لاہور (جدوجہد رپورٹ) اردو زبان میں فیض احمد فیض کی سوانح عمری عنقریب شائع ہو رہی ہے۔ ’مہر و وفا کے باب: فیض احمد فیض کی سوانح حیات‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس سوانح عمری کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے مصنف فیض احمد فیض کے نواسے ڈاکٹر علی مدیح ہاشمی ہیں۔
17 تا 19 فروری لاہور میں ہونے والے فیض فیسٹیول کے موقع پر اس سوانح عمری پر ایک خصوصی سیشن ہو گا۔ اس سیشن کو نیر رباب ماڈریٹ کریں گی جبکہ مصنف ڈاکٹر ہاشمی اور معروف شاعر و کالم نگار حارث خلیق کتاب پر گفتگو کریں گے۔
ڈاکٹر علی ہاشمی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور ’روزنامہ جدوجہد‘ سمیت مختلف اخبارات میں گاہے بگاہے مضامین بھی شائع کرتے ہیں۔
انہوں نے فیض احمد فیض کی سوانح عمری انگریزی میں ’لو اینڈ ریوولوشن: فیض احمد فیض‘ (Love and Revolution: Faiz Ahmed Faiz) کے عنوان سے تحریر کی تھی۔ ’مہر و وفا کے باب: فیض احمد فیض کی سوانح حیات‘ اسی کا ترجمہ ہے۔ اس سوانح عمری کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں فیض احمد فیض کی زندگی کے ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جو کسی خاندان کے شخص کو ہی معلوم ہو سکتے تھے۔ اس کے علاوہ بعض ایسی دستاویزات کی مدد لی گئی ہے جو پہلے دیگر محققین کو دستیاب نہ تھیں۔
ڈاکٹر علی ہاشمی کی اجازت سے قارئین جدوجہد کے لئے اس کتاب سے ایک مختصر سا اقتباس:
”جب فیض کے لکھے خطوط کو ترجمہ کرکے شائع کرنے کی بات ہوئی تو انہوں نے خط نمبر 45 کا ترجمہ ’Dictate‘ کرنے سے منع کر دیا تھا (اس خط میں انہوں نے اپنے بھائی کی وفات کے بارے میں ایلس کو لکھا تھا)۔ بعد میں اس خط کا ترجمہ انہوں نے تنہائی میں بیٹھ کر خود لکھا تھا۔ جب فیض کے ایک اور دوست فیض کا کلام ان ہی کی آواز میں ریکارڈ کر رہے تھے تو انہوں نے اپنے بھائی طفیل کی یاد میں لکھا ہوا نوحہ ”مجھ کو شکوہ ہے میرے بھائی“ ریکارڈ کروانے سے منع کر دیا تھا۔ یہ واقعہ طفیل کے انتقال کے 20 سال بعد کا ہے مگر فیض کے دل میں طفیل کا زخم ویسے ہی تازہ اور ہرا تھا۔
فیض کی دونوں بیٹیاں اورپھر بعد میں ان کے بچے فیض کی جان تھے۔ منیزہ اور سلیمہ کے نام گاہے بگاہے، دنیا بھر سے لکھے ہوئے ان کے خطوط میں باپ کی انتہائی محبت و شفقت کے ساتھ دوستانہ اور بعض اوقات مذاقیہ مشورے اور نصیحتیں بھی ہوتیں۔ انہوں نے اپنے تمام نواسوں اور نواسی کے نام خود رکھے، نام رکھنے میں پوری احتیاط اور غور و فکر سے کام لیا کہ یہ نام بچے کیلئے بے حد مناسب ہے، پھر اس کے ساتھ پوسٹ کارڈ یا ایک مختصر خط بھی لکھتے، چاہے دنیا کے کسی کونے میں ہوتے۔ جب لاہور میں ہوتے تو کوشش کرتے کہ گھر والوں کو لنچ یا ڈنر پر لے جائیں۔ ہم سب بچوں کو اس کا شدت سے انتظار رہتا، کیونکہ فیض کا سب کو باہر لے جانا بہت ہی خاص ہوا کرتا تھا۔ جب بھی ’نانا‘ لاہور میں ہوتے تو ہمیں چھوٹے موٹے تحفے (چاکلیٹ وغیرہ) ملتے رہتے اور اس کے علاوہ ایک یا دو بار وہ ہمیں، ہمارے پسندیدہ چائنیز ریسٹورنٹ میں کھانا کھلانے بھی لے جاتے“۔