راولاکوٹ (نامہ نگار) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں آٹے کی قیمتوں میں 600 روپے فی من اضافے کے خلاف احتجاجی تحریک مسلسل پھیلتی جا رہی ہے۔ جمعرات کو راولاکوٹ، کھائی گلہ، کوہالہ، پاچھیوٹ سمیت مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ ان احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔
راولاکوٹ میں مطالبات کے حق میں جاری احتجاجی دھرنا 18ویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔ راولاکوٹ کے علاوہ اب ہجیرہ، تھوراڑ اور ٹائیں میں بھی احتجاجی دھرنے دیئے گئے ہیں۔ انجمن تاجران، عوامی ایکشن کمیٹیوں اور سول سوسائٹی تنظیموں کی جانب سے احتجاج کو پونچھ ڈویژن اور بالعموم پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے 10 اضلاع میں پھیلانے کے حوالے سے حکمت عملی مرتب کی جا رہی ہے۔
31 مئی کو پونچھ ڈویژن کے 4 اضلاع اور تحصیل صدر مقامات پر احتجاجی مظاہروں اور مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں پہیہ جام ہڑتال کرنے اور دیگر اضلاع میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کو پھیلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
احتجاجی تحریک کے قائد و صدر راولاکوٹ انجمن تاجران عمر نذیر کشمیری نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہی واپس نہ لیا جائے بلکہ آٹے پر گلگت بلتستان کی طرز پر سبسڈی فراہم کی جائے، دیگر اشیائے خوردونوش پر بھی عوام کو سبسڈی فراہم کی جائے۔ بجلی کے بلات پر بے جا ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے، ٹیرف کے نام پر دھوکہ دہی اور لوٹ مار کا سلسلہ ختم کیا جائے اور قیمت خرید 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ پر ہی شہریوں کو بجلی مہیا کی جائے۔
انکا کہنا تھا تھا کہ مطالبات کی منظوری تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا اور بتدریج احتجاج کو پھیلاتے رہے ہیں۔ پر امن احتجاج کا حق اس وقت تک استعمال کرتے رہیں گے جب تک مطالبات پورے نہیں کئے جاتے۔ تاہم اگر ریاست کی جانب سے جبر اور تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا اور اس کا پر امن اور سیاسی طریقے سے بھرپور مقابلہ کرینگے۔