پاکستان

’ہم جہالت ختم نہیں کر سکتے، بہتر ہے آپ اس لاعلمی پر معافی مانگ لیں‘

حارث قدیر

عربی خطاطی کے ڈیزائن والا لباس پہننے والی خاتون پر توہین مذہب کے الزام اور معاملے کے ڈراپ سین کے بعد سوشل میڈیا پر بحث عروج پر ہے۔ خاتون کو ہجوم سے بچانے والی خاتون پولیس آفیسرسے لے کر لباس پر سب سے پہلے اعتراض کر کے احتجاج کو ہوا دینے والے مبینہ شخص تک کے انٹرویوز بھی مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی زینت بن رہے ہیں۔

تاہم اس واقعے پر بننے والا مکالمہ بھی متضاد دلیلوں کے مقابلے سے زیادہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ کہیں اس واقعے کو جسٹیفائی کرنے کی کوشش ہے، تو کہیں خاتون پولیس آفیسر کی تعریف کے ساتھ معاشرے کی جہالت کو کوسنے کا عمل ہے۔ بیچ میں لاقانونیت پر گفتگو بھی کہیں نہ کہیں ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ معاملہ البتہ مجموعی طور پر ’میمز‘ کی نظرہو چکا ہے۔

خاتون کو سب سے پہلے روک کر لباس تبدیل کرنے کا کہنے والے مبینہ شخص نے ایک انٹرویو میں مگر پورے پاکستان معاشرے کی کمال مہارت سے تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ”یہ ایک اسلامی ملک ہے اور اس ملک میں ’جاہلیت‘بہت زیادہ ہے، اس لئے عربی خطاطی کے ڈیزائن والے لباس پہننے سے اجتناب کرنا چاہیے۔“

یعنی دوسرے لفظوں میں وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ ہم نے اس ’جاہلیت‘ یعنی جہالت کو ختم کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کرنا اور نہ ہی کسی کو یہ حق اور اختیار دینا ہے کہ وہ اس جہالت کو ختم کرنے کیلئے کوئی اقدامات کرے۔ البتہ جس کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ اس ملک میں جہالت وافر مقدار میں موجود ہے، اسے اپنی اس لاعلمی کو دور کرنا چاہیے۔

یہ واقعہ اتنا معمولی بھی ہر گز نہیں تھا کہ اس پر سوشل میڈیا پر مزاحیہ میمز شیئر کرکے لطف لیا جائے۔ یہ واقعہ دراصل اس ریاست اور معاشرے کو گہرائی سے سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ اس ملک کے اندر آئین اور قانون کی حکمرانی تو دور کی بات ہے، درحقیقت کوئی آئین اور قانون موجود ہی نہیں ہے۔ جہالت میں اٹے ہوئے ہجوم اور جتھے ہیں، جنہوں نے اس معاشرے اور ریاست کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے۔

یہ جتھے اتنے طاقتور ہیں کہ ان کے آگے ریاست کو سرنگوں ہونا پڑتا ہے، ایک عام شہری اور وہ بھی خاتون ان جتھوں کے آگے اپنی وہ غلطی کیسے نہ تسلیم کرتی، جو اس نے کی ہی نہیں تھی۔ ان جتھوں نے تو اس ریاست کے منصف اعلیٰ کو وضاحتیں دینے اور معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ ریاست جو اپنے ہی کل تین میں سے ایک ستون کوتحفظ دینے سے ہاتھ اٹھا چکی، وہ ایک عام خاتون کو تحفظ دینے کیلئے کیسے کوئی اقدام کر سکتی ہے۔

خاتون پولیس آفیسر نے جس بہادری کے ساتھ متاثرہ خاتون کو ہجوم سے بچا کر اس کی زندگی کو محفوظ کیا، وہ اس مخصوص سماجی کیفیت میں نہ صرف قابل تعریف ہے،ساتھ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ خواتین کسی بھی صورتحال کو سنبھالنے میں مردوں سے کسی طور پر پیچھے نہیں، بلکہ کئی مواقع پرمردوں سے کئی درجے آگے بھی ہوتی ہیں۔ لاہور کے علاقے اچھرا میں ایک مشتعل ہجوم سے خاتون کی زندگی بچانے کا عمل بھی ایسا ہی ایک موقع تھا۔

خاتون پولیس آفیسر نے ہجوم سے خاتون کو بچانے کے بعد پڑھے لکھے ’علماء‘کی موجودگی میں متاثرہ خاتون سے معافی منگوانے کے عمل کو جس طرح جسٹیفائی کیا وہ بھی اس ریاست کے منہ پر ایک کھلا تمانچہ ہی ہے۔ جو ریاست ایک فوجی افسر کی سرکاری رہائش گاہ پر ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کے حملے کے بعد اس رہائش گاہ کو ایک مزار کا درجہ دلوا کر اس ملک کی تقریباً تمام حکمران سیاست کو اس مزار پر حاضری دلوا چکی ہے، وہ ایک خاتون کو جہالت کی بنیاد پر قتل کرنے کیلئے جمع ہونے والے ہجوم کے آگے بے بس ہے۔

پڑھے لکھے ’علماء‘ نے جہاں بیانات میں اس واقعے میں ملوث افراد کو جاہل قرار دے کر اپنا دامن جھاڑنے کی کوشش کی ہے۔ انہی پڑھے لکھے ’علماء‘ میں سے چند کی موجودگی میں پولیس اسٹیشن میں بیٹھی متاثرہ خاتون کا معافی نامے پر مبنی ویڈیو بیان ریکارڈ کیا گیا۔ مذکورہ بیان کی ریکارڈنگ کے دوران ایک علامہ مسلسل لقمے بھی دے رہے تھے۔ ایک لقمہ خاتون کو یہ وضاحت کرنے کیلئے بھی دیا گیا کہ وہ اپنا تعلق ’اہل سنت‘ سے ظاہر کرے۔

بقول معترضِ اولیٰ یہ ملک تو اسلامی ہے، البتہ یہاں ہر موقع پر ایمان کی تصدیق چار علماء کی موجودگی میں ویڈیو بیان کے ذریعے سے کرنی پڑتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل انہی پڑھے لکھے ’علماء‘ کی جانب سے ایک فلم ’زندگی تماشہ‘ کی ریلیز اس لئے رکوائی گئی تھی کہ اس فلم میں بھی توہین مذہب کے ایسے ہی ایک جھوٹے الزام جیسے معاملے کو اٹھایا گیا تھا۔

اس فلم کو پاکستانی سینما میں تو ان پڑھے لکھے’علماء‘ نے چلنے نہیں دیا، البتہ اس فلم میں پکچرائز ہونے والے مناظر لاہور کے علاقے اچھرا سے پاکستان اور دنیا بھر کے شہریوں نے براہ راست ضرور دیکھ لئے۔ البتہ لائیو ٹیلی کاسٹ ہونے والے مناظر میں اداکار ضرور مختلف تھے، مگر یہ افسانہ ہر گز نہ تھا۔

پولیس اسٹیشن سے جاری ہونے والی معافی نامہ پر مشتمل ویڈیو کے بعد خاتون کی زندگی وقتی طور پر شاید جتھوں سے محفوظ ہو گئی ہوگی، لیکن متاثرہ خاتون کی زندگی پر اس واقعے نے جو اثرات مرتب کئے، ان سے شاید وہ خاندان اپنی زندگیوں میں کبھی بحال نہیں ہو سکے گا۔ اس معاشرے کا کوئی باشعور فرد بھی شاید اس واقعے کے بعد’سیلف سنسرشپ‘کے بغیر زندگی گزارنے کے بارے میں سوچنے سے مستقبل میں اجتناب ہی برتے گا۔

ساتھ ہی اس ریاست نے ایک بار پھر یہ واضح کیا ہے کہ لوگوں کے جان، مال اور عزت کے تحفظ کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کا حوصلہ اس ریاست کے ناتواں کندھوں میں نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں لوگ کچھ بھی لکھنے اور بولنے سے قبل یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کہیں ان کی بات ریاست کے مقدس اداروں کی طبیعت پر گراں نہ گزر جائے، وہیں انہیں یہ بھی خود ہی سوچنا ہوگا کہ ان کی کہی یا لکھی گئی بات کسی ہجوم کی طبیعت پر بھی گراں نہ گزر جائے۔

کیونکہ ہم تو جہالت ختم کرنے سے رہے، اب بہتر یہی ہے کہ آپ ہی اپنی اس لاعلمی پر معافی مانگ کر جان چھڑائیں۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔