نقطہ نظر

چینی لاک ڈاؤن میں ایک پاکستانی طالب علم کے شب و روز

عظمت آفریدی

میں دو سال سے چین کے دارلحکومت بیجنگ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہوں۔ دسمبر2019ء کے اواخرمیں کرونا وائرس کی خبریں سامنے آئیں۔ تب تک پہلے ہی سے ہماری سردیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھی۔ بیجنگ کی 21ملین آبادی میں بہت زیادہ تعداد دوسرے صوبوں یادیہی علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کی ہے۔ چین کا سب سے بڑا تہوار”سپرنگ فسٹول“ بھی 24 جنوری کو ہورہاتھا۔ اس لئے زیادہ ترلوگ شہروں سے اپنے آبائی علاقوں کوجانے کی تیاریاں کررہے تھے۔ اچانک کرونا وائرس کی خبر آنے سے ہم سب شدید پریشان ہوگئے۔

ایسے حالات میں گھر والے بھی پریشان ہوجاتے ہیں اور باربارفون کرکے کہتے تھے کہ فوراً پاکستان آجاؤ۔ ہمارے بہت سے دوست توفوراً چلے بھی گئے۔ ہم وسائل کی کمی، ڈگری کی تکمیل میں چند ہی ماہ باقی رہ جانے اورریسرچ تھیسیز پرکام کرنے کی وجہ سے رکے رہی۔ ایک سوچ یہ بھی تھی کہ چونکہ چین ترقی یافتہ ملک ہے تو وائرس کوقابوکرلے گا۔ ہم بیجنگ ہی میں ٹھہرے رہے لیکن چند ہی دنوں میں بیجنگ خالی ہوگیا، مارکیٹیں بند ہوگئی اور گلیاں جوبہت ہی مصروف رہتی تھیں اچانک سے ویران ہوگئیں۔ بیجنگ کی سینکڑوں فیکٹریاں اور چھ ملین گاڑیاں بھی شائد رک گئیں اور شہر کی آلودہ فضا صاف ہوگئی۔ ہم اپنے ہاسٹل کے چھت سے پہلی دفعہ اردگرد کی پہاڑیاں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تقریباً وہی پہاڑ ہیں جن پر دیوار چین کے کچھ حصے موجود ہیں۔

اشیا خوردو نوش کی قیمتیں تین سے پانچ گنابڑھ گئیں۔ ماسک اورہاتھ دھونے والے سینیٹائزرمارکیٹوں سے تقریباً غائب ہوگئے۔ ہماری یونیورسٹی نے بہت سخت رولزنافذ کئے۔ ہم سب کا سفری ڈیٹا اکھٹا کیاگیا۔ اب ہم ہفتے میں صرف دو گھنٹے کے لئے ہاسٹل سے نکل سکتے ہیں۔ صبح وشام سٹاف ہمارا بخارچیک کرتا ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً ہر جگہ، مارکیٹ، بس یا ٹرین سٹیشن میں داخل ہوتے وقت ٹمپریچر چیک کیا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر عام بخار بھی ہو تو یہ ہمیں ہسپتال زبردستی لے جاسکتے ہیں۔ وہاں جانے سے ہم ڈرتے ہیں کہ اگر کرونا وائرس نہ بھی ہوا تو ہوجائے گا۔

یونیورسٹی کے اندر تمام راستے بند کئے گئے ہیں، سوائے ایک راستے کے۔ اسی طرح یونیورسٹی سے باہر تمام مقامات پر پولیس کی چوکیاں بنائی گئی ہیں۔ مارکیٹ تک جاتے ہوئے کم ازکم دس دفعہ بخارچیک کیاجاتاہے۔ میں مذاق میں اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ یہ چیک پوسٹس فاٹا سے میرے پیچھے یہاں بھی آ گئی ہیں وہاں فوجی چیک پوسٹوں کے ایک جال سے گزرنا پڑتاتھا، یہاں طبی چیک پوسٹوں کا جال ہے۔ ہمارے ہاسٹل میں روزانہ پانچ دفعہ سپرے کرتے ہیں۔ اسی طرح باہرتمام مقامات پر بھی یہ سپرے کیا جاتا ہے۔ پتہ نہیں اس کاکوئی فائدہ ہے بھی یانہیں کیونکہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کرونا وائرس ایک ائربورن (ہوا سے پھیلنے والی) وبا ہے کہ نہیں۔

شروع شروع میں ہمیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ چائنہ کے ساتھ پاکستان کی بہت آمدورفت ہے تو اگر یہ وائرس وہاں گیاتو بہت نقصان کریگا کیونکہ نہ توہماراہیلتھ سسٹم کسی کام کاہے اور نہ ہی لوگوں کو اس طرح کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں جیسے چین نے کیا۔ پاکستانی ریاست عام لوگوں کو دقیانوسی سوچ میں مبتلا رکھے ہوئے ہے اور میڈیا پر غلط معلومات پھیلانا عام ہے۔ اب یہ جان کر عجیب لگتاہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس ایران سے آیا نہ کہ چین سے۔

اس دوران دنیا اور خصوصاً پاکستان میں میڈیاپرجھوٹی خبروں کا بھی بہت چرچارہا۔ چین کا میڈیا تو ریاست کے کنٹرول میں ہے اور جعلی خبروں کو آسانی سے نہیں پھیلایا جا سکتا۔ لوگ حکومت کی طرف سے مہیاکردہ معلومات پرہی گزارہ کرتے ہیں۔ یہاں لوگ مذہبی یابنگالی بابے پرتویقین نہیں کرتے البتہ ان بچاروں کو بھی ریاست، پارٹی یا نوکرشاہی کے مختلف بابوں کاسامناہے۔

اس دوران اپنے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے چین ہمیشہ کی طرح مغربی میڈیا کی چین میں کرونا وبا کے حوالے سے ہونے والی کوریج پرلعن طعن کرتا رہا ہے۔ اب بات یہ ہے کہ چین کا اپنی اقلیتوں (ایغورمسلمانوں) پر جبر اور ہانگ کانگ وغیرہ کی وجہ سے ریکارڈاچھا نہیں ہے توباہر دنیا کے لوگ چین کے احتجاج پر اتنی توجہ نہیں دیتے۔ چین ڈنمارک کے ایک اخبارمیں چھپے کارٹون جس میں چین کے جھنڈے پر موجودپانچ تارے کرونا وائرس سے تبدیل کئے گئے تھے پر بہت غصہ ہوا۔ گویا چائنہ کوبھی پاکستان کی طرح کارٹونوں سے چھیڑ ا جا سکتا ہے۔

کرونا وائرس کی بدولت ہم نے اچانک عجیب نئی نئی عادتیں بھی دریافت کیں جیسا کہ ہاتھ نہ ملانا بلکہ بہت قریب ہی نہ آنا، دور سے ہاتھ ہلانا، نفسیاتی مریضوں کی طرح باربار ہاتھ منہ دھونا، دروازے پاؤں سے کھولناحتی کہ لفٹ کے بٹن بھی پاؤں یا کہنی سے دبانا وغیرہ۔

پاکستانی سفارتخانہ جو ہمارے ہاسٹل کے بہت ہی قریب واقع ہے، نے کبھی ہماری خبر نہیں لی۔ ہم نے یونیورسٹی سے درخواست کی کہ ہمیں ماسک کہیں سے پیدا کرکے دیں۔ ہمارے دوستوں نے پاکستان سے ماسک بھیجنے کی کوشش کی لیکن چین کے سفارتخانے نے معذرت کر لی۔ تاہم پچھلے ہفتے یونیورسٹی نے ہمیں ماسک فراہم کردئے۔ گو حالات معمول پرآرہے ہیں تاہم ہم پر اب بھی باہر جانے کی پابندیاں برقرار ہیں۔ ہم کلاسزآن لائن لے رہیں ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر انتظامیہ ہمیں میسجز کرتی ہے کہ ہم کہیں جانے سے گریز کریں اور اگر اپنے اپنے ملکوں میں ہیں تو چین نہ آئیں۔

اس بورنگ اورپرخطر ٹائم کو گزارنا تو ہے۔ میں نے ایک ریسرچ پیپر شائع کیا، بہت ساری کتابیں پڑھیں اور کھانا پکانے پر توجہ دی۔ بہت سے دوست نیٹفلکس کیساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ روزمرہ معمولات سے اچانک تمام ترتیب یا پھر مقصدیت کہئے، غائب ہو گئے ہیں۔ ہمارے معمولات بھی بالکل بدل گئے ہیں۔ پورا دن سوتے رہتے ہیں جبکہ رات کو ہمارا دن ہوتا ہے۔ ہفتے میں ایک دن سورج کا دیدارکرتے ہیں وہ بھی اگر بادل نہ چھائے ہوں۔

دریں اثنا عمران خان نے یہ کہہ کر ہمارے لئے بہت آسانی پیدا کی کہ ہم کرونا وائرس کوایمانی طاقت سے بھگارہے ہیں۔ اب جب پاکستان میں موجود پاکستانی دوست فرمائش کرتے ہیں کہ ہم انہیں چین سے ماسک اور سینیٹائزر بھیجیں تو ہم کہتے ہیں بھائی ایمان مضبوط کرو اور چونکہ چین میں توایمان ہے نہیں اس لئے ہم اپنے پاکستانی دوستوں کی زیادہ مدد نہیں کر پا رہے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ پوری دنیا مل کر سائنس اورعقل کی مدد سے اس وائرس کو مات دیدے گی، زندگی واپس پرانی ڈگر پہ آجائے گی ہاں مگر معاشی نقصانات سے نکلنے میں وقت لگے گا۔

چین میں بیٹھ کر اکثر یہ بھی سوچتا ہوں کہ شائد پاکستانی شہروں کے رہائشی اب یہ محسوس کرسکیں کہ قبائلی علاقوں، غزہ اور کشمیر کے باسی متعلقہ ریاستوں کے نافذ کئے ہوئے لاک ڈاؤنز میں کس مشکل اور ذلت کے ساتھ زندہ ہیں۔ اسی طرح پاکستانی رائے دہندگان بھی شائد یہ سیکھیں کہ میزائلوں اورٹینکوں سے زیادہ ہسپتالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

Azmat Afridi
+ posts

عظمت آفریدی نے پشاور یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ایم اے کیا ہے۔ وہ سیاسیات، معاشیات، مذاہب اور تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔