عائشہ صدیقہ
کھٹمنڈو سے نئی دلی جانے والی فلائٹ آئی سی 814 کے خوفناک اغوا پر مبنی نیٹ فلکس سیریز پر،جو حال ہی میں ریلیز ہوئی،پاکستان کی جانب سے کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں ہوا۔ اس خاموشی کی وجہ بالکل واضح ہے: حکمران حلقے ملک میں جاری سیاسی ڈرامے میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی جہادی تاریخ بارے نیٹ فلکس کی اس یاد دہانی میں اس کے باوجود کسی نے دلچسپی ظاہر نہیں کی کہ اس سیریز میں آئی ایس آئی کے ہائی جیکنگ میں کردار پر زیادہ تنقید نہیں کی گئی۔
طیارہ اغوا کرنے میں ابتدائی طور پر ہائی جیکرز کو مدد فراہم کرنے میں تو آئی ایس آئی کو ملوث دکھایا گیا ہے مگر یہ سیریز بعد میں نیا موڑ لیتی ہے اور توجہ کا مرکز اسامہ بن لادن اور القاعدہ بن جاتے ہیں۔ طیارہ اغوا کرنے کی ذمہ داری ان حلقوں پر نہیں ڈالی جاتی جو اصل مجرم تھے۔ درحقیقت اس سیریز پر پاکستان کی خاموشی واضح کرتی ہے کہ ایک عرصے سے۔۔۔بالخصوص فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹفٌ) کی جانب سے لگنے والی پابندیوں کے بعد، جو اب اٹھا لی گئیں ہیں۔۔۔میڈیا کو اس طرح قابو کیا گیا ہے کہ عالمی جہاد میں پاکستان کے کردار بارے کسی قسم کی بحث نہیں ہوتی۔
نیٹ فلکس سیریز کا اختتام یوں ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی جانب سے ہائی جیکرز اور تین دہشت گردوں کی دعوت کی جاتی ہے۔ جن دہشت گردوں کا ذکر ہے ان میں جیش محمد کے مولانا مسعود اظہر، عمر سعید شیخ (جسے ا لقاعدہ سے بھی منسلک دکھایا گیا ہے اور جیش سے بھی) اور مشتاق زرگر زشامل ہیں۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ایسی کوئی دعوت ہوئی تھی یا نہیں۔ فلم میں دئیے گئے اس موڑ سے بہر حال اس حقیقت کی پردہ پوشی ہو جاتی ہے کہ اس گروہ کو پاک افغان سرحد پر طالبان نے پہنچایا جہاں سے یہ لوگ پاکستان فرار ہو گئے۔
مسعود اظہر اور جہادی دنیا
سال 2000 ء کے آغاز کی بات ہے۔ میں لاہور کی لبرٹی مارکیٹ میں تھی۔ایک گاڑی پر نصب سپیکر سے لوگوں کو ایک جلسے میں شرکت کی دعوت دی جا رہی تھی۔ جلسے کے مقررین میں مسعود اظہر اور رہائی پانے والے دیگر دہشت گرد شامل تھے۔ بھارتی قید سے رہائی پانے کے بعد، مسعود اظہر نے جیش محمد کی بنیاد رکھی۔انہیں ملک بھر میں اپنی تنظیم متعارف کروانے کے لئے کھلی چھٹی دی گئی۔ اس تنظیم کی تشکیل کا منصوبہ تب سے موجود تھا جب مسعود اظہر بھارتی جیل میں قید تھے۔ 1998-99 میں انتہا پسندی اور پر تشدد کاروائیوں پر تحقیق کے دوران، بہاولپور میں جو بہت سے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں نے دیکھے وہ جیش کی تشکیل سے پہلے کے تھے۔ مسعود اظہر کی بھارتی جیل سے رہائی، بشمول ہندوستانی ٹیم کے ساتھ مذاکرات،کی مانیٹرنگ اور کنٹرول آئی ایس آئی کے ہاتھ میں تھا نہ کہ بن لادن کے۔
سالہا سال، جیش کی سرگرمیوں بارے تو بہت کچھ رپورٹ ہوا مگر عالمی جہاد کے لئے جیش اور مسعود اظہر کی اہمیت اور کردار بارے تجزیہ نہیں کیا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی اور ملکی سطح پر مسعود اظہر اور جیش بارے جو کچھ لکھا گیا اس لٹریچر میں انہیں کشمیر میں جہاد تک ہی محدود رکھا گیا۔ جیش کے مجموعی فرقہ وارانہ تعصب کو اجاگر نہیں کیا گیا۔جیش خالص دیوبندی مسلح گروہ تھا جو فرقہ وارانہ دیوبندی سوچ کا بھی حامل تھا۔جیش پان اسلامک نصب العین میں بھی یقین رکھتا تھا۔جب میں نے جنوبی پنجاب میں جیش کے کچھ کارکنوں کے انٹرویو کئے تو اندازہ ہوا کہ وہ کس قدر شیعہ مخالف ہیں۔ یہ شیعہ دشمنی البتہٰ تنظیم کے لٹریچر میں نظر نہیں آتی تھی تا آنکہ 2018 میں ایران مخالف مضامین شائع ہوئے جو اس پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جیش نہ صرف شروع سے فرقہ وارانہ سوچ کی حامل تھی بلکہ عالمی جہاد کی بھی قائل تھی۔ صرف جہاد کشیر تک محدود نہ تھی۔ جیش کو فنڈ کرنے والوں اور آئی ایس آئی کے لئے اسی لئے تو جیش میں اتنی کشش تھی۔
اپنے مجموعی نصب العین بارے مسعود اظہر اور ان کی ٹیم کی سوچ ایک مخصوص حکمت عملی پر مبنی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ابتدا سے ہی جیش کو ایک بڑا کردار سونپا گیا تھا۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں جب مسعود اظہر کو لانچ کیا گیا تو وہ آئی ایس آئی کے لئے بھی اہم تھے اور عالمی جہاد کے لئے بھی۔ مثال کے طور پر جب 6 اگست 1993 ء کو وہ لندن پہنچے تو برطانوی مساجد و مدارس کے سب سے بڑے نیٹ ورک سے وابستہ علماء نے ان کا استقبال کیا۔
1993 ء میں مسعود اظہر محض حزب المجاہدین کے منتظم اعلیٰ نہیں تھے، جو جیس سے پہلے دور کی ایک دیوبندی تنظیم تھی،بلکہ عالمی دیو بندی کونسل کے بھی اہم رکن تھے۔ میرے ذرائع کے مطابق یہ کونسل سعودی عرب اور عرب دنیا میں موجود بعض قوتوں نے بنوائی تھی۔اس کا مقصد مختلف مسلح دیوبندی گروہوں میں اختلافات کا خاتمہ کروانا تھا۔ اس سال برطانیہ کے دورے کے دوران مسعود اظہر نے مسلح جہادی کاروائیوں کے بیج بوئے۔ اس دورے کے دوران مسعود اظہر نے اہم مساجد و مدارو میں تقاریر کیں جن میں یاد دلایا کہ ’جہاد کرنے والوں کو اللہ کی طرف سے فتح کا وعدہ کیا گیا ہے‘۔
چندہ جمع کرنے کے لئے کئے گئے اس برطانوی دورے کے دوران مسعود اظہر نے فنڈ بھی جمع کیا اور عمرسعید شیخ جیسے لوگوں کو بھی بھرتی کیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ دورہ القاعدہ کی تشکیل سے پہلے ہوا۔ اس طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسعود اظہر جہاد کشمیر میں شامل تھے۔ بعد ازاں یہ جہاد عالمی جہاد کا حصہ بنتا گیا اور جیش کی بجائے اس کے رابطے بن لادن اور القاعدہ سے گہرے ہوتے گئے۔
جہادی دنیا اور آئی ایس آئی کے لئے مسعود اظہر کی اہمیت گہرے تجزئے کا تقاضہ کرتی ہے۔ مسعود اظہر میں لوگوں کو قائل کرنے کی زبر دست صلاحیت تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 25 سال کی عمر میں انہوں نے مختلف الخیال علما ء کی زبردست حمایت حاصل کی۔ جہاں تک تعلق ہے آئی ایس آئی کا تو آئی ایس آئی کے نقطہ نظر سے مسعود اظہر کی اہمیت یہ تھی کہ وہ وسیع تر جہادی نیٹ ورک میں اہم مقام رکھتے تھے جو کشمیر میں مسلح کاروائیاں جاری رکھنے کے لئے اہم تھا۔دنیا بھر سے جنوب ایشیائی لوگوں کو بھرتی کر کے افغانستان اور کشمیر لانا، مسعود اظہر کی ایک ایسی صلاحیت تھی جس کی اہمیت بالکل عیاں ہے۔ پاکستانی انٹیلی جنس کے لئے اہم تھا کہ اس شخص کو بھارتی قید سے نکالا جائے اور اس کی سر پرستی کی جائے۔
پان اسلام ازم
پراوِن سوامی نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کہا ہے کہ مسعود اظہر کو رہا کروانے کے لئے کیا گیا آپریشن ایک اسٹریٹیجک غلطی تھی۔ کیا یہ دعویٰ درست ہے؟
سوامی کی اس دلیل میں در اصل مسعود اظہر کے جنرل مشرف،جو اس وقت فوجی سربراہ تھے، کے ساتھ اختلافات اور گیارہ ستمبر کے واقعات،جن کی وجہ سے پاکستان پر امریکہ کی گہری نظر تھی، جیسے عوامل کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ بعض دیگر عوامل پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔
مسعود اظہر آئی ایس آئی کے بعض اہم حلقوں میں بہت اہمیت اختیار کر چکے تھے۔ ان سے دامن جھاڑ لینا آئی ایس آئی کے لئے ممکن نہیں تھا حالانکہ مسعود اظہر پر الزام تھا کہ جنرل مشرف پر دو قاتلانہ حملوں میں ان کا ہاتھ تھا۔ بعض اعلیٰ پولیس افسر جن سے میں نے بات کی، نے بتایا کہ 2004 ء میں مسعود اظہر کی گرفتاری بارے جنرل مشرف کے واضح احکامات کی ڈرامائی انداز اور ہشیاری کے ساتھ خلاف ورزی کی گئی۔ پنجاب کاونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہل کاروں کو اندازہ ہوا کہ جس شخص کو گرفتار کیا گیا ہے وہ اصلی مسعود اظہر نہیں۔یہ حقیقت جنرل مشرف سے بھی پوشیدہ رہی۔ فوجی سربراہ کی نظروں سے دور رکھنے کے لئے، اصلی مسعود اظہر کو انڈر گراونڈ کر دیا گیا۔ اس واقعہ سے آئی ایس آئی کے اندر موجود کلچر اور نظم و ضبط کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جہاں بعض عناصر اس قدر طاقتور تھے کہ من مانی کرتے ہوئے فوجی سربراہ کی بھی پروا نہ کرتے تھے۔
بات یوں ہے کہ جہاد کشمیر پان اسلامک جہاد کا اہم حصہ تھا۔ اس لئے اس کی حکمت عملی پر کنٹرول ممکن نہیں تھا۔ ممکن ہے آئی ایس آئی کے اہل کار وں کا براہ راست گیارہ ستمبر کی منصوبہ بندی میں کوئی کردار نہ ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ جہادی گروہوں کی عمومی کاروائیوں سے بھی ان کا کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ بات بہر حال تھی کہ مختلف جہادی گروہوں کے کام کو کوئی واضح رخ دینے کے لئے یا انہیں کشمیر تک محدود رکھنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ یہ ممکن بھی نہیں تھا کیونکہ ہر گروہ کی اپنی ترجیحات تھیں۔ آئی ایس آئی کے کچھ اپنے اہل کار بھی تھے جو پان اسلامک نصب العین کے قائل تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ بارے شکوک و شبہات اور امریکہ سے ناراضی کی پاکستان میں گہری جڑیں ہیں۔
علاوہ ازیں، گیارہ ستمبر کے بعد،ابتدائی طور پر توقع یہی تھی کہ امریکہ افغانستان پر بن برسائے گا اور چلا جائے گا۔
اس صدی کے آغاز، بلکہ کچھ عرصہ بعد میں بھی، مختلف جہاد اور جہادی ایک دوسرے سے نتھی تھے۔ مثلاََ عمرسعید شیخ القاعدہ سے قریب سمجھا جاتا تھا مگر وہ جیش کے بھی انتہائی قریب تھا۔ 2002 ء میں،جب بہاولپور میں مسعود اظہر کے پتے کی سرجری ہوئی تو مسعود اظہر کی دیکھ بھال کرنے والوں میں عمرسعید شیخ بھی شامل تھا۔
گیارہ ستمبر کے بعد جو حالات بنے اس کے نتیجے میں پاکستان میں مقیم مسعود اظہر جیسے جہادیوں پر کچھ قدغنیں لگیں،جو پھر جہاد کشمیر میں مشغول ہو گئے مگر عالمی جہاد سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسعود اظہر کہ وہی اہمیت ہے جو بن لادن کی تھی۔ بن لادن زیادہ بدنام ہوئے جس کی ایک وجہ گیارہ ستمبر تھی اور دوسری وجہ دہشت گردی کے لئے بن لادن کی بیش بہا فنڈنگ۔
جہاد بارے دستیاب لٹریچر میں مسعود اظہر کے کردار پر از سر نوغور کرنے کی ضرورت ہے۔اپنے کیرئیر کے آغاز میں جس طرح مسعود اظہر نے برطانیہ میں جنوب ایشیا سے تعلق رکھنے والی مساجد و مدارس کو استعمال کیا اس کی عالمی جہاد میں اہمیت بعض عرب اماموں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی اب بھی مسعود اظہر کی حفاظت پر مامور ہے۔آئی ایس آئی کو شائد آج بھی امید ہے کہ کشمیر میں کسی روز بھی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
(بشکریہ: دی پرنٹ۔ترجمہ: فاروق سلہریا)