لاہور (جدوجہد رپوٹ) عالمی عدم مساوات کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں عدم مساوات انتہائی بلند سطح پر پہنچ گئی ہے۔ کل عالمی دولت میں دنیا کی 50 فیصد آبادی کا حصہ محض 2 فیصد ہے، جبکہ امیر ترین 10 فیصد کا حصہ 76 فیصد ہے۔
’ڈان‘ کے مطابق یہ رپورٹ 4 اقسام کی عدم مساوات پر بحث کرتی ہے، جن میں آمدن کی عدم مساوات، دولت کی عدم مساوات، صنفی عدم مساوات اور کاربن کی عدم مساوات شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر آمدن بھی یکساں طور پر تقسیم نہیں کی گئی۔ غریب ترین عالمی آبادی کا نچلا 50 فیصد حصہ کل عالمی آمدن کا صرف 8.5 فیصد کماتا ہے، جبکہ امیر ترین 10 فیصدعالمی آمدن کا 52 فیصد کماتے ہیں۔ یوں عالمی دولت عالمی آمدن سے زیادہ غیر مساوی طور پر تقسیم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا کی نصف آبادی تقریباً مکمل طور پر سرمائے سے محروم ہے۔ ترقی کے ثمرات کی منصفانہ تقسیم اس اعلیٰ سطح کی عدم مساوات میں ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ ہم حکومتوں کی طرف سے شائع کئے جانے والے ترقی کے اعداد و شمار دیکھتے ہیں، لیکن ترقی کو کس طرح یکساں طور پر تقسیم کیا جاتا ہے، یہ سب سے اہم ہے۔ جی ڈی پی انسانی فلاح و بہبود کے تغیرات کو نہیں پکڑتی اور عدم مساوات کو نظر انداز کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق صنفی عدم مساوات بھی بہت زیادہ ہے۔ خواتین عالمی مزدوروں کی آمدن کا صرف 35 فیصد ہیں، جبکہ باقی 65 فیصد مرد ہیں۔ صنفی عدم مساوات بھی دنیا میں ایک اہم مسئلہ ہے۔
کاربن کی عدم مساوات بھی دنیا بھر میں بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ امیر ترین 10 فیصد کاربن کے اخراج میں 48 فیصد حصہ ڈالتے ہیں۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عدم مساوات کی یہ انتہائی سطح نہ صرف بلند ہے، بلکہ مستقل بھی ہے۔
رپورٹ میں 1820ء سے 2020ء تک کے 200 سال کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ استعمار کی وجہ سے عالمی عدم مساوات 1820ء سے 1920ء تک بڑھی ہے۔ اس دور میں دنیا پر نو آبادیاتی تسلط نے مرکزی کردار ادا کیا۔ 1910ء سے 1980ء تک کے اعداد و شمار سماجی اخراجات اور ترقی پسند ٹیکس لگانے کی وجہ سے عدم مساوات میں کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس دور کو ویلفیئر اسٹیٹس کیلئے سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔
یہ رجحان 1980ء سے 2020ء کے درمیان اس وقت تبدیل ہوا ہے، جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے نافذ کی گئی نیو لبرل پالیسیوں کی وجہ سے عدم مساوات کی سطح دوبارہ بڑھنا شروع ہوئی۔ اس کی وجہ سے 2020ء میں عدم مساوات کی سطح وہی ہے، جو 1910ء میں نو آبادیات کے عروج پر تھی۔ یہ نوآبادیاتی نظام بھی اسی طرح برتاؤ کررہا ہے، جیسا کہ کلاسک استعمار نے کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ڈی ریگولیشن، پرائیویٹائزیشن، لبرلائزیشن اور کم ترقی پسند ٹیکس نے اس انتہائی عدم مساوات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سے دنیا بھر میں معاشی پولرائزیشن میں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ ناقص ٹرکل ڈاؤن اکنامکس کی وجہ سے گزشتہ 4 دہائیوں کے دوران سماجی اخراجات اور دوبارہ تقسیم میں اضافہ نسبتاً سست تھا۔
70ء کی دہائی کے اواخر اور 80ء کی دہائی کے اوائل میں اختیار کی گئی ٹرکل ڈاؤن اکنامکس کی دلیل نے کام نہیں کیا۔ 1980ء کے بعد سے عالمی ٹیکس ریونیو اور عالمی سماجی اخراجات میں کمی آئی ہے۔ دولت کی عدم مساوات سے متعلق شمالی امریکہ دنیا کا سب سے غیر مساوی، جبکہ یورپ سب سے مساوی خطہ قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق عالمی اقتصادی نظام ملکوں کے درمیان اور ملکوں کے اندر انتہائی درجہ بندی پر پہنچ چکا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقتصادی ترقی کو منصفانہ طور پر تقسیم نہیں کیا گیا ہے اور سماجی تحفظ کے جال کافی وسیع اور گہرے نہیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ رجحان بتاتا ہے کہ خالص نجی دولت خالص عوامی دولت سے بہت زیادہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ سماجی اخراجات کیلئے حکومتوں کے پاس کم وسائل اور آمدنی دستیاب ہے۔
اعداد و شمار دنیا بھر میں خالص عوامی دولت کی سطح میں کمی کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں چین کے پاس سب سے زیادہ خالص عوامی دولت ہے، جو کل دولت کا تقریباً 30 فیصد ہے اور زیادہ تر ترقی یافتہ ملکوں یعنی امریکہ، برطانیہ اور جاپان کے پاس بھی منفی خالص عوامی دولت ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ افراد اور کارپوریشنز امیر ہو گئے ہیں، لیکن حکومتیں غریب تر ہو گئی ہیں۔ عالمی اشرافیہ کا مستقبل روشن ہے اور یہ رجحان انتہائی قدیم اور مستقل ہے۔
آمدنی اور دولت کی یہ اعلیٰ سطح کی عدم مساوات معاشرے کے ایک چھوٹے سے طبقے میں معاشی طاقت کے انتہائی ارتکاز کا باعث بنتی ہے۔ رپورٹ میں استدلال کیا گیا ہے کہ معاشرے کے اندر عدم مساوات بنیادی طو رپر ایک ناگزیر رجحان کی بجائے سیاسی انتخاب کا نتیجہ ہے۔
یہ بات اس پر منحصر ہے کہ معاشرہ اپنی معیشت کو کس طرح منظم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مختلف اسٹیک ہولڈرز اور معاشی کرداروں کو دیئے گئے حقوق اور ان پر عائد پابندیاں اہم محرک ہیں۔ ان تمام مسائل کو صرف عوامی سوچ اور سیاسی ادارے ہی حل کر سکتے ہیں۔
رپورٹ میں اس عدم مساوات کو کم کرنے کیلئے کئی پالیسی آپشن بھی تجویز کئے گئے ہیں۔ جن میں ترقی پسند دولت اور انکم ٹیکس، وراثتی ٹیکس کو اپنانا،کارپوریٹ ٹیکسوں میں اضافہ، ملٹی نیشنل کارپوریشنز اور امیر افراد کے ذریعے ٹیکس چوری کا خاتمہ، تعلیم اور صحت میں عوامی اخراجات میں اضافہ، آمدن اور دولت کی دوبارہ تقسیم اور سماج کاری، بہتر معاشی پالیسیاں اور منصفانہ ترقی کے راستے وغیرہ شامل ہیں۔
تاہم مجموعی طورپر یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی نیو لبرل پالیسیوں نے سرمایہ داری کی سرشت میں شامل دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کے عنصر کو تیز تر کر دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشی ماڈل کے اندر رہتے ہوئے اب عوامی فلاح اورمساوات پر مبنی اقدامات کی معمولی سی گنجائش بھی ختم ہو چکی ہے۔ از سر نو معیشت کو منظم کرنے اور اسے اکثریت لئے کارآمد بنانے کیلئے عدم مساوات کا شکار اکثریت کا سیاسی کردار ناگزیر ہے۔