محمد اکبر نوتزئی
A Lifetime of Dissent: A Memoir
مصنف: اے آئی رحمان
شائع کردہ: فولیو بکس
بلوچ تاریخ پر بہت سی کتابیں موجود ہیں، جن میں ہندوستان کے دوسرے مغل بادشاہ ہمایوں کے ریکارڈ موجود ہیں، جو 1540میں قنوج کی جنگ میں شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کے بعد بلوچستان فرار ہو گیا تھا۔ ہمایوں نے اپنی تحریروں میں اپنے بلوچستان کے قیام کے بارے میں بھی مختصراً لکھا ہے۔
بعض واقعات کے مطابق اس وقت نوشکی کے قریب ڈیرے ڈالتے ہوئے شیر شاہ سوری نے مقامی لوگوں کوسختی سے تنبیہ کی تھی کہ وہ بھاگتے ہوئے ہمایوں کو کوئی مدد یا پناہ فراہم نہ کریں۔ اس نے اعلان کیا کہ جس نے بھی ایسا کیا اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان انتباہات کے باوجود چاغی کے ایک قابل ذکر بلوچ ملک کھٹھی نے ہمایوں کے پاس جا کراسے ایران فرار ہونے میں مدد کی۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ سبی اور اس کے ملحقہ علاقوں میں بلوچوں کے بدنام زمانہ متحارب قبائل رند اور لاشار کے درمیان 30 سالہ طویل جنگ کے نتیجے میں دونوں قبائل بلوچستان سے ہمیشہ کے لیے پنجاب اور سندھ میں چلے گئے۔
جب ہمایوں ابھی تخت پر تھا تو اس نے رند کے قبائلی سردار میر چاکر رند کو سرگودھا دے دیا تھا، جہاں وہ اپنے لوگوں سمیت منتقل ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سردار میر چاکررند نے نہ صرف اسے دہلی سے بھاگنے میں مدد کی بلکہ مغل خاندان کو بحال کرنے میں بھی مدد کی، تاہم میر چاکر رندکو ابھی تک برصغیر کی تاریخ کی کتابوں میں مناسب جگہ نہیں دی گئی۔
مغل خاندان کی بحالی کے بعد زیادہ تر رندوں نے سرگودھا چھوڑ دیا۔ تاہم ان میں سے کچھ مغل محلات کے آس پاس کے علاقوں میں رہے۔ ان علاقوں یا دفاعی چوکیوں میں سے ایک حسن پور تھا، جو مغلوں نے دہلی کی حفاظت کے لیے قائم کیا تھا،یہ اے آئی رحمان کا آبائی گاؤں تھا۔
ابن عبدالرحمن، جو زیادہ تر رحمن صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے، ایک مشہور صحافی اور انسانی حقوق کے محافظ تھے۔ ان کی بعد از مرگ شائع ہونے والی یادداشت ’A Lifetime of Dissent‘ان کی ہندوستان میں ابتدائی زندگی، ان کی رند بلوچ جڑوں، ان کی صحافت اور انسانی حقوق کے کارکن سمیت ان کی زندگی کے دیگر پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔
رحمٰن صاحب کو اکثر ان کے دوستوں اور ساتھیوں نے اپنی سوانح عمری لکھنے کی درخواست کی مگر وہ ہچکچاتے رہے۔ کارکن اور صحافی زہرہ یوسف کتاب کے پوسٹ اسکرپٹ میں لکھتی ہیں کہ ”مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا کہ اے آئی رحمن نے عاصمہ جہانگیر کی جانب سے اپنی یادداشتیں لکھنے میں مدد کی پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ برسوں تک ہم دونوں نے انہیں اپنی زندگی کے لمحات کو ریکارڈ کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، عاصمہ نے ان سے ڈکٹیشن لے کر اسکرپٹ ٹائپ کرنے کی پیشکش بھی کی۔ تاہم رحمن صاحب نے دوسروں پر بہت کم انحصار کرتے ہوئے یہ فریضہ خود ہی سرانجام دینے کا فیصلہ کیا۔“
2021میں 90سال کی عمر میں ان کی وفات کے بعد مجھے ان کے بارے میں پڑھنے کا تجسس ہوا۔ مجھے گزشتہ سال ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سٹاف ممبر ماہین پراچہ سے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ان کی یادداشتوں کی اشاعت کا کام جاری ہے اور و ہ تدوین کے مراحل میں ہیں۔
رحمن صاحب اپنی کتاب کا آغاز حسن پور میں اپنی ابتدائی زندگی سے کرتے ہیں۔ اپنے رند باپ دادا کے برعکس، جنہوں نے تلواریں اور بندوقیں اٹھا رکھی تھیں، انہوں نے قلم اٹھایا۔ وہ 20 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ایک صحافی تھے، اور اس کے بعد سے ان کی زندگی بس یہی تھی۔ وہ 70 سال سے زیادہ عرصہ تک صحافی رہے۔
بدقسمتی سے رحمن صاحب جس گاؤں سے تعلق رکھتے تھے،وہ تقسیم کے وقت مسلم ہندو تنازعہ کی لپیٹ میں آ گیا۔ رحمن صاحب اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے طالب علم تھے،جس میں انہوں نے 1945 میں داخلہ لیا تھا۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد، ان کا سامنا اے ایم یو میں فزکس کے پروفیسر رفیع محمد چودھری سے ہوا، جن کا تعلق ان کے آبائی علاقے کے قرب و جوارسے تھا۔وہ پانچ عظیم سائنسدانوں کے طالبعلم تھے، جن میں سے ایک امریکی طبیعیات دان اوپین ہائیمر تھے۔ پروفیسر رفیع محمدچودھری نے سب سے پہلے رحمٰن صاحب کو بتایا کہ کس طرح ایٹم بم درجہ حرارت کو کئی ہزار ڈگری سینٹی گریڈ بڑھا کر میلوں پر پھیلے علاقے کے اندر ماحول اور ہر چیز کو تباہ کر دیتا ہے۔
1947 میں تقسیم کے وقت مسلمانوں اور ہندوؤں کے قتل عام نے دونوں کمیونٹیز کو نوزائیدہ ممالک میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور کیا۔ رحمن صاحب اپنی کتاب کے ذیلی حصے ’فسادات، آزادی اور حسن پور کا قتل عام‘ میں لکھتے ہیں کہ ”ہندو عسکریت پسندوں کی ایک بڑی فورس نے میرے دادا کی معمولی حویلی پر حملہ کیا، جہاں ہمارے گاؤں کی پورے آبادی نے پناہ لے رکھی تھی۔ اس فورس کو مقامی زبان میں دھر کہا جاتا تھا، جس میں بہت سے دیہاتوں (جن میں سے کچھ اتنے دور تھے، جیسے علی گڑھ) کے لاٹھیوں سے لیس پرجوش افراد تھے، جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق10ہزار سے زیادہ تھی۔“
وہ لکھتے ہیں کہ ”چند گھنٹوں کے اندر حملہ آور ہجوم حویلی میں گھسنے میں کامیاب ہو گیا اور ایک قتل عام شروع کر دیا گیا، مردوں کو قتل کر دیا اور خواتین کو اغواء کیلئے گھسیٹ کر لے گئے، جو کچھ بھی وہ لے جاسکتے تھے، لوٹ لیا۔ اس کے بعد گھر کو آگ لگا دی گئی۔“
بے چین ہو کر رحمن صاحب اپنے گاؤں پہنچے لیکن پہنچنے سے پہلے بس سٹینڈ پر اپنے پیاروں کے بارے میں پوچھا۔وہ لکھتے ہیں کہ ان کے تمام سوالات کا ایک ہی جواب تھا ”چلے گئے“۔یہ المناک واقعہ ان کے ہندوستان چھوڑنے کی وجہ بھی بن گیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ رحمن صاحب کے اپنے الفاظ میں ”گاندھی جی نے ہمیں پاکستان ہجرت کرنے سے روکنے کے لیے ایک دو رکنی ٹیم، جس میں پنڈت سندر لال اور مولانا حفظ الرحمن شامل تھے، کو بھیجا تھا۔“
دوسرے بہت سے مسلمانوں اور ہندوؤں کی طرح رحمن صاحب کے خاندان نے بھی یہ سمجھاتھا کہ یہ ایک عارضی ہجرت ہوگی اور وہ تھوڑی دیر بعد اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ رحمن صاحب اپنے خاندان کے المیے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ہاتھوں ہندوؤں کی حالت زار کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
پاکستان میں رحمان صاحب ایک ایسا نام بن گئے،جو اب صحافت اور انسانی حقوق کی سرگرمیوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ اپنے قلم کے ذریعے اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے عوام بالخصوص پسماندہ افراد کے لیے بے لوث جدوجہد کرتے رہے۔ وہ ان کے لیے آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بدترین وقت میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔
ان کی وفات سے پہلے مجھے ان کے ساتھ ہزارہ کوئلے کے کان کنوں کے بارے میں ڈان اخبار کے لئے ایک کور اسٹوری کا کریڈٹ شیئر کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، جنہیں اسلام پسند عسکریت پسندوں نے بلوچستان کے مچھ کے پہاڑوں میں قتل کر دیا تھا۔
ہمارے جیسے معاشرے میں رحمن صاحب جیسا شخص صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو عقل کی روشنی دکھاتے اور بڑے مقاصد کیلئے جینا سکھاتے تھے۔ تقسیم اور بے گھر ہونے کے درد سے گزرنے کے باوجود وہ 20 سال کی عمر سے پہلے ہی دانشمند رہنما بن گئے تھے۔
لیکن میرے لیے وہ حسن پور کے رحمن صاحب ہیں،جنہوں نے دوسروں کے لیے جینے کے لیے قلم اٹھایا اور ان کی آواز بنے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اب یہاں جسمانی طور پر موجود نہ ہوں، لیکن وہ کسی بھی اس جدوجہد کے ذریعے زندہ ہیں جو عوام کے لیے کی جارہی ہے، خاص طور پر مظلوم، دبے اور دبائے ہوئے لوگوں کے لیے۔ اور بے شک ان کی کتاب ہر ایک کوپڑھنی چاہیے۔
(بشکریہ: ڈان)
ترجمہ: حارث قدیر