لاہور (جدوجہد رپورٹ) اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق پروگرام (یونیسیف) نے کہا ہے کہ پاکستان میں قومی ایمرجنسی نافذ کئے جانے کے 4 ماہ بعد بھی 40 لاکھ بچے سیلاب کے ٹھہرے ہوئے آلودہ پانی کے قریب مقیم ہیں، اس طرح ان بچوں کی صحت اور زندگی شدید خطرے میں ہے۔
سیلاب متاثرہ علاقوں میں مقیم بچوں میں شدید انفیکشن پھیل رہا ہے، جو دنیا بھر میں بچوں کی امواد کی بڑی وجہ ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں جولائی اور دسمبر 2021ء کے درمیان شدید غذائی قلت کا شکار بچوں کی تعداد بھی دوگنا ہو گئی ہے، ابھی تک 15 لاکھ بچوں کو زندگی بچانے والی غذائیت کی شدید ضرورت ہے۔
یونیسیف کی طرف سے سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین اور بچوں کی زندگی بچانے کیلئے 17 کروڑ 35 لاکھ ڈالر کی امداد دینے کی درخواست پر ابھی تک صرف 35 فیصد رقم جمع ہو سکی ہے۔
’ڈان‘ کے مطابق یونیسیف کے نمائندے عبداللہ فادل کا کہنا تھا کہ بارشیں ختم ہو چکی ہیں، مگر بچوں میں پیدا ہونے والا بحران ابھی تک ختم نہیں ہوا، مناسب پناہ گاہیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ سخت سردی کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ غذائی قلت اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں سردی کے موسم میں لاکھوں زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
ان کے مطابق سندھ کے بالائی ضلع جیکب آباد میں بہت سے خاندانوں کے پاس سیلابی پانی سے اپنی عارضی پناہ گاہوں کو ڈھانپنے کیلئے کپڑا تک نہیں ہے، جبکہ رات کے وقت درجہ حرارت 7 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ پہاڑی اور بالائی علاقوں میں برفباری کے بعد درجہ حرارت صفر سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے۔