُنا چُکنے کے بعد اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے، ہم بھانپ لیتے کی سامعین کی ضرُورت ہے چنانچہ ہم موقع کی مُناسبت کا اندازہ لگا کر حضُورِ شاعرپہنچ جاتے تھے اور اِدھر اُدھر کی ہانکنے کے بعد غزل یا نظم کا مُطالبہ شروع کر دیا کرتے تھے۔ اگر نظم یا غزل تیار ہوتی تو ایک آدھ شعر سُنا دیا کرتے ورنہ حُکم ہوتا کہ بھاگ جاؤ۔ ہم سمجھ جاتے تھے کہ اِس اِنکار میں اِقرار مخفی ہے اور بات پھیلا دی جاتی کہ
معنی کی سر زمیں پہ نزُولِ سروش ہے
اور اُن کے نواح میں شور و غوغا، دنگا فساد، لڑائی جھگڑا حتی الامکان بند کر دیا جاتا“
اپنی قید کے دوران، فیضؔ کو مطالعہ کرنے کا بہت موقع ملا جو قید سے پہلے مصروفیات میں کم ہو گیا تھا۔ جیل سے ایلس کے نام لکھے گئے خطوط میں زیر مطالعہ کتابوں کے بارے میں تبصرے کے چند جملے ضرور تحریر ہوتے۔ وہ کالج میں انگریزی کے استاد رہے تھے اور اردو کے ساتھ عربی اور فارسی پر ان کو عبور حاصل تھااور انہیں بچپن سے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ انہوں نے خاص طور پر جیل میں عرب شاعر ابو تمام کا دیوان منگوایا تھا۔ انہوں نے ایلس سے درخواست کی تھی کہ انہیں
Reynold Nicholson کی A Literary History of the Arabs
آرنسٹ ٹرنر کی A History of Courting
آرنلڈ ٹوائن بی کی A Study of History
ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کی Indian Philosophy
اور دیگر کتابیں بھِجوائی جائیں جو، انسانی ثقافت، تہذیب اور اس کے ارتقاء میں اُن کی دلچسپی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ادب پڑھنے سے ان کو بے حد دلچسپی تھی اور ان کی فہرستِ کتب میں جو کتابیں نظر آتی ہیں اس میں شامل تھیں: الفانسو ڈوڈے (Alphonse Daudet) کی سیفو، شون اوکیسی کا کھیل The Star turns Red،ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کی نظمیں، چیخوف اور موپاساں کے افسانے اور ناول، جیمز ایلڈرج کا ناول The Diplomat، Upton Sinclair کا The Jungle،گو گول کی کہانیاں اور شیکسپیئر کی تخلیقات۔ انہوں نے ہیو لاک ایلس اور نطشے کی کتابیں بھی بھیجنے کے لیے لکھا تھا۔
مشہور روسی ڈاکٹر اور شہرہ آفاق افسانہ نِگار چیخوف کے بارے میں ایلس کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:”چیخوف کی تحریر سے کِتنا گہرا پیار اور کِتنی بے پناہ شفقت ٹپکتی ہے۔ اس کے ڈرامے اتنے سبُک ہیں کہ انہیں ٹریجدی نہیں کہہ سکتے۔ چیخوف کے ڈراموں کا بنیادی زیور اُمید اور ہمدردی ہے جِس سے اس کا ہر افسردہ سین لبریز نظر آتا ہے “۔
ایک اور خط میں انہوں نے لکھا: ”میں نے ساری کِتابیں کھول کر نہیں دیکھی ہیں تا کہ لُطف باقی رہے۔ ٹرنر کی A History of Courtship پہلے شروع کی ہے، یہ چٹخارے دار ہے اس لیے آہستہ آہستہ پڑھ رہا ہوں کہ جلد ختم نہ ہو جائے۔ اَس کے ساتھ میں نے فلسفے کا مطالعہ بھی شروع کر دیا ہے اور اگر ذہن مصفّا اور تیار ہو تو فلسفہ بھی ایسے ہی مزے کی چیز ہے“
ایک اور جگہ انہوں نے تذکرہ کیا: میں ایلیٹ (TS Eliot)کی ایک نظم پڑھ رہا ہوں۔ وقت جو قاتِل ہے وقت جو پالنہار ہے۔ بہت خوبصورت نظم ہے، اگرچہ ایلیٹ جو اِس سے نتائج اخذ کرتے ہیں بالکل بے سروپا ہیں“
نطشے (Nietzsche)کی Thus spake Zarathustra کے بارے میں لکھتے ہیں: یہ کِتاب پہلے میری نظر سے نہیں گُزری تھی۔ اگرچہ میں نطشے کی زیادہ اہم تصانیف کامطالعہ کر چُکا ہوں۔ اگر نطشے زندہ ہوتا تو جرمنی میں نازیوں سے یقینی لڑتا۔اِس وجہ سے کہ نازیوں نے اس کے فِکر و خیال کا حُلیہ بِگاڑ دیا ہے اور اُس کی تحریر کے اصلی خدو خال بالکل مسخ کر دیے ہیں۔ تھا تو وہ بھی پاجی لیکن بہت حساس اور شاعرانہ قِسم کا“۔
موت بنی مہمان
1952ء جولائی کا ایک تپتا ہوا دن تھا مگر فیضؔ ایسے میں بھی بہت خوش تھے کیوں کہ ان کے عزیز ترین بڑے بھائی طفیل ان سے ملنے آ رہے تھے۔ یہ دونوں بچپن سے ہی ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ جب ان کے والد اچانک اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے تب فیضؔ اپنی تعلیم چھوڑ کر ملازمت کرنا چاہتے تھے تاکہ اپنی والدہ اور باقی خاندان کی مدد کر سکیں۔ اُس وقت طفیل نے ہی اس بات کی سختی سے مخالفت کی تھی اور فیضؔ پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کریں اور اس طرح طفیل نے اتنے بڑے خانوادے کا سارا بوجھ اپنے سر لے لیا تھا۔ سازش کیس کے دنوں میں طفیل نے ہی ایلس کی مدد کی تھی اور اُن کو ایسا وکیل ڈھونڈ کر دیا تھا جو فیض ؔکا مقدمہ ہاتھ میں لینے کے لیے تیار ہو گیا تھا۔
اس مرتبہ طفیل خوش خبری لے کر آئے تھے۔ ان کے والد کی خاندانی زمین پر جو جھگڑا چلا آ رہا تھا آخر کار اس کا فیصلہ اُن کے حق میں ہو گیا تھا۔ طفیل کا خیال تھا کہ اگر اس زمین کا انتظام انصاف سے کیا جائے تو پورا خاندان بشمول ایلس اور ان کی دونوں بیٹیاں، اس زمین سے معاشی طور پر فیض یاب ہو سکتی ہیں مگر دونوں بھائیوں کی ملاقات نہ ہو سکی۔ 17 جولائی 1952 صبح سویرے طفیل کو دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ اسی لمحے وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ایلس کو اگلے خط میں فیض ؔنے اپنے احساسات بیان کرتے ہوئے لکھا تھا:”آج صبح میرے بھائی کی جگہ موت میری مُلاقات کو آئی۔ سب لوگ مہربانی سے پیش آئے۔ یہ لوگ میری زِندگی کی عزیز ترین متاع مُجھے دِکھانے لے گئے، وہ متاع جو اب خاک ہو چُکی تھی اور پھِر وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے“۔
’اور پھر وہ انہیں اپنے ساتھ لے گئے‘
اپنے بڑے بھائی کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہتے ہوئے بھی فیضؔ نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ تھوڑی ہی دیر میں انہوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور ایلس کو خط لکھنے بیٹھ گئے:
”میں نے اپنے غم کے غروُر میں سر اونچا رکھا اور کِسی کے سامنے نظر نہیں جھُکائی۔ یہ کِتنا مُشکِل، کتنِا اذیت ناک تھا صِرف میرا دِل جانتا ہے۔ اب میں اپنی کوٹھری میں اپنے غم کے ساتھ تنہا ہوں۔ اب مُجھے سر اونچا رکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں اِس غم کے بے پناہ ظُلم سے ہار مان لینے میں کوئی تذلیل نہیں ہے۔ اِس وقت حواس اِتنے پراگندہ ہیں کہ زیادہ نہیں لِکھ سکتا۔ لیکن آپ لوگ میرے بارے میں فِکر مند نہ ہوں۔ یہ زخم بہت اچانک بہت بے سبب لگا ہے لیکن اِسے سہنے کا بل مُجھ میں ہے اور اِس کا سامنے بھی میرا سر نہیں جھُکے گا۔ صرِف یہ جی چاہتا ہے کہ اِس وقت میں باہر ہوتا اور اُن بیچاروں کو اپنے بازوؤں کا سہارا دے سکتا جِن کے تن میں مُجھ سے کم طاقت ہے ا ور جِن کا دُکھ میرے غم سے زیادہ بھاری ہے“
فیضؔ کو یہ سوچ نہایت پریشان کرتی تھی کہ طفیل کی موت کے ذمہ دار وہ ہیں۔ اگر طفیل ان سے ملنے نہ آتے تو شائد زندہ رہتے:”میں اُس کی بیوی بچوں اور اپنی ماں کے خیال کو دِل سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ابھی اُنہیں کُچھ لِکھنے کی سکت بھی نہیں ہے، لکِھ ہی کیا سکتا ہوں۔ میں نے اپنی ماں کی پہلی اولاد اُن سے چھین لی ہے، ہاں میں نے ہی سب کو اُس کی زندگی سے محروم کر دیا ہے“۔
اس واقعے کے اگلے دن فیضؔ کے دِل سے اپنے بھائی کے لیے ایک انتہائی درد ناک نظم نِکلی جس کا عنوان تھا”نوحہ“:

مجھ کو شِکوہ ہے مرے بھائی کہ تمُ جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گذشتہ کی کتاب اِس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اِس میں بچپن تھا مرا اور مرا عہدِ شباب
اِس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوُں رنگ گلاب
کیا کرُوں بھائی یہ اعزاز میں کیوں کر پہنوں
مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیصوں کا حساب
آخری بار ہے لومان لو اِک یہ بھی سوال
آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب
آکے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھوُل
مجھُ کو لوٹا دو میری عمرِ گذشتہ کی کتاب
طفیل کی وفات کے تقریباً ایک مہینے بعد فیض ؔکو رشید جہاں کے ماسکو میں انتقال کر جانے کی خبر ملی۔ وہ بہت عرصے سے شدید بیمار تھیں اور یہ خبر متوقع تھی مگر پھر بھی اندو ہناک تھی: ”رشیدہ کے موسکو میں مرنے کی خبر کل پڑھی۔ اگر میں جیل سے باہر ہوتا تو شاید زار و قطار روتا لیکن اب تو رونے کو آنسو ہی باقی نہیں رہے۔ اِس حادثے کا سُن کر رونے دھونے کی بجائے دِل پر عجیب مُردنی سی چھائی رہی۔ شاید اپنے لاشعور میں یہ خیال بھی ہو کہ مرنے والے کی بہادر روح بیکار اور بُزدلانہ غم ہ اندوہ کو پسند نہیں کرے گی۔ اُس کے جانے سے ہمارے برِّ صغیر سے نیکی اور اِنسان دوستی کی بہت بڑی دولت چھِن گئی اور اُس کے دوستوں کی محرومی کی کیا کہئے جِن کی زندگیاں اُس کے ایثار و مروّت سے اِس قدر آسودہ اور مزیّن ہوئیں‘۔
اُسی سال اکتوبر میں ایلس کے والد جیو فری او سمنڈ جارج شدید بیمار ہو گئے۔ فیضؔ نے ایلس سے کہا کہ وہ فوراً لندن چلی جائیں مگر ایلس مقدمے کے دوران یہاں سے جانے پر راضی نہیں تھیں۔ فیضؔ جانتے تھے کہ ان کے سسر اپنی دونوں بیٹیوں کی وجہ سے سخت پریشان ہوں گے جس طرح کے حالات کا انہیں سامنا تھا۔ (کرسٹیبل کے شوہر ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کا 1950ء میں دل کا دورہ پڑنے سے اچانک انتقال ہو گیا تھا)۔ ایلس کو لندن جانے آنے کے اخراجات کی بھی فکر تھی۔ ایلس ان کو دیکھنے نہ جا سکیں اور کچھ عرصے بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ فیض ؔنے ایلس کو لکھا: ”میں تمہارے تازہ صدمے کا تذکرہ نہیں کروں گا، نہ تمہیں دِلاسہ دینے کی کوشش کروں گا۔ موت کی خوفنات ابدیت کے لئے کوئی بھی موزوں الفاظ نہیں، صرف محبت اور شِدتِ غم ہی کُچھ تلافی کر سکتے ہیں اور اِن دونوں کے لئے الفاظ درکار نہیں ہیں“۔
اپنی قوم کا غدار
فیضؔ اگر جیل میں اپنے اندر ونی شیطانوں سے لڑ رہے تھے تو ایلس اور دونوں لڑکیاں جیل سے باہر یہ جنگ کر رہی تھیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ قانونی طور پر یہ کیس کمزور ہے حکومت اور حکومتی کارکنان نے باقاعدہ مہم کے طور پر فیضؔ اور دیگر ملزمان کی کر دار کشی اور بہتان تراشی شروع کر دی۔ اس کا مقصد عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹانا تھا تا کہ حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی مخالفت کو دبایا جا سکے۔ فیضؔ کی ذاتی مقبولیت اور بطور صحافی ان کا مقام سرکار کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اس لیے ان کو سب سے علیحدہ کر کے ایک عجیب و غریب اِلزام تراش دیا گیا کہ وہ روسی ایجنٹ ہیں اور ان کی بیوی برطانوی جاسوس، وہ کسی مذہب کو نہیں مانتے وغیرہ وغیرہ۔ ایلس کے غصے کی وجہ سے کسی میں ہمت نہ تھی کہ ان سے اس بارے میں بات کرتا البتہ ان کی بیٹیاں آسان شکار تھیں۔ اس بارے میں سلیمہ یاد کرتی ہیں:
”ایک دن میری ایک کلاس فیلو نازلی نے مُجھے اپنے گھر برتھ ڈے پارٹی پر بُلایا۔ میں نے ممی کو بتایا۔ ممی نے کہا ہاں ہاں ضرُور جاؤ۔ اِتنے دِنوں بعد یہ پہلی دوستانہ دعوت تھی۔ ممی نے مُجھے بہت اچھے کپڑے پہنائے اور میں نازلی کے گھر برتھ ڈے پارٹی پر چلی گئی۔ وہاں پہنچی تو مُجھے ایک ڈرائینگ رُوم میں لے جایا گیا۔ وہاں دعوت کا کوئی سامان نہ تھا۔ چھ مرد میز کے اِرد گِرد بیٹھے ہوُئے تھے اور مُجھے اُن کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔ انُہوں نے باری باری سوال پوچھنا شروع کر دئے۔ میں نے تہیّہ کر لیا کی اُن کی کِسی بات کا جواب نہیں دوں گی۔ انُہوں نے پوچھا تُم فیض ؔ کی بیٹی ہو۔ میں نے سر اونچا کر کے کہا ہاں۔ پھِر انُہون نے پوچھا فیضؔ جیل میں ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ پھِر کہنے لگے تُمہیں اُن کی کوئی خبر آتی ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ دراصل وہ جاننا چاہتے تھے کہ فیض ؔوغیرہ کے باہر سےlinks قائم ہو چُکے ہیں یا نہیں۔ ہمیں ابو وغیرہ کی اس وقت بالکل خبر نہیں تھی مگر میں اُن حرامزادوں کے سامنے ہار ماننے کوہرگز تیار نہیں تھی۔ دو تین گھنٹے کی interrogation کے بعد مُجھے چھوڑ دیا گیا اور میں گھر آ کر ممی کے گلے لگ کر زار و قطار روئی۔ ممی نے مجُھے بہت دِلاسہ دیا، خود بھی روئیں اور اُن سب کو کوستی رہیں“۔
مگر ایسے بھی لوگ تھے جو اکثر و بیشتر ان کے گھر آتے، ان کا حوصلہ بڑھاتے، امید دلاتے تا کہ ان کی ہمت ٹوٹنے نہ پائے۔ سلیمہ نے خاص طور پر یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ بہت عام سے لوگ تھے، جنہیں اپنی نوکریوں کی فکر نہیں تھی، معاشرے میں اپنے مقام کا مسئلہ نہیں تھا اور وہی لوگ سب سے زیادہ مہربان تھے، جیسے دودھ والا، بیکری والا، سبزی والا۔”یہ لوگ اکثر ہم سے پوچھتے ابو سے ملاقات ہوئی؟ وہ کیسے ہیں؟ فکر نہ کریں، اللہ پھر سے آپ لوگوں کو ملا دے گا۔ بہت جلدی ساتھ کر دے گا۔ ان لوگوں کے کہے ہوئے یہ ہمت دلانے والے جمُلے میرے کانوں میں موسیقی کی طرح رس گھول دیتے لیکن ان لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی جو ہمیں ذہنی اذیت پہنچا کر مزا لیتے تھے“۔
دستِ صبا
نومبر 1952ء میں فیضؔ حیدر آباد جیل میں مقید تھے کہ ان کی نظموں کا دوسرا مجموعہ دستِ صبا کے نام سے شائع ہوا جس کا سرورق مشہور مصور عبدالرحمن چغتائی کی کاوش کا نتیجہ تھا۔لاہور میں کتاب کی رو نمائی کے موقع پر تقریب کے مہمان خصوصی بھی وہی تھے۔ پہلی مرتبہ اردو کی کسی کتاب کی ایسی تقریب منعقد کی گئی تھی جس میں اس وقت کے ادب کے نامور نام اور دانشوروں نے شرکت کی تھی مثلاً فیضؔ کے استاد صوفی تبسم، ڈاکٹر سجاد باقر رضوی، احمد ندیم قاسمی (جنہوں نے ایک مختصر مضمون بھی پڑھا) اور بے شمار فیض ؔکے چاہنے والے عام لوگ۔ ایلس نے پاکستان بھر سے اور پاکستان کے باہر سے آنے والے سینکڑوں تہنیتی پیغامات پڑھ کر سنائے۔ تقریب میں شرکاء کی بڑی تعداد نے بائیں بازو کی سرگرمیوں کے گرد پھیلی نا امیدی کو دور کر دیا تھا اور بہت سے لوگوں کو حوصلہ دیا جنہوں نے ڈر سے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ ویسے بھی نیک خواہشات کی بھر مار نے حکومت کی کردار کشی کی مہم کو ناکارہ کر دیا تھا۔
دستِ صبا کی اشاعت نے خود جیل میں بھی ایک خوشی کی لہر دوڑا دی تھی حتیٰ کہ تمام قیدیوں نے جیل انتظامیہ کو درخواست دے کر اس موقع کا جشن منانے اور پارٹی کرنے کی خصوصی اجازت لی۔ اس موقع پر حسبِ معمول فیضؔ کے بہترین دوست مربی سید سجاد ظہیر سے کتاب کے بارے میں حتمی رائے دینے کے بارے میں کہا گیا:
”بہت عرصہ گُزر جانے کے بعد، جب لوگ راولپِنڈی سازش کے مقدمے کو بھول جائیں گے اور پاکستان کا مورّخ ۲۵۹۱ کے اہم واقعات پر نظر ڈالے گا تو غالباً اس سال کا سب سے اہم تاریخی واقعہ نظموں کی اِس چھوٹی سی کِتاب کو ہی قرار دیا جائے گا“۔
یہ ’کلثوم‘ کون ہے؟
فیضؔ نے اپنی نظموں کا دوسرا مجموعہ ’کلثوم‘ کے نام معنون کیا ہے۔ یہ وہ نام ہے جو فیضؔ اور ایلس کی شادی کے وقت بے بے جی نے ایلس کو دیا تھا۔ جب یہ کتاب پہلی مرتبہ شائع ہوئی تو اس حقیقت کے بارے میں نہ فیضؔ کے دوستوں کو پتہ تھا نہ ساتھیوں کو، حتیٰ کہ ساتھی قیدی بھی ناواقف تھے۔ وہ سب اس نام پر چونک گئے۔ فیض ؔسے کیسے پوچھتے کہ یہ کلثوم کون ہے؟ فیضؔ ان سب کو دیکھتے اور ان کی بے چینی سے محظوظ ہوتے رہے مگر چند گھنٹوں میں ہی سب پر یہ راز کھل گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایلس اس انتساب سے خاص خوش نہیں تھیں اور فیضؔ کو انہیں قائل کرنا پڑا: ”رہی انتساب کی بات تو اگر تُم اپنے آپ کو ایلس کہنا چاہتی ہو تو تمہیں اِختیار ہے اِس لئے کہ کِتاب بھی تُمہاری ہے۔ میں نے کلثوم اِس لئے لِکھا تھا کہ اوّل تو یہ مشرقی نام ہے۔ دوسرے یہ کہ لوگ اِس کے بارے میں ضرور تُم سے سوال کریں گے جو شاید تُمہارے لئے تفریح طبع کا سامان ہو۔ بہر حال جو تُمہارا جی چاہے، کرو۔ صِرف ’میری بیوی کے نام‘ پر مُجھے اعتراض ہوگا، یہ انگریزی میں تو ٹھیک ہے لیکن اُردو میں کُچھ چھچھورا معلوم ہوتا ہے“۔

اس حوالے سے سرکار کو ایک دھچکا یہ لگا کہ دستِ صبا کا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا اور دوسرا ایڈیشن فوراً شائع کرنا پڑا۔ جب فیضؔ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے لکھا:”تم نے لکھا ہے کہ آپ لوگ دوسرے ایڈیشن کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر کِتاب بہت بِک رہی ہے تو ہمیں بھی لِکھو، تاکہ دِل خوش ہو“۔ تین مہینے سے کم عرصے میں ہی تیسرے ایڈیشن کی نوبت آ گئی تو فیض نے لکھا:”بہت خوشی ہے کہ تمہارا دوسرا ایڈیشن بہت مقبول ہوا لیکن میں حیران ہوں کہ تُم لوگ یہ کِتابیں کِس کے ہاتھ بیچ رہے ہو۔ اب سے دس برس پہلے تو دوسری بات تھی۔ جب ہمیں معلوم تھاکہ کالج کی لڑکیوں میں ہمارے مُستقِل خریدار موجود ہیں لیکن اُن کی جگہ اب کون نئے گاہک پیدا ہو گئے اور وہ ہماری خرافات کو کیا معنی پہناتے ہیں یہ سب ہمیں نہیں معلوم۔ میں جانتا ہوں کی عام آدمی کی گرہ میں اِتنا مال نہیں کہ کِتابوں پرضائع کرتے پھِریں۔ اگر اِس کے باوجود ہماری کِتابیں خریدتے ہیں تو خوشی کی بات ہے“۔
کلثوم‘ کی پر اسراریت کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں:
””کلثوم“ کے بارے میں جو حال تُم نے لِکھا ہے بہت پُر لُطف ہے۔کُچھ اخفا، کُچھ شک اور گُمان تشہیر کے لئے اچھی چیز ہے اور یہ بھی اچھا ہے کہ ہماری آشنائی کِسی کلثوم سے نہیں ہے۔ دُور دُور سے بھی نہیں ورنہ کوئی خاتون دِل ہی دِل میں ضرور اِس کِتاب کو اپنا لیتیں اور سمجھتیں کہ ہم پہلی دفعہ کوئی پوشیدہ رازِ عِشق ظاہر کر رہے ہیں اور کُچھ تعجب نہیں کہ اِس اِنکشاف سے بیچاری کے دِل کی کوئی شریان پھٹ جاتی“۔
اپنے پہلے کے تحریر کردہ خطوط میں سے ایک میں، فیضؔ اپنی دانشمندی کا راز کھولتے ہوئے اپنی نظم ”زنداں کی ایک شام“ کے بارے میں کہتے ہیں: ”اس نظم سے میں خاص طور سے خوش ہوں۔۔۔I don’t mind telling you
آج کل کوئی اور ایسا نہیں لِکھ سکتا۔ نہ بہت عرصے تک لِکھ سکے گا۔ اِس کی وجہ یہ نہیں کہ مُجھے اپنی استعداد پر کوئی گھمنڈ ہے۔ اپنی صلاحیتِ ہُنر تو بہت محدود ہے اور بہت سے لوگ مُجھ سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں، بات صرف محنت اور عرق ریزی کی ہے، خاص طور سے بیانیہ تحریر میں“۔
ایلس نے جو خطوط فیضؔ کو لکھے وہ بھی بعد میں Dear Heart: to Faiz in Prison کے نام سے شائع ہوئے۔ (اس کتاب کا ترجمہ”عزیزِ دلم: زنداں میں فیض کے نام“ سے شائع ہوا ہے۔ مترجم ہیں نیر رباب)
آزادآمد
5 جنوری 1953ء کو مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ اس وقت تک یہ مقدمہ ایک بین الاقوامی تحریک بن چکا تھا۔ شاعر فیض احمد فیضؔ کا نام ہر ایک کی زبان پر تھا کہ انہیں اپنے جمہوریت پسندانہ خیالات اور انسان دوستی کے عقیدے کی بناء پر قید میں رکھا گیا ہے۔ فیضؔ کے پرانے دوست اور برطانوی تاریخ داں وکٹر کیر نن نے سب سے پہلے فیضؔ کی ایک نظم 1943 میں انگریزی میں ترجمہ کی تھی اور وہ ان کی اب تک لَکھی گئی تمام نظموں کا انگریزی ترجمہ شائع کر چکے تھے۔ اس کی وجہ سے انگریزی دنیا میں بھی ان کی مقبولیت بڑھ گئی تھی۔ جب تمام ملزمان کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے مختلف میعاد کی قید کی سزائیں سنائی گئیں تو اس بات پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔ فیض ؔکو مزید ڈھائی سال جیل میں رہنا پڑا مگر ان کی سزا مکمل ہونے سے پہلے پاکستان کا سیاسی نقشہ ایک بار پھر تبدیل ہو گیا۔ 24 اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل آف پاکستان، غلام محمد نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اسمبلی تحلیل کر دی۔ اسی اسمبلی نے خصوصی راولپنڈی سازش ایکٹ منظور کیا تھا تا کہ خصوصی عدالت کے تحت ملزمان پر مقدمہ چلایا جا سکے۔
فیضؔ اور دیگر ملزمان کے وکلاء نے اس نئی سیاسی صورتحال کے پیش نظر مقدمے کو از سرِ نو شروع کرنے کے لیے زور ڈالنا شروع کر دیا۔ 12 اپریل 1955ء کو پاکستان کی وفاقی عدالت نے خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دے دیا۔ فیضؔ اور سازش میں ان کے تمام ساتھی 20 اپریل 1955ء کو باعزت بری کر دیئے گئے۔ اور چند ماہ بعد نئی قانون ساز اسمبلی نے اس کیس کو منسوخ کر کے باقی ماندہ سزا کوختم کر دیا۔

سلیمہ کو فیضؔ کا واپس آنا من و عن یاد ہے
”ایک دِن میں سکوُل سے آ رہی تھی، نہ جانے کیوں اُس روز ابّو بے حساب یاد آ رہے تھے۔ گھر کے قریب پہنچی تو دیکھا عبداللہ ملک، حمید اختر اور کچھ اور لوگ جمع تھے۔ میں سمجھ گئی کہ ضرور ابُّو واپس آ گئے ہیں۔ گھر میں داخل ہوئی تو وہ موجود تھے، گلے مِلے، میں تو خوشی کے مارے پاگل ہو رہی تھی ا ور وہ کہہ رہے تھے لو بھئی اب ہم لوٹ آئے ہیں نا۔ بس اب چُپ کرو۔ اب ہم آ گئے ہیں۔ اب نہیں جائیں گے“۔منیزہ اس وقت صرف 9 سال کی تھیں مگر ان کو یاد تھا ”ایسا لگتا تھا کہ ہم سب خوشی سے پاگل ہو گئے ہیں۔ ہمارے جذبات ہمارے قابو میں نہیں تھے۔ ابو بھی بہت خوش اور ُپرجوش تھے۔ میں نے ان سے کہا: آپ وعدہ کریں کہ دوبارہ جیل نہیں جائیں گے۔ انہوں نے جواب دیا۔ بھئی ہم اپنی مرضی سے تو نہیں گئے تھے، وہ لوگ ہمیں لے گئے تو ہم چلے گئے۔مگر جب میں بار بار ا صرار کرتی رہی تو کہنے لگے۔ اچھا ٹھیک ہے، دوبارہ نہیں جائیں گے، اور میں مُطمئن ہو گئی“۔
زنداں کی شاعری
فیضؔ کی 4 سال کی قید میں اُن کی شاعری کے دو مجموعے شائع ہوئے اور آج تک یہ نظمیں ان کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی اور سب سے زیادہ پڑھی (اور گائی) جانے والی نظمیں ہیں۔ پہلا مجموعہ ’دستِ صبا‘ شائع ہوا اور اسے بے حد سراہا گیا۔ دوسرا مجموعہ ’زنداں نامہ‘ کسی کے نام معنون نہیں کیا گیا تھا اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ فیضؔ اسے دستِ صبا کا تسلسل تصور کرتے تھے۔ دونوں مجموعوں میں مختلف نظمیں اور غزلیں شامل ہیں اور قید کے دوران جو موضوعات فیض ؔنے اپنی نظموں میں ذکر کیے اور ان کو مزید ِجلا بخشی وہی بعد میں تمام زندگی ان کے پیشِ نظر رہے۔
اس دور میں اُن کی شاعری میں دو احساسات رچے بسے نظر آتے ہیں: قید کا دکھ اور اپنے ملک اور اپنے لوگوں سے شدید محبت۔ فیضؔ بذات خوُد اِن احساسات کو روشن مستقبل کے لیے جدو جہد اور اپنے ملک اور اپنے مقدر کے درمیان ایک ازلی و ابدی تعلق کا عہد نامہ قرار دیتے ہیں۔
فیضؔ جو بھی نئی نظم لکھتے وہ فوراً ایلس کو بھیج دیتے جو اسے کسی اخبار یا ادبی مجلے میں شائع کروا دیتیں اور اس طرح وہ نظم ملک بھر میں پھیل جاتی۔ حراست کے پہلے تین مہینوں کی قید تنہائی میں فیضؔ نے اپنی چند بہترین نظمیں اور غزلیں تحریر کیں اور وہ قطعہ بھی جو زنداں کی شاعری کا ترانہ بن گیا۔
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے زَباں پہ مُہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہء زنجیر میں زَباں میں نے
فیض کو جیل میں وقت بھی ملا اور آزادی بھی اور انہوں نے اس کا بھرپوُرا فائدہ اٹھایا اور اپنی شاعرانہ تخلیقی صلاحیت کو ”عرق ریزی“ کی آتش میں تپا کر اوجِ کمال تک پہنچا دیا۔ بعد میں انہوں نے اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا:”جیل خانہ عاشقی کی طرح خود ایک بنُیادی تجربہ ہے جِس میں فِکر و نظر کا ایک آدھ نیا دریچہ خود بخود کھُل جاتا ہے۔ چنانچہ اوّل تو یہ کہ اِبتدائے شباب کی طرح تمام حسِیات یعنی sensations پھِر تیز ہو جاتی ہیں اور صبح کی پوَ، شام کے دھُندلکے، آسمان کی نیلاہٹ، ہوا کے گُداز کے بارے میں وہی پہلا سا تحیّر لوٹ آتا ہے۔ دوسرے یوں ہوتا ہے کہ باہر کی دُنیا کا وقت اور فاصلے دونوں باطلِ ہو جاتے ہیں، نزدیک چیزیں بھی بہت دوُر ہو جاتی ہیں اور دوُر کی نزدیک“۔
جب تک جیل والے انہیں رکھ سکے وہ نئے انداز، نئے تصورات اور اپنی منفرد فکر کے تجربات کرتے رہے۔ اپنی کسر ِنفسی کی عادت کے مطابق انہوں نے اپنی چند نظموں کے بارے میں کہا کہ وہ ”بری نہیں ہیں۔“ انہوں نے اپنی دو نظموں ”ایرانی طلباء کے نام“ اور”آ جاؤ افریقہ“کے بارے میں ایلس کو لکھا تھا:
”اس ہفتے میں نے ایران اورمصِر کے شہید طلباء پر ایک نظم شروع کی ہے۔ جیل میں آنے کے بعد پہلی دفعہ اپنی کِسی تخلیق سے کچُھ اِطمینان ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِظہار کی جِس ہئیت اور پیرائے کی تلاش تھی اس نظم میں پہلی بار ہاتھ آئے ہیں۔یہ بالکل خِلافِ روایت انداز ہے جِس سے پُرانے اساتذہء فن ضرور خفا ہوں گے مگر اِس کی پرواہ کون کرتا ہے“۔
فیضؔ نے شاعری میں ہمیشہ نظم یا غزل لکھنے کو ترجیح دی۔(قید کے دوران انہوں نے برابر تعداد میں دونوں چیزیں لکھیں:32 غزلیں اور 31 نظمیں)اور ان کا ہنر یہ تھا کہ وہ دونوں کو اپنے منفرد انداز میں بخوبی ڈھال لیتے تھے۔ یہ کام انہوں نے اپنی ”شاعرانہ تجربہ گاہ“ میں کیا یعنی جیل۔ غزل کے حوالے سے بلا تردید کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے کیوں کہ شاعری کی یہ صنف روایتی طور پر شاعرانہ، تہذیبی اور ادبی گفتگو بیان کرتی ہے۔ خود فیض ؔنے غزل کے میدان میں نئے موضوعات،خاص کر احتجاج کی سیاست کو لکھنے میں دشواریوں کا ذکر کیا ہے۔
”غزل میں ایک حد سے آگے جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ غزل کی inbuilt limitations اِس قسم کی ہیں کہ اس میں آپ ایک حد تک ہی جا سکتے ہیں، اُس سے آپ باہر نکل نہیں سکتے۔ہوتا یہ ہے کہ جیسے جیسے غزل کی زبان پہ آپ کی قدُرت بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے اس میں ندُ رت کم ہوتی جاتی ہے اس وجہ سے کہ کام اتنا آسان ہو جاتا ہے کہ اس میں پھر کچھ نئی چیز داخل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ و جہ وہی inbuilt limitation ہے، اس لئے کہ غزل میں idiom کی لمیٹیشن بھی ہے، form اور ہیت کی تو ہے ہی۔ آپ اس قسم کے الفاظ استعمال نہیں کر سکتے جیسے سڑک یابجلی کا کھمبہ یا گھاس۔ آپ سبزہ ہی کہیں گے۔ہم نے جیل خانے کے زمانے میں یہ دریافت کیا تھا کہ اس میں کیا کیا گنجائش دوسرے موضوعات کی نکل سکتی ہے۔اس کے موُجد تو غالبؔ ہیں یعنی غزل کو آگے بڑھانے کے۔ اس کے بعد غزل کے دوسرے مجدّد علامہ اقبال ہیں جنہوں نے ثابت کیا کہ کوئی مضمون ایسا نہیں ہے جو غزل میں نہ آسکے بشرطہ کہ زبان غزل ہی کی آئے۔ یہ نہیں کہ آپ اس میں زبان ہی کوئی اور لے آئیں مضامین تو آپ اس میں سمو سکتے ہیں لیکن آپ اس کی زبان نہیں بدل سکتے“۔
فیضؔ کی زنداں میں لکھی ہوئی شاعری لوگوں کو بنیادی چیزوں کے بارے میں سوچنے پر اُکساتی ہے۔ نیکی اور اچھائی کیا ہے؟ شیطنت اور برُائی کیا ہے؟ کیا شیطان جیل کی دیواروں کے پیچھے قید ہے یا ہمارے معاشرے میں آزادانہ گھوم رہا ہے؟ یہ شاعری لوگوں کو اپنی ذات سے، اپنے گھروں سے باہر نکل کر سوچنے پر مائل کرتی ہے۔ جو دنیا کے بڑے کینوس پر دکھوں اور نا انصافیوں کے بارے میں محسوس کریں، جہاں لوگ اس قاری کی طرح ہی زندہ ہوں، محبت کرتے ہوں اور امیدیں باندھتے ہوں۔
خود فیضؔ کے لیے جیل میں گذرنے والے وقت نے ان کو زندگی کی ایک سفاک حقیقت کے رو برو کر دیا تھا کہ اُصول پرستی (Idealism) کسی قدر مطلب پرست ہے۔ ایلس کے نام ایک خط میں انہوں نے لکھا تھا:”مُجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اپنے چاہنے والوں کو کسی ایسی چیز کی خاطِر دُکھ اور اذّیت پہنچاناجو خود کو بہت عزیز ہے لیکن اُن کے لئے کُچھ معنی نہ رکھتی ہوغلط اور ناجائز بات ہے۔ اِس نظر سے دیکھو تو آیئڈیلزم یا اصُول پرستی بھی خوُد غرضی کی ایک صورت بن جاتی ہے۔ اِس لئے کہ اپنے کِسی اصُول کی دھُن میں آپ بھُول جاتے ہیں کہ دوسروں کو کیا چیز عزیز ہے اور اِس طرح اپنی خوشنودی کی خاطر دوسروں کا دِل دُکھاتے ہیں“۔
زِندگی میں آگے چل کر بہت سے ایسے واقعات پیش آئے جِن پر فیضؔ کو اِسی خیا ل نے ضرُور ستایا ہوگا۔

Ali Madeeh Hashmi
+ posts

علی مدیح ہاشمی ماہر نفسیات اور فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے معتمد ہیں۔