تبصرہ: محمد اکبر نوتیزئی
اردو ترجمہ: قیصر عباس
پاکستان کا سب سے بڑا اور معدنی ذخائر سے مالا مال صوبہ بلوچستان نو آبادیاتی دور سے ہی استحصال کا شکار رہاہے اوریہی سلوک اس کی نامور شخصیات سے بھی کیا گیا۔ ہم سب سرحدی گاندھی عبدالغفار خان اور مہندس کرم چند گاندھی کے ساتھ ان کی نظریاتی ہم آہنگی سے واقف ہیں۔ لیکن بلوچستان کے گاندھی عبد الصمد خان اچکزئی کو جس طرح نظر اندازکیا جاتا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
امید ہے کہ اچکزئی کی سوانح ”میری زندگی اور میرا عہد“ کے بعد صورت حال میں کچھ بہتری آئے گی۔ ان کے صاحب زادے محمد خان اچکزئی نے، جو بلوچستان کے گورنر بھی رہ چکے ہیں، اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا ہے۔ چار حصوں پر پھیلی اس تصنیف میں اس قوم پرست رہنما کی ابتدائی زندگی سے لے کر تعلیم، خاندان، سیاست میں دلچسپی، اسیری کے دن، ان کے اخبارات، سیاسی رفیقو ں کا احوال، دوسری شادی اور آزادی سے جڑے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ تصنیف میں قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کو لکھے گئے خطوط اور اچکزئی کی پہلی گرفتاری کا احوال بھی موجود ہے۔
عبد الصمد خان اچکزئی قلعہ عبداللہ کے ایک گاؤں عنایت اللہ کاریز میں پیداہوئے جوان کے پر دادا کے نام سے منسوب ہے۔ برطانوی راج میں پختون اور بلوچوں کے حقوق کایہ علم بردار ایک معروف صحافی، مصنف اورسیاستدان کی حیثیت سے بھی جانا جاتاہے۔ اگرچہ ان کی پرورش ایک قدامت پسند ماحول میں ہوئی، انہوں نے پختون معاشرے میں ہمیشہ خواتین کے مساوی حقوق کے لئے آواز اٹھائی۔ اپنی کتاب کو اہلیہ کے نام منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اس خاتون کے نام جس نے پختوں ولی کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے خلوص دل سے میری زندگی کوشیریں ا ور میری راہوں کو آسان بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔“
ان کا جنم اس معاشرے میں ہوا تھا جہاں شکار اور ہتھیاروں کا استعمال مرد وں کے لئے باعث فخر سمجھا جاتا تھا لیکن گاندھی کے پیغام پر صرف بیس سال کی عمر میں عمل کرتے ہوئے انہوں نے ہتھیاروں کا استعمال ترک کردیا اور جدوجہد آزادی کا حصہ بن گئے جس کی بنیاد انسانی بھائی چارے اور امن پر رکھی گئی تھی۔
وہ گاندھی جی کا بہت احترام کرتے تھے حالانکہ وہ کبھی انڈین نیشنل کانگریس کا حصہ نہیں بنے۔ کتاب کے ایک باب ”گاندھی جی سے پہلی ملاقات“ میں لکھتے ہیں کہ وہ گاندھی جی سے جولائی 1931ء میں پہلی بار ملنے سندھ کے راستے بمبئی گئے تھے۔ انہوں نے اخبارات میں پڑھا کہ ”گاندھی جی اس وقت بردولی میں تھے اور براستہ احمدآباد بمبئی جانے کی تیاریاں کررہے تھے۔“
وہ مزید لکھتے ہیں: ”کیو ں کہ میراواسطہ ابھی تک طویل قامت، بھاری بھرکم مسلم قبائلی رہنماؤں سے رہا تھا، میرا خیال تھا کہ گاندھی جی بھی دراز قد اور متاثر کن شخصیت کے مالک ہو ں گے۔ میری امیدوں کے برعکس وہ جسمانی طور پر عام لوگوں کی طرح تھے مگر نجی زندگی میں سادگی کا پیکر تھے، جس کا مجھے علم تھا۔“
”ہماری ملاقا ت گجرات ویدیا پتھ کالج میں بڑے دوستانہ ماحول میں ہوئی اور میں نے انہیں بتایا کہ میری آمد کا مقصد یہ ہے کہ میں لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس کے مندوبین کوبلوچستان کے گمبھیر مسائل سے آگاہ کروں جو ہندوستان ہی کا ایک حصہ ہے۔“
وہ گاندھی کے اتنے پرستار تھے کہ ان کی تقلید میں خود بھی کھدر کا لباس اور گاندھی ٹوپی پہننے لگے۔ 1918ء میں گاندھی نے ہاتھ سے بنے کپڑے اور مقامی طورپر سلے کھدر کے لباس کو فروغ دیا تاکہ درآمد شدہ کپڑوں کو ترک کیا جائے۔ اس تحریک کے نتیجے میں نہ صرف اس صنعت سے منسلک لاکھوں لوگوں کو غربت سے نجات ملی بلکہ برطانوی سامراج کے خلاف عوام متحد بھی ہو گئے۔ برطانوی حکومت نے اسے اپنے لئے ایک بڑا چیلنج سمجھتے ہوئے بلوچستان میں، جہاں ذرائع ابلاغ کی کمی تھی، اس بغاوت کو کچلنے کے لئے اپنی پوری طاقت استعمال کی۔
اس ماحول میں گاندھی نے انہیں حکومت کے ارادوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا: ”حکومت کسی طرح اس لباس کی مقبولیت برداشت نہیں کرے گی“ لیکن اچکزئی نے نتائج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سامراج کا مقابلہ کیا اور اس کی پاداش میں کئی بار گرفتار بھی ہوئے۔
کہا جا سکتا ہے کہ اپنی زندگی کے حالات قلم بند کرتے ہوئے اچکزئی نے کتاب میں نہایت دیانت داری سے کام لیا۔ ان کے مطابق اکیس سال کی عمر میں جب ان کی شادی ہوئی تو انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا شب عروسی کی روایات کیاہوتی ہیں۔ اسی طرح بمبئی میں ایک معروف سماجی خاتون نے ’ایک ضروری کام‘ کے لئے جب رات گئے کچھ دیر اوررکنے کی درخواست کی تو انہوں نے جان چھڑانے ہی میں عافیت سمجھی۔
اس قسم کی صورت حال سے نبٹنے کے لئے انہوں نے کافی سوچ بچار کے بعد داڑھی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ گھر واپس پہنچے تو ان کی والدہ اس تبدیلی پر بہت خوش ہوئیں، ان کے مطابق ”داڑھی مرد کی زینت ہے جو اسے عورت سے ایک الگ پہچان دیتی ہے۔“
گاندھی کے علاوہ اچکزئی گانگریسی لیڈر ڈاکٹر سیف الدین کچلو سے بھی متاثر تھے۔ انہوں نے 1929ء میں لاہور میں کانگریس کے اجلاس میں شرکت کی جہاں ہندوستان کی آزادی کی قرارداد منظور کی گئی۔ وہ اس اجلاس میں کچلو کی تقریر سے اتنے متاثر ہوئے کہ اگلے سال بیٹے کی پیدائش پر انہوں نے اس کا نام بھی سیف الدین رکھ دیا۔
1930ء میں ان کا زیادہ تر وقت کراچی میں بلوچ اور پختونوں کے مسائل پر مباحثوں میں گزرا۔ اسی دوران ان کی ملاقات معروف صحافی اے، کے جنگیانی سے ہوئی جو بٹوارے کے بعد ہندوستان چلے گئے اور ہندوستان ٹائمز کے مدیر ہوگئے۔ یہ جنگیانی ہی تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ انہیں ”بلوچستان کا گاندھی“ لکھا۔ اچکزئی کا کہنا تھا ”میرے دوست اور ہندو مجھے احتراماً اسی نام سے پکارنے لگے لیکن میرے دشمنوں کے لئے یہ ایک طنزیہ لقب بھی تھا۔“
اچکزئی ایک لمبے عرصے تک جیل میں رہے۔ پہلی بار انہیں 1928ء میں گرفتار کیا گیا جب حکومت کو خطرہ محسوس ہوا کہ وہ افغانستان میں غازی امان اللہ خان کی بغاوت کی تحریک میں شامل نہ ہوجائیں۔ امان اللہ نے قیدیوں سے برے سلوک کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔
اچکزئی نے آٹھویں جماعت کے بعد اسکول چھوڑ دیاتھااگرچہ ان کے پاس تعلیم جاری رکھنے کے مالی ذرائع موجود تھے۔ اس زمانے میں بیشتر تعلیم یافتہ افراد برطانوی ملازمت کرتے تھے مگر ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس کے بجائے انہوں نے جیل میں صحافت اور سیاست کے رموز سے آگاہی حاصل کی اور خود کو آنے والے وقت کے لئے تیار کیا۔ 1935ء میں بلوچستان میں پریس اینڈ پبلی کیشن ایکٹ کے نفاذ کے بعد انہوں نے اپنا پرنٹنگ پریس قائم کیا اور اخبار ”استقلال“ کی اشاعت شروع کی۔
اسی سال بلوچستان میں ایک ہولناک زلزلے نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی جس میں ان کے ایک قریبی دوست اورمعروف ترقی پسند دانشور اور شاعر نواب یوسف عزیز مگسی سمیت ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس وقت اچکزئی زلز لے سے پچاس میل دور مچھ جیل میں تھے۔ دوست کی یاد میں انہوں نے اپنے ادارے کا نام عزیزپریس رکھاجومگسی کا تخلص تھا۔
انہوں نے 1932ء میں جیکب آباد سندھ میں آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی صدارت کی۔ بعد میں وہ سیاسی پارٹی انجمن وطن کے صدر بنے جس نے دوسری عالمی جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ ان کی پارٹی نے گاندھی کی مزاحمتی تحریک کے لئے پچاس رضاکار بھی روانہ کئے اگرچہ کانگریس سے ان کا کوئی انتظامی ربط نہیں تھا۔
زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے اپنے ترقی پسند ساتھیوں کے ساتھ گزارا جن میں میر عبدالعزیز کرد، سردار امین کھوسہ، میر حسین عنقا اور میر حسن نظامی شامل تھے۔ بٹوارے کے بعد بننے والی نیشنل عوامی پارٹی سے انہوں نے 1957ء میں علیحدگی اختیار کر لی۔ اس دوران ان کے تعلقات پختون برادری سے بھی اتنے اچھے نہیں رہے کیوں کہ وہ بلوچستان کے پختون علاقوں کواس وقت کے صوبہ سرحد میں شامل کرنا چاہتے تھے۔
ان کی پوری زندگی اپنے لوگوں کے حقوق کی پرامن جمہوری جدوجہد کے لئے وقف تھی۔ 1930ء میں اسلحہ نہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور پوری زندگی اسے ہاتھ نہیں لگایا۔ یہا ں تک کہ خطرناک علاقوں میں بھی وہ مسلح گارڈ رکھنے کے حق میں نہیں تھے۔ 6 دسمبر 1973ء کی رات ان کی رہائش گاہ پر دو ہینڈ گرینڈ پھینکے گئے اور امن و انسانی بھائی چارے کا یہ علم برداراس دنیا کو خیرباد کہہ گیا۔ ان کی عمر اس وقت 66 سال تھی۔
عبدالصمد خان اچکزئی اور ان جیسے دوسرے لوگوں کی زندگی اس نادر پھول کی مانندہے جو صرف رات کی تاریکی میں کھلتا ہے۔ اچکزئی نے ہمیشہ اس تاریکی کے خلاف آواز اٹھا ئی جو برطانوی سامراج اور پاکستان میں غیرجمہوری قوتوں نے ان پر نازل کی تھی۔ ان کے صاحب زادے نے اس تصنیف کا انگریزی ترجمہ کر کے اس کی پھیلتی ہوئی خوشبو کا دائر ہ بہت وسیع کر دیا ہے۔
بشکریہ ڈان