طاہر کامران
فرد کی آزادی اور اجتماعیت کے مابین نازک سا توازن!
یہ تھا ہماری ایک حالیہ گفتگو کا موضوع۔ اس گفتگو میں ڈاکٹر اکمل حسین، ڈاکٹر فاروق سلہریا اور راقم شامل تھے۔
اجتماعیت ریاست کی شکل میں ہو یا معاشرے کی صورت، ہم تینوں متفق تھے کہ فرد کی آزادی اور اجتماعیت کے درمیان تناو موجود ہے۔اجتماعیت فرد کی آزادی کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتی ہے۔
اس بحث نے ہمیں ایک اور سوال کا جواب تلاش کرنے پر مجبور کر دیا۔ ہمارا اگلا مسئلہ تھا کہ کیا اجتماعیت کے تحت فرد کی آزادی ممکن ہے؟
اس سوال کے نتیجے میں ایک زبردست گفتگو نے جنم لیا اور بات پاکستان کو درپیش چیلنجز کی طرف چلی گئی۔ ڈاکٹر اکمل حسین نے ان مسائل کا احاطہ کیا جو پاکستان کو درپیش ہیں۔ اس مضمون میں راقم ڈاکٹر اکمل حسین کے پیش کردہ تناظر کو قارئین کے روبرو پیش کرے گا۔ اس موقع پر ضروری ہے کہ ڈاکٹر اکمل حسین کے شاندار کیرئیر پر بھی ایک نظر دوڑا لی جائے۔
ڈاکٹر اکمل حسین جن معروف تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے ہیں ان میں گورنمنٹ کالج لاہور،کیمبرج یونیورسٹی اور سسکس یونیورسٹی شامل ہیں۔ آج کل وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں ڈسٹنگوِشڈ پروفیسر کے طور پر منسلک ہیں۔ان کی علمی مہارت کا دائرہ کار اکیڈیمیا،پالیسی سازی اور انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ تک پھیلا ہوا ہے۔
ان کی علمی مہارت سے استفادہ کرنے والوں میں ورلڈ بنک بھی شامل ہے اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) بھی جہاں ڈاکٹر اکمل حسین نے تحقیقی فرائض سر انجام دئیے ہیں۔ پالیسی سازی میں ڈاکٹر اکمل حسین کا نمایاں اثر رہا ہے۔ انہوں نے اقتصادی معاملات پر حکومت پاکستان کو بھی مشاورت فراہم کی ہے۔ 1989-2001 اور بعد ازاں 2010-11 کے عرصے میں وہ وزیر اعظم کی کمیٹی برائے اقتصادی پالیسی کے رکن رہے۔ پاکستان سے باہر بھی وہ مشاورت فراہم کرتے رہے ہیں۔ برطانیہ کے وِلٹن پارک جیسے فورم پر پالیسی ساز مباحث میں شامل رہے ہیں۔حکومت جاپان کے علاوہ ولندیزی حکومت کے تشکیل کردہ فورمز کا حصہ رہے ہیں۔
گذشتہ چند سالوں میں ڈاکٹر اکمل حسین نے پائیدار ترقی کی بھر پور وکالت کی جس کا ایک اظہار بون میں ہونے والے یو این ڈی پی کے اجلاسوں میں ان کی شرکت ہے۔’ایس ڈی جی‘ دستاویز لکھنے میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔
مزید براں، غربت کے خاتمے اور ترقی کے لئے گراس روٹ اقدامات کے حوالے سے بھی ان کی خدمات گراں قدر ہیں۔ مندرجہ بالا حقائق اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ وہ مقامی،قومی اور علاقائی سطح پر مثبت تبدیلی چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر اکمل حسین کے قلم میں بھی زبردست روانی پائی جاتی ہے۔وہ ترقی کے موضوع پر مختلف کتابوں میں 40 سے زائد ابواب شائع کر چکے ہیں۔
حال ہی میں شائع ہونے والی ان کی کتاب Pakistan, Institutional Instability and Underdevelopment: State, People and Consciousness
اس بات کا اظہار ہے کہ وہ معاشی ترقی،سماجی حرکیات اور گورنس کے مابین تال میل کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
اگر کوئی پاکستان کو درپیش معاشی، سیاسی اور دانشوارانہ مسائل بارے آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے تو ڈاکٹر اکمل حسین کی یہ کتاب پڑھنا لازمی ہے۔ اکیڈیمیا، پالیسی سازی اور ترقی کے لئے ڈاکٹر اکمل حسین کی متنوع کاوشوں سے ان کے رتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو انہیں پاکستان میں تمام پرتوں اور پائیدار ترقی کے حوالے سے حاصل ہے۔
پاکستان کے 75 سالہ سفر بارے بیانئے میں عمومی طور پر پاکستان میں موجود صلاحیت اور امکان کا ذکر گونا گوں مسائل کے شور میں دب جاتا ہے۔ باوجودیکہ پاکستا ن مہارت کی دولت سے مالا مال ہے اور بہترین ساکھ کے حامل معروف دانش ور پیدا ہوتے رہے ہیں،یہ ملک اپنے معاشی مسائل سے نپٹنے کے حوالے سے دانش کے بحران سے دو چار ہے۔
دانش کے اس بحران کا ایک اظہار یہ ہے کہ معاشی مسائل کے حل کے لئے اختراعی حل پیش نہیں کئے جاسکے۔ ترجیحات سر کے بل کھڑی ہیں۔ پالیسی سازی کی جگہ ایڈ ہاک ازم ہے۔نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی ایک بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔
معاشی بحالی کے لئے،حال ہی میں بطور ایک ادارہ ’پاکستان انویسٹ منٹ سییلیٹیشن کونسل‘ (پی آئی ایف سی) کی تشکیل اس ضمن میں خصوصی توجہ کی حامل ہے۔ ملک کو درپیش مسائل سے نپٹنے کے لئے یہ ادارہ کیا کرپائے گا،یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
اس پس منظر میں یہ امر قابل توجہ ہے کہ ملکی برآمدات کم سے کم ہو رہی ہیں۔ تارکین وطن جو رقوم بھیجتے تھے،ان میں کمی آ رہی ہے۔عام طور پر ان رقوم سے زر مبادلہ کی نازک صورتحال تھوڑی بہتر ہو جاتی تھی۔ان مسائل کے مرغوبے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان میں فیصلہ سازی کرنے والوں کے ہاتھ پاوں پھولے ہوئے ہیں جو بگڑی ہوئی معاشی صورت حال سے نپٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی پولرائزیشن نے پاکستان کی معاشی صورت حال کو مزید گڑ بڑا دیا ہے جس سے بے چینی مزید بڑھ گئی ہے۔سیاسی بیانئے میں موجود تقسیم سے بے یقینی پر مبنی ماحول میں مزید تیزی آئی ہے جس کے نتیجے میں معاشی بحالی کے لئے اقدامات لینا اور مشکل ہو گیاہے لہذا بیرونی امدا د کا سہارا لیا جاتا ہے جس کی اہم ترین شکل آئی ایم ایف پیکج ہیں۔ یہ کڑوی گولی بار بار نگلنی پڑ رہی ہے۔
ایک جانب پاکستان کو معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،دوسری جانب دانش وارانہ بنجر پن اورادارہ جاتی نالائقی کا سامنا ہے جبکہ سیاسی اتفاق رائے مفقود ہے۔
نظام کو درپیش ان مسائل سے نپٹنے کی اشد ضرورت ہے۔اس ضرورت کے پیش نظر لازمی ہے کہ قومی ترجیحات کا تعین کیا جائے، پائیدار معاشی نمو اور ترقی کے لئے ساز گار ماحول سے گہری وابستگی دکھائی جائے۔
پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ یہاں ڈاکٹر اکمل حسین اور ڈاکٹر حفیظ پاشا جیسے دانش ور موجود ہیں جن کے شاندار کیرئیر اکیڈیمیا، ریاستی پالیسی سازی اور انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ پر محیط ہیں۔ ان افراد کی موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس ملک میں علم اور مہارت موجود توہیں البتہٰ معاشی مسائل کے حل کے لئے اس مہارت اور علم سے استفادہ نہیں کیا جا سکا۔
ڈاکٹر اکمل حسین (اور دیگر ماہرین)کی تحقیق و تجاویز کے باوجود،دوسری طرف پاکستان کی معاشی نمو منجمد نظر آتی ہے۔پی آئی ایف سی کی شکل میں اٹھائے گئے اقدامات معاشی بحالی کے حوالے سے زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔
ماحولیاتی تباہی کی شکل میں پاکستان کے وجود کو ایک اور خطرہ لاحق ہے۔ یہ خطرہ شدید شکل اختیار کر چکا ہے مگر اس خطرے سے نپٹنے کے لئے حکومتی اقدامات ہر گز اطمینان بخش نہیں ہیں۔ اس حوالے سے کئے گئے اقدامات اس بات کی علامت ہیں کہ فوری مفادات کو دیرپا حل پر ترجیح دی جاتی ہے۔
بار بار آنے والے سیلاب سے نپٹنے کے لئے کوئی منصوبہ ہے نہ خشک سالی کے حوالے سے کوئی اطمینان بخش حکت عملی۔گلیشئیر پگھل رہے ہیں جو اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ فوری اور فیصلہ کن اقدامات کئے جائیں مگر بے عملی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔یہ بے عملی مسلسل دیکھنے کو ملتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی ہوا میں رچ بس گئی ہے جس نے لاہور کا حسن ہی گہنا دیا ہے۔اب لاہور کو یہ اعزازحاصل ہے کہ اسے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست رکھا جاتا ہے۔
ان تمام مسائل کو ریاستی لوٹ مار مزید گہرا کر دیتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ غربت اور محرومی کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ وسائل کی کمی نہیں۔ یہ وسائل منصفانہ انداز میں عوام تک پہنچائے نہیں گئے۔پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ بھی تو ایسا ہے کہ عدم مساوات اور لوگوں کی بے بسی مسلسل بڑھتی جاتی ہے جبکہ سماجی یگانگت تشکیل ہی نہیں پا رہی۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی افسوسناک سمت میں جا رہی ہے۔ اس کا ایک اظہار یہ ہے کہ جیو پولیٹیکل حقائق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ تاریخی طور پر پاکستان کی جیو پولیٹیکل اہمیت یہ رہی ہے کہ یہ جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے لئے گئے حالیہ اقدامات ان حقائق کی نفی میں اٹھائے گئے ہیں۔ یوں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے فائدہ اٹھایا گیا ہے نہ سٹریٹیجک اہمیت سے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بھر پور انداز میں از سر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔اپنے ہمسائیوں سے تعلقات ٹھیک کرنے ہوں گے۔ہمسائیوں کے ساتھ تجارت کرنا ہو گی۔
اس وقت ریاست کا مرکز نگاہ قومی سلامتی ہے۔ ریاست کی مرکزی ترجیح سماجی بہبود اور استحکام ہونا چاہئے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو جرات اور بلند نگاہی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ سامراجی ایجنڈے پر چلنے کی بجائے دیر پا قومی مفاد کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔
پاکستان اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ملک کو گونا گوں مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اس کی خوشحالی اور استحکام کو خطرہ ہے۔سٹریٹیجک اہمیت کے باوجود یہ ملک مسلسل بحران کا شکار ہے جبکہ ناکامیاں منظم شکل اختیار کر چکی ہیں۔،غلط ترجیحات روشن مستقبل کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہیں۔
جب یہ محفل اختتام کو پہنچی تو راقم اور فاروق آگاہی کی نئی منازل طے کر چکے تھے۔
بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے