فرحت االلہ بابر
ترجمہ: ایف ایس
مارکسی نظریات کے باعث لال خان کے نام سے معروف کامریڈ ڈاکٹر یثرب تنویر گوندل کی وفات پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کا جائزہ لینے کا بھی ایک موقع ہے۔ چکوال کے ایک آرمی کرنل کے بیٹے لال خان ایک درجن سے زیادہ کتب کے مصنف تھے، بشمول”تقسیم ہند: کیا اسے کالعدم کیا جاسکتا ہے؟“۔ وہ بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ایک سیاسی کارکن تھے۔ جنرل ضیا کے مارشل لا کے دوران ملتان نشتر میڈیکل کالج کے ایک نوجوان طالب علم لال خان کو مارکسسٹ خیالات رکھنے کے الزام میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ رہائی کے بعد وہ مختصر عرصے کیلئے راولپنڈی میڈیکل کالج میں زیر تعلیم رہے تاہم جلد ہی نیدرلینڈز چلے گئے کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ جابر حکومت کے زیراثر ماحول گھٹن کا شکار ہے۔ انہوں نے ایمسٹرڈیم میں اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کی۔ وہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے دوران پاکستان واپس آئے لیکن انہوں نے میڈیکل پریکٹس کی بجائے بائیں بازو کی سیاست کو فروغ دینے کے لئے جدوجہد گروپ تشکیل دیا۔ ’ایشین مارکسٹ ریویو‘ کی ادارت کی، ’مزدور جدوجہد‘ کا آغاز کیا اور جب تک زندہ رہے اپنے مقصد کے لئے لڑتے رہے۔
بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ کسی اور سیاست دان نے لال خان یا ان سے قبل وفات پانے والے بائیں بازو کے دانشور جام ساقی کے انتقال پر کچھ نہ کہا۔ بائیں بازو کے سیاستدانوں اور دانشوروں سے ریاست اور معاشرے کی اس بے حسی کو بعض نے پاکستان میں بائیں بازو کے زوال کے طور پر دیکھا ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بائیں بازو کی مشکلات اجاگر کرنے والی سوچ نے پیسے بٹورے، 1980ء کی دہائی میں چین منڈی کی معیشت جبکہ پاکستان مذہبی انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان سب عوامل نے پاکستان میں بائیں بازو کو ایک مہلک ضرب لگائی لیکن کیا بایاں بازو کہیں خود تو غیر متعلق نہیں ہو چکا؟
اگرچہ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں بایاں بازو بدلتے وقت کو اپنانے میں ناکام رہا اور ہر بات کی مذمت کرتے ہوئے اپنے پرانے نعروں سے چمٹا رہا۔ امریکہ نامنظور، سامراج نامنظور، اسٹیبلشمنٹ نامنظور اور سب کچھ نامنظور۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی بھی مخالفت کی، ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے بہت دیر سے اور بہت اختصار کے ساتھ سوشلزم کا اعتراف کیا۔ بلاشبہ ’نامنظور‘ کے نعروں نے جذبات کو متاثر کیا لیکن اس سے لوگوں کے فوری مسائل حل نہیں ہوئے۔ بائیں بازونے مذہبی انتہا پسندی کی طرف بھی توجہ نہ دی جس میں انسانی بموں نے مساجد سے لے کر گرجا گھروں تک اور بازاروں سے لے کر اسکولوں تک سب کچھ اڑا دیا گیا۔ تاہم بائیں بازو کی اس ناکامی یا اس کے خلاف بے حسی کا مطلب یہ نہیں لیا جانا چاہئے کہ وہ پاکستان میں اپنی آخری سانسیں پوری کر گیا۔ سوشلزم اور سوشلسٹ نعروں کی جاذبیت انسانی تاریخ میں کبھی ماند نہیں پڑی۔ ایک بیانیہ بنایا جاسکتا ہے کہ یہ سوشلزم اور سوشلسٹ نعرے ہی تھے جنہوں نے یورپی سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں سماجی تحفظ کے نظام کو متاثر کیا۔
انسانی تاریخ ناانصافیوں، عدم مساوات اور محروم اور مراعات یافتہ طبقات کے درمیان وسیع اختلافات کی تاریخ ہے۔ جب تک یہ ناانصافیاں برقرار ہیں لوگوں کی زبان پر سوشلسٹ نعرے گونجتے رہیں گے۔ پاکستان جیسے ممالک میں ایک طرف معاشی محاذ پر امیر اور غریب کے مابین وسیع خلیج ہے اور دوسری طرف سیاسی محاذ پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ دائیں بازو اور ترقی پسند سیاسی قوتوں کے مابین کشمکش رہتی ہے۔ جب تک یہ اختلافات برقرار رہیں گے، جمود کو چیلنج کرنے والے بائیں بازو کے نعرے لوگوں کو اپیل کرتے رہیں گے۔
پاکستان کو پہلے سے زیادہ بائیں بازو کی سیاست کی ضرورت ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور انتہاپسند دائیں باوز کے تین دہائیوں سے نافذ کردہ ضابطہ اخلاق نے ریاست اور معاشرے کو غیر انسانی شکل دے دی ہے۔
سب کے لئے انصاف کے ساتھ اپنی مستقل مطابقت اور ساتھ ہی آرٹس، موسیقی اورادب سمیت ہر طرح کے انسانی اظہار کو فروغ دینے کے باعث بایاں بازو ہمیشہ ہر دور سے مطابقت رکھتا ہے۔ بایاں بازو نہ تو مذہب ہے نہ قومیت اور نہ ہی نسل پرستی البتہ جب مذہب یا نسل پرستی کے نام پر خون بہایا جاتا ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے بایاں بازو بہترین پلیٹ فارم ہے۔ سیاسی جماعتیں اور مزاحمت کی سیاست گذشتہ دہائی کے دوران کمزور ہوئیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اپنے اقتدار اور مراعات کو برقرار رکھنے کے لئے جمود سے وابستہ ہے۔ اس منظر نامے میں بایاں بازو ایک امید کا شاخسانہ ہے اور وہ قوم کو ایک ضابطہ اخلاق پیش کرتا ہے جس کی مدد سے 1980ء کی دہائی سے شروع ہونے والی معاشرتی شکست و ریخت کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں ایک متحد اور توانا بائیں بازو کی ضرورت ہے جو ریاست اور معاشرے کے لئے اہم معاملات سے متعلق قومی بحث کو دوبارہ مرتب کرے۔ وہ مقاصد جو زیادہ اہم ہیں ان میں خطے میں امن کا قیام، ہمسایہ ممالک سے عداوت کا خاتمہ، جہاد کی سرپرستی کا خاتمہ، انسانیت پسندی، بنیادی انسانی حقوق اور سب کے لئے معاشی انصاف کو آگے بڑھانا شامل ہیں۔ اگر پاکستان کو انقلاب کی بجائے اصلاح کی ضرورت ہے تو اس کو بحث و مباحثہ اور اختلاف رائے سے سن کر ممکن بنایا جا سکتا ہے جو بائیں بازو کا ایک اہم ہتھیار ہے۔ یہ انقلاب لانے کے دعویدار خود ساختہ مذہبی انتہا پسندوں کا تقابل ہے۔ عقلی بحث و مباحثے اور خودساختہ راستبازی کے مابین اس لڑائی میں فکر کی بھی وضاحت ہونی چاہئے۔ مذہبی انتہا پسندوں کا ہدف نہ مذہب ہے اور نہ ہی آزادی۔ وہ ریاستی ڈھانچے کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور خود ریاست کا اقتدار سنبھالنا چاہتے ہیں۔ نظریات کی اس جنگ میں بائیں بازو کو مذہب کے منافی ہونے کے بجائے دائیں بازوں کی جدلیات کا استعمال کرنا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بائیں بازو کو انتہائی دائیں بازو کے سیاسی بیانئے کا بخوبی اندازہ ہونا چاہئے۔ انتہا پسندی کا سیاسی بیانیہ یہ ہے کہ مذہب قومی ریاست کے تصور کی تائید نہیں کرتا لہٰذا ایک خلیفہ کے ماتحت تمام مسلمانوں کی ایک ہی ریاست ہونی چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ جمہوریت مذہب سے تعلق نہیں رکھتی اور اکثریتی ووٹ لینے والے کی بجائے متقی اور مذہبی شخصیت حکمرانی کی حقدار ہے۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ کفر اور ارتداد موت کے حامل قابل سزا جرم ہیں اور اس سزا پر عمل درآمد ان کا فرض اور حق ہے۔ اس بیانئے کو چیلنج کرنے کے لئے اپنی مشکلات میں محصور بائیں بازو کو دوبارہ منظم ہونا ہو گا۔
پاکستان کے بائیں بازو کی ضرورت ہے کہ وہ اس بیانئے کو چیلنج کرے، اختلاف رائے اور بحث و مباحثہ کے لئے ماحول پیدا کرے اور اختلافی مسائل کو حل کرنے کے لئے متبادل نکتہ نظر کو سامنے لائے۔ ہمیں اس بائیں بازو کی ضرورت ہے جو لوگوں کو مثبت سمت دکھانے میں معاون ثابت ہو۔ حال ہی میں کچھ ترقی پسند سیاسی جماعتوں نے بائیں بازو کی سیاست کو تقویت دینے کے لئے ہاتھ ملانے کی بات کی تھی۔ اس گفتگو کو لازمی طور پر آگے بڑھنا چاہیے۔