پاکستان

مظلوم جامعہ بلوچستان

امان اللہ کاکڑ

بلوچستان کی مجموعی پسماندگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ یہاں نظام زندگی کو رواں رکھنے کیلئے درکار انفراسٹرکچر یا تو سرے سے مفقود ہے یا اگر کہیں موجود ہے بھی تو اس کی حالت قابل رحم ہے۔ جب سماجی و معاشی انفراسٹرکچر کی خستہ حالی کی داستان رقم ہورہی ہو وہاں تعلیم کی سطح اور معیار کیا ہوگااسکا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ رواں سال محکمہ تعلیم بلوچستان نے ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ ”بلوچستان میں اکثر سکولوں کو غیر فعال بنا کر یا تو مہمان خانے یا پھر مال مویشی کے باڑے کے طور پر استعمال کیے جارہے ہیں۔ جبکہ 50 فیصد کے لگ بھگ اساتذہ تنخواہیں لے کر بھی سکولوں سے غیر حاضر رہتے ہیں۔ پچھلی حکومت میں بلوچستان کے ایک ضلع میں سرکاری کاغذوں میں نہ صرف سکولوں کی منظوری لی گئی تھی بلکہ سکولوں کی تعمیر بھی مکمل کی گئی تھی لیکن زمینی طور پر ان سکولوں کا کہیں وجود ہے ہی نہیں۔“

رسمی طور پر بلوچستان کے ہر ضلع میں متعدد پرائمری، مڈل و ہائی سکول جبکہ کہیں کہیں انٹر کالج موجود ہیں لیکن عملی طور پر اکثر ادارے غیر فعال ہیں۔ اگر کہیں تعلیمی ادارے فعال بھی ہیں تو وہ ادارے سہولیات کے فقدان کی تصویر کشی خود کر رہے ہوتے ہیں۔

بلوچستان کے تعلیمی نظام کا بھیانک چہرہ یوں بھی آشکار ہوتا ہے کہ محکمہ تعلیم کی انتظامیہ کی ملی بھگت سے دیہاتوں میں موجود اکثر سکولوں کے اساتذہ یا تو ”ویزوں“ پر ہوتے ہیں یا پھر آف دی ریکارڈ ”عیوض“ کے طور پر عدم تربیت یافتہ افراد رکھ کر سکولوں میں بطور اساتذہ بھیجے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے کھمبیوں کی طرح نکل رہے ہیں جو پہلے سے برباد نظام تعلیم کو نیست و نابود کر رہے ہیں۔ جبکہ تنگ دست و لاچار والدین مجبور ہیں کہ اولاد کی پڑھائی پر اس امید سے خرچ کریں کہ تعلیم کے توسط سے اس اجیرن زندگی سے چھٹکارا پا سکیں۔

کسمپرسی کی اس حالت میں بچیوں اور لڑکیوں کی تعلیمی کیفیت کیا ہوسکتی ہے کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ ایک طرف بلوچستان کی اکثر آبادی کا مسکن دیہات ہیں تو دوسری طرف قبائلی و نیم قبائلی و مذہبی رشتوں اور رجحانات کی موجودگی نے تو لڑکیوں کی تعلیم کی ہمیشہ حوصلہ شکنی ہی کی ہے۔ ایسے میں یہاں حکومتوں کے جرائم بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ کیونکہ یہاں پر ہر حکمران کا رویہ لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کی طرف غیر سنجیدہ ہی رہا ہے۔ اس غیر سنجیدگی کی بنیاد بھی قبائلی و مذہبی ہی ہے۔ کیونکہ یہاں کے اکثر حکمران خاندانوں کا پس منظر قبائلی رہا ہے۔ لہٰذا انکے تمام حکومتی و انتظامی فیصلے پسماندہ قبائلی بنیادوں پرہی ہوتے ہیں جن کا خمیازہ یہاں کے عوام بالعموم اور خواتین بالخصوص بھگت رہی ہیں۔

اس پس منظر میں جامعہ بلوچستان‘ صوبہ بلوچستان کا واحد اور سب سے بڑا ادارہ ہے جو بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں واقع ہے اور جہاں غربت کے ستائے والدین اپنے بچے اور بچیاں اعلیٰ تعلیم کیلئے بھجواتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی داخلہ لینے سے لیکر ڈگری حاصل کرنے تک کوئی لمحہ بھی کسی اذیت سے کم نہیں ہے۔

حالیہ دنوں میں یہ جامعہ کم جبکہ فوجی چھاؤنی زیادہ نظر آتی ہے۔ سینکڑوں پولیس و ایف سی اہلکاروں کے سنگینوں کے سائے تلے طلبا و طالبات نام نہاد ”علم کے زیور“ سے آراستہ ہو رہے ہیں جوکہ کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے! یہاں طلبہ سیاست و سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے جبکہ طالبات کا اپنے ساتھی طلبہ سے ملنا تو ہے ہی کفر! لیکن اس صورتحال میں اچانک ملکی و سوشل میڈیا پر جامعہ بلوچستان میں طالبات و خواتین اساتذہ کے جنسی طور پر ہراسانی سکینڈل جس پر طلبہ تنظیموں نے خوب احتجاج بھی کیا‘کا منظر عام پر آنا کوئی اتفاق ہرگز نہیں ہے۔

اول تو جنسی طور پر کسی بھی خاتون کو ہراساں کرنا نہ صرف قبیح عمل ہے بلکہ اس فعل کی جتنی بھی مذمت اور مزاحمت کی جائے کم ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جامعہ بلوچستان کوئی پہلی اور آخری جامعہ نہیں ہے جہاں یہ سکینڈل سامنے آیا ہے۔ اگرچہ حالیہ سکینڈل کی شکایت ایف آئی اے کو کی گئی تھی جسکی باقاعدہ انکوائری عمل میں لائی جارہی تھی لیکن اس خبر کو لیک اور پھر بریک کرنا اور بعد میں ایسی خبروں کا بہت وسیع پیمانے پر پروپیگنڈہ کرنا جامعہ بلوچستان اور اس میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کے لئے نئے عذاب سے کم نہیں ہے۔ اس خبر کو لیک کرنے اور اسکا پروپیگنڈہ کرنے میں قبائلی ذہنیت زدہ حکمرانوں اور ریاستی اہلکاروں جو کہ اس سکینڈل میں ملوث ہیں کو فائدہ پہنچا ہے۔ کیونکہ خبر کے لیک ہونے سے ایک طرف وہ والدین جو انتہائی تنگ دستی اور پسماندہ حالات میں اپنی بچیوں کو کسی اعلیٰ درسگاہ میں پڑھنے کیلئے بھجواتے ہیں دلبرداشتہ ہوئے ہیں اور مستقبل میں والدین بچیوں کو پڑھانے کیلئے فکرمند ہونگے جو کہ بلوچستان کیلئے خواتین کی تعلیم کے حوالے سے مزید بری خبر ہے۔ جبکہ دوسری طرف یونیورسٹی کی مافیا انتظامیہ، حکمران اشرافیہ اور ریاستی اہلکار جو اس گھناؤنے عمل میں شریک تھے کو ثبوت جو کہ ویڈیوز کی صورت میں جامعہ میں نصب خفیہ کیمروں اور موبائل ڈیوائسوں میں موجود تھے مٹانے میں کافی کامیابی ملی ہے۔ اس طرح پشتو محاورے کے مصداق ”نہ چور آیا تھا اور نہ چوری ہوئی تھی“ والا معاملہ بنا دیا جائے گا۔ لیکن اگر گھر لٹا تو کسی غریب کا لٹا، عصمت دری ہوئی تو کسی غریب لڑکی کی ہوئی جبکہ جامعہ بلوچستان اپنی مظلومیت کی تصویر پیش کرتی رہی۔

Roznama Jeddojehad
+ posts