راولاکوٹ (حارث قدیر) پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جاری عوامی حقوق تحریک کے سلسلے میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے 11مئی کو دارالحکومت مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔دوسری طرف حکومت کے مطالبہ پر پاکستان کی وفاقی حکومت نے پنجاب کنسٹیبلری(پی سی) بھیجنے کی منظوری دے دی ہے، مقامی پولیس کی بھی تمام اضلاع میں تعیناتی، مجمع منتشر کرنے کے ضروری سامان کی ترسیل کیلئے اقدامات کر لئے گئے ہیں۔
قبل ازیں 30اپریل کو حکومت کی مصالحتی کمیٹی میں شامل وزراء نے ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کرتے ہوئے بنیادی تین مطالبات کے علاوہ دیگر ذیلی مطالبات پر کچھ عملی اقدامات کے نوٹیفکیشن اور قانون سازی کی یقین دہانی کروائی،تاہم بجلی اور آٹے کے حوالے سے حتمی فیصلہ پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے معاہدوں اور منظوری سے مشروط کیا گیا۔ ایکشن کمیٹی کے اراکین نے بجلی اور آٹے سے متعلق مطالبات کی منظوری کے بغیر مارچ موخر کرنے سے انکار کردیا۔ تاہم حکومت کو یہ چھوٹ دی گئی ہے کہ اگر بجلی اور آٹے سے متعلق مطالبات پر اگر کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوجاتا ہے تو پھر مارچ ملتوی کیا جا سکتا ہے۔
بعد ازاں یکم مئی کو ڈڈیال کے مقام پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے اراکین نے منگلا ڈیم کے کنارے پر کھڑے ہو کر حلف لیا اور مطالبات کی منظوری تک ناقابل مصالحت جدوجہدجاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ 11مئی کو بھمبر سے مارچ شروع کرنے کے بعد میرپور، کوٹلی سے بذریعہ ہجیرہ پونچھ میں داخل ہونے اور براستہ دھیرکوٹ مظفرآباد کی جانب جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کمیٹی کی جانب سے فیصلہ کیا گیا کہ مظفرآباد پہنچ کر اسمبلی سیکرٹریٹ کے سامنے غیر معینہ مدت تک پر امن احتجاجی دھرنا دیا جائے گا۔ تاہم مارچ روکے جانے کی صورت میں تصادم کی بجائے جن مقامات پر مارچ کو روکا جائے گا، وہیں احتجاجی دھرنے دیئے جائیں گے۔ شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی اور ریاست گیر لاک ڈاؤن کر دیا جائے گا۔
ادھر مقامی حکومت نے بذریعہ چیف سیکرٹری پاکستان کی وزارت داخلہ سے سول مسلح فورسز کی 6پلاٹون نفری مقامی پولیس کی صلاحیتوں میں اضافے کیلئے فراہم کرنے کی مانگ کی تھی۔ مکتوب میں کہا گیا تھا کہ چینی شہریوں اور تذویراتی قومی انفراسٹرکچر نیلم جہلم پاور ہاؤس، منگلا پاور ہاؤس اور گلپور پاور ہاؤس کی سکیورٹی فول پروف بنانی مقصود ہے۔ اس کے علاوہ 11مئی کو سب نیشنلسٹ، ناراض اور تخریبی گروہوں کی جانب سے شٹر ڈاؤن، پہیہ جام ہڑتال کی کال بھی دی گئی ہے۔ وہ زبردستی مارکیٹیں بند کروانے اور کار سرکار کو روکتے ہوئے امن و امان کی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مکتوب میں لکھا گیا ہے کہ اس نفری کو 3ماہ کیلئے بھیجا جائے اور اس کے اخراجات مقامی حکومت خود پورے کرے گی۔
وزارت داخلہ کی ہدایت پر حکومت پنجاب نے پنجاب کنسٹیبلری(پی سی) کے 600اہلکاران پر مشتمل نفری ایک ماہ کیلئے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھیجنے کی منظوری دی ہے۔
دوسری جانب جموں کشمیر کی پولیس نے بھی لانگ مارچ سے نمٹنے کیلئے اپنی حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔ انسپکٹر جنرل کی جانب سے جاری حکم نامہ کے مطابق مظفرآباد میں 278، میرپور ریجن میں ضلع کوٹلی کے مقام پر 297، پونچھ ریجن میں راولاکوٹ کے مقام کیلئے546اور ضلع سدھنوتی کیلئے220پولیس اہلکاران کی اضافی نفری مہیا کی جائے گی۔
حکم نامہ کے مطابق مامورہ نفری آج3مئی تک تمام اضلاع میں پہنچا دی جائے گی، اس کے علاوہ سپیشل ڈیوٹی پر مامور ہونے والی نفری کو ضروری سامان اینٹی رائٹ کی تقسیم بھی عمل میں لائی جائے گی۔ تینوں ڈویژن میں 50/50گیس ماسک بھی مہیا کئے جائیں گے۔
پی سی کی آمد کی خبر پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے اراکین نے سخت رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس عمل کو اس خطے کے عوام پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔ ویڈیو پیغامات کے ذریعے مطالبہ کیا گیا ہے کہ یہاں کوئی امن و امان کی صورتحال نہیں ہے، جس کیلئے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے، یہ فیصلہ فوری واپس لیا جائے۔ بصورت دیگر حالات کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔
واضح رہے کہ پی سی کی اس خطے میں مظاہرین کو کچلنے کیلئے ماضی کی تلخ یادیں بھی موجود ہیں۔ 50کی دہائی میں حق رائے دہی کے حصول کیلئے جاری تحریک کو کچلنے کیلئے حکومت پاکستان نے پنجاب کنسٹیبلری کو جموں کشمیر میں بھیجا تھا۔ اس تحریک کو کچلنے کیلئے پی سی کی جانب سے قتل عام اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ موجودہ پونچھ اور سدھنوتی کے علاقوں میں پی سی کے خلاف مقامی لوگوں نے طویل لڑائی لڑی ہوئی ہے۔تاہم پی سی کے ان مظالم کو آج بھی پرانی عمر کے لوگ یاد کرتے ہیں۔ پی سی کی تعیناتی کی خبر کو ماضی کی اسی روایت کے طورپر ہی دیکھا جا رہا ہے اور سوشل میڈیاپر شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔