خبریں/تبصرے

جنوب ایشیائی تنظیموں کا دونوں ملکوں کی جیلوں میں قید ماہی گیروں کی رہائی کا مطالبہ

لاہور (جدوجہد رپورٹ) جنوب ایشیائی تنظیموں نے پاکستان اور بھارت کی جیلوں میں قید ماہی گیروں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محمد تحسین، شبنم مجید، حسین نقی، فاروق طارق اورعامر سہیل نے کہا کہ ہم جنوب ایشیائی خطے کے لوگوں کی نمائندہ سماجی تنظیمیں پاکستان اور ہندوستان کی جیلوں میں قید ماہی گیروں کی رہائی کے مسئلے اُجاگر کرنے کیلئے آپ تمام میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) کے نمائندوں کی مدد کے خواہاں ہیں۔ اس مسئلے کے حل کیلئے ہم نے پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے اعظم کو خط لکھا ہے تا کہ دونوں ممالک اس پر فوری طور پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس وقت ہندوستان کے شہر احمد آباد (گجرات) میں بھی وہاں کی سماجی تنظیمیں اپنی حکومت سے بھی یہی مطالبہ کر رہی ہیں۔

ہماری معلومات کے مطابق 750 کے قریب ماہی گیر قیدی دونوں ممالک کی جیلوں میں قید ہیں، یہ وہ ماہی گیر ہیں جو اپنے آبائی ملک کے پانیوں سے باہر گرفتار کیے گئے تھے۔ ان میں سے 654 بھارتی ماہی گیر پاکستان کی لانڈھی جیل کراچی میں قید ہیں،جن میں سے 631 ماہی گیر بہت پہلے ہی اپنی سزائیں مکمل کر چکے ہیں اور ان کی قومیت کی بھی تصدیق ہو چکی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں ماہی گیروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم کے ریکارڈ کے مطابق 118 پاکستانی ماہی گیر بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں سے بیشتر اپنی سزائیں پوری کر چکے ہیں اور ان کی قومیت کی بھی تصدیق ہو چکی ہے۔ ان میں سے کئی پہلے ہی اپنی اصل سزا کی مدت پوری کر چکے ہیں۔ ان ماہی گیر قیدیوں کو، جن پر آبی سرحدوں کی خلاف ورزی اورمتعلقہ ملک کے پاسپورٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر چند ماہ قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ الزام عائد کردہ جرم کی سزا عام طور پر 6 ماہ کی قید ہے۔ تاہم، ان ماہی گیر قیدیوں کے معاملے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کی رہائی طے شدہ قانون/ایکٹ کے مطابق نہیں ہوتی اور وہ کئی کئی سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہتے ہیں۔ اس دوران ان کا اپنے لواحقین سے کسی قسم کا کوئی رابطہ ممکن نہیں ہوتا۔

قونصلر رسائی پر دوطرفہ معاہدہ 2008ء اس معاملے پر بالکل واضح ہے۔ معاہدے کی شق (v) میں کہا گیا ہے کہ ”دونوں حکومتیں تمام افراد کو ان کی قومی حیثیت کی تصدیق اور سزا کی تکمیل کے ایک ماہ کے اندر رہا کرنے پر متفق ہیں۔“ لیکن دونوں ممالک کی طرف سے اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ انہیں رہا نہ کرنا معاہدے کی صریح خلاف ورزی اور انتہائی غیر انسانی فعل ہے۔

اس مسئلے کے حل کیلئے 1997ء میں اُس وقت کے دونوں وزرائے اعظم جناب محمد نواز شریف صاحب اور جناب آئی کے گجرال نے ایک کانفرنس میں کہا تھا کہ یہ گرفتاریاں بند کی جائیں گی اور غلطی سے بحری حدود عبور کرنے والے ماہی گیروں کو جرمانہ عائد کر کے فور ی طور پر اُن کی کشتیوں سمیت واپس بھیجا جائے گا۔ تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔

۱۔ ہم آپ کے توسط سے بھی دونوں ملکوں کے سربراہان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اوردونوں طرف کے ان معصوم ماہی گیروں کو رمضان کے مقدس مہینے اورعید کے موقع پر رہا کیا جائے۔

۲۔ 27 اگست، 2010ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ جس ماہی گیر کی سزا کی مدت پوری ہو چکی ہے اور وہ کسی اور جرم میں ملوث نہیں اسے فوری طور پر رہا کیا جائے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان نے 442 قیدی ماہی گیروں کو رہا کیا تھا۔ موجودہ حکومت اس فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے ان قیدیوں کو فوری طور پر رہا کرے۔

۳۔ کئی بار ماہی گیروں کے ساتھ اُن کے بچے بھی، جو اُن کے ساتھ سمندروں میں مچھلی پکڑنے جاتے ہیں، اُنہیں بھی گرفتار کر کے جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے 1997ء میں جناب نواز شریف کے دورِ حکومت میں 38 ہندوستانی ماہی گیر بچوں کو رہا کیا تھا۔ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ ان بچوں گرفتار نہ کیا جائے اور فوری رہائی کیلئے اقدامات کیے جائیں۔

۴۔ ان بحری مزدوروں کا معاشی انحصار اُن کشتیوں پر ہے جنہیں ضبط کر لیا جاتا ہے۔ ان کی معاشی زندگی کی بحالی اور خاندانوں کی فلاح کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ ان کی ضبط شدہ کشتیوں کو واپس کیا جائے تا کہ یہ فوری طور پر اپنے خاندانوں کی کفالت اور ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ گرفتار ماہی گیر دوسرے ملک کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں اور ان کے اہل خانہ مالی اور نفسیاتی طور پر مشکلات کا شکار ہیں۔ بہت سے معاملات میں ان کے بچوں کو اپنی تعلیم بھی بند کرنی پڑتی ہے۔

۵۔ ہم دونوں حکومتوں سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ جیلوں میں قید ماہی گیروں کو اپنے گھر والوں سے بات کرنے کیلئے جیل میں ٹیلی فون کی سہولت فراہم کی جائے۔

۶۔ اس اہم معاملے کی اہمیت اور شدت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم دونوں ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ 2008ء میں قائم کردہ جوائنٹ جوڈیشل کمیٹی، جس میں دونوں ممالک کی ہائی کورٹس کے دو دو جج صاحبان شامل تھے، اُسے متحرک کیا جائے تا کہ وہ باقاعدگی سے اپنے اپنے ملکوں میں موجود قیدیوں کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سزا پوری کرنے والے قیدیوں کی فوری رہائی کو یقینی بنا سکیں۔

۷۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے انسانی رابطے کی ضرورت ہے۔ انڈیا اور پاکستان کی مشترکہ تاریخ، ثقافتی اقداراور باہمی رواداری کی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ دونوں ممالک عید اور بدھ پورنیما کے تہواروں کو اہمیت دیتے ہوئے گرفتار ماہی گیروں کو رہا کر کے اُن کے خاندانوں اور سماجی تنظیموں کو خوشی اور شکر گزار ہونے کا موقع فراہم کریں گے۔

لاہور پریس کلب میں کی جانے والی پریس کانفرنس کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر پاکستان فشر فوک فورم، نیشنل فش ورکرز فورم (انڈیا)، جنوبی ایشیائی یکجہتی اجتماعی،پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی، پاکستان سول سوسائٹی فورم، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر)، ساؤتھ ایشین فار ہیومن رائٹس (سحر)، ویمن ان سٹرگل فار ایمپارمنٹ، انسٹیٹیوٹ فار پیس اینڈ سیکولر سٹڈی، متحدہ لیبر فیڈریشن، انسٹیٹیوٹ فارڈیموکریٹ ایجوکیشن اینڈ ایڈووکیسی (آئیڈیا)، عوامی ورکرزپارٹی، چانن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن، لاہور، گرین آرتھ آرگنائزیشن، حقوقِ خلق پارٹی، پنجاب یونین آف جرنلسٹس (پی یو جے)، ساؤتھ ایشیاء پیس ایکشن نیٹ ورک اور دیگر تنظیموں کے نمائندگان نے دستخط کئے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts