(نوٹ: طبقاتی جدوجہد کی 41ویں کانگریس کے سلسلہ میں عالمی صورتحال سے متعلق دستاویز’سوشلزم یا بربریت: عالمی صورتحال، پیش منظر اور لائحہ عمل‘ شائع کی گئی ہے۔ مذکورہ دستاویز کا ایک حصہ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)
سال 2022ء کا اختتام طالبان حکومت کی جانب سے افغان خواتین کی تعلیم پر پابندی سے ہوا۔ ایران میں مذہبی حکومت نے حقوق نسواں اور عوامی مظاہروں پر جبر کیا اور مذہبی پولیس کے ہاتھوں نوجوان خاتون مہسا امینی کے قتل کے ایک سال بعد ستمبر 2023ء میں پارلیمنٹ نے حجاب نہ پہنے والی خواتین کے خلاف مزید سخت سزاؤں کی قانون سازی کی۔ یہ سیاسی اور مذہبی رجعت کی جارحیت کی نشانیاں ہیں جو 2015-2019ء کی عالمی حقوق نسواں کی لہر کے بعد شروع ہوئی۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ برائے خواتین 2023ء کے مطابق، ”دنیا صنفی مساوات کو حاصل کرنے میں ناکام ہو رہی ہے اور یہ تیزی سے ایک بہت دور کا ہدف بنتا جا رہا ہے“ جسے ”موجودہ رفتار سے حاصل کرنے میں 300 سال لگیں گے۔“
یہ صنفی فرق کئی اعداد و شمار سے واضح ہے:
٭ کام کرنے کی عمر کی صرف 61.4 فیصد خواتین لیبر مارکیٹ کا حصہ ہیں جبکہ مردوں میں یہ شرح 90 فیصد ہے۔
٭ عالمی مزدور آمدن میں مردوں کے کمائے گئے ہر ڈالر کے مقابلے خواتین صرف 51 سینٹ کماتی ہیں۔
٭ خواتین بلا معاوضہ گھر اور دیکھ بھال کے کاموں پر مردوں کے مقابلے میں روزانہ اوسطاً 2.3 گھنٹے زیادہ صرف کرتی ہیں۔
٭ دنیا بھر میں ”ہرچار میں سے ایک شخص یہ مانتا ہے کہ مرد کا اپنی بیوی کو مارنا جائز ہے۔“
خواتین میں غربت اور ان پر مردوں کا تشدد اسی رفتار سے بڑھ رہا ہے جس رفتار سے معاشی بحران، موسمیاتی تبدیلی اور جنگوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مختلف براعظموں اور ممالک میں فرق کے باوجود یہ لعنتیں سامراجی سرمایہ داری کے تحت بالعموم بڑھ ہی رہی ہیں۔ دائیں اور انتہائی دائیں بازو کی پیش قدمی ان کے اپنے بقول ’صنفی نظریے‘کے خلاف مہمات کو مہمیز دے رہی ہے۔
”ILGA“ کی 2023ء کی رپورٹ کے مطابق مختلف یا متفرق جنسی رجحان رکھنے والے افراد کے خلاف نفرت انگیز تقاریر، جرائم اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر یوگنڈا نے”بار بار“ ہم جنس پرستی کے لیے سزائے موت مقرر کی، ہنگری نے ہوموپیرنٹل خاندانوں کے خلاف گمنام رپورٹ کرنے کو قانونی حیثیت دی، روسی سپریم کورٹ نے LGBT+ تحریک کو انتہا پسند قرار دیا، اردگان نے اس سلسلے میں اپنی نفرت کی مہم کو دو گنا کر دیا اور فلوریڈا اور چھ دیگر امریکی ریاستوں نے صنفی تنوع کے موضوعات والی تمام نصابی کتابوں پر پابندی لگا دی ہے۔
اس جارحیت کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد ہو رہی ہے لیکن اس میں ماضی قریب میں دیکھی جانے والی شدت اور ریڈکلائزیشن نہیں ہے۔ 8 مارچ اور صنفی تشدد کے خلاف عالمی دن 25 نومبر کو میکسیکو اور سپین جیسے کئی ممالک میں بڑے پیمانے پر مارچ ہوئے۔ ہم نے فلسطین اور افریقہ کی خواتین کے ساتھ یکجہتی کو اجاگر کرتے ہوئے ان میں شرکت کی۔ مزید برآں کئی ممالک میں مزدور یونینوں کی جدوجہد اور قومی آزادی کی تحریکوں (مغربی صحارا، کردستان، بلوچستان، کشمیر وغیرہ) میں بھی خواتین نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔
فروری 2023ء میں میڈرڈ (سپین) میں تقریباً 3,000 شرکا کے ساتھ حقوق نسواں کا ایک بین الاقوامی اجلاس ہوا اور اسی سال مارچ میں 30 ممالک کی 50 خواتین رہنماؤں نے میکسیکو سٹی میں ایک ”فیمنسٹ انٹرنیشنل“ کی بنیاد رکھی۔ ان دونوں واقعات میں قیادت اصلاح پسند وں کے پاس ہے۔ اگرچہ انہوں نے ایک ”پاپولر، انٹر سیکشنل، طبقاتی، سرمایہ داری مخالف، اختلاف رائے کو قبول کرنے والے، نوآبادکاری دشمن، نسل پرستی مخالف، ماحول دوست، سزاؤں کے مخالف اور جمہوریت اور امن والے فیمنزم“ کا اعلان کیا لیکن کئی منتظمین ایسی بورژوا حکومتوں کی اہلکار ہیں جو کٹوتیوں کی سخت پالیسیاں نافذ کر رہی ہیں اور یہاں تک کہ صنفی حقوق کے خلاف بھی کاروائیاں کر رہی ہیں۔
ہمارے لیے یہ بہت اہم ہے کہ محنت کش خواتین، حقوقِ نسواں اور دوسری صنفوں کے حقوق کی جدوجہد میں مداخلت کر یں تاکہ ان تحریکوں کو آگے بڑھایا جا سکے اور اپنی قوتوں کی تعمیر کو بھی مستحکم کیا جا سکے۔ ایک ریڈیکل نوجوان ہراول دستہ ان تحریکوں کا حصہ ہے جو اس نظام کے اداروں اور جماعتوں پر یقین نہیں رکھتا اور انقلابی نظریات کو جذب کرنے کے لیے تیار ہے۔ سب سے بڑے سے شروع کریں تو ہمارے حریف یہ ہیں: 1) اصلاح پسندی، جو جدوجہد کو سست کر کے بورژوا اداروں کی جانب موڑ دیتی ہے۔ 2) ریڈیکل فیمنزم یا ریڈفیم، جو مردوں کو سماجی طبقات سے الگ تھلگ، اپنے بڑے دشمن کے طور پر دیکھتا ہے۔ 3) شناخت کی سیاست (Identity Politics) کا دھارا، جو اختلافات کو بڑھاوا دیتا ہے، جدوجہد کو تقسیم کرتا ہے اور سب سے زیادہ انقلاب مخالف گروہ ہے۔ 4) وہ لوگ جو محنت کش طبقے کی تحریک سے علیحدہ، خودمختار اور متوازی حقوق نسواں کی تحریک کو فروغ دیتے ہیں، جس سے محنت کش طبقے کا قائدانہ کردار کمزور ہوتا ہے۔
ان غلط پوزیشنوں کے خلاف سیاسی جدوجہد میں ہم اپنے سوشلسٹ اور انقلابی حقوق نسواں کا پرچم اور پروگرام بلند کرتے ہیں جو پدر شاہی سرمایہ دارانہ نظام کے ہر پہلو کے خلاف ایک مکمل لڑائی پر مبنی ہے۔