تاریخ

پھانسی گھاٹ پر میکڈونلڈز

فاروق سلہریا

مندرجہ بالا تصویر کو دیکھئے۔ یہ راولپنڈی کا جناح پارک ہی نہیں۔ طمانچے کی شکل میں یہ ہماری تاریخ کا بھیانک خلاصہ بھی ہے۔ یہ تصویر تجسیم ہے سول ملٹری تعلقات، پیپلز پارٹی کی محنت کشوں اور اپنے ہی نظریات سے غداری، مڈل کلاس کی بیگانگی اور تاریخ کے قتل کی۔ جہاں آج جناح پارک ہے وہاں کبھی ڈسٹرکٹ جیل تھی۔ جیل میں پھانسی گھاٹ تھا۔ اسی پھانسی گھاٹ پر ضیا آمریت نے بھٹو کو عدالت کی مدد سے شہید کیا تھا۔

بزدل قاتل ہمیشہ شہید کی لاش سے خوف کھاتے ہیں۔ اس ڈر سے کہ کیمپ جیل میں بھٹو کا مزار نہ بن جائے، جیل کی عمارت گرا دی گئی۔ 1988ء میں بے نظیر کی قیادت میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو پھانسی گھاٹ کے مقام پر چار مینار تعمیر کئے گئے۔ ایک یادگار بنائی گئی۔ چار مینار، چار صوبوں کی علامت تھے۔ ان دنوں پیپلز پارٹی کا نعرہ بھی تھا ”چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر بے نظیر۔“

جی ہاں! میں مندرجہ بالا تصویر کے پس منظر میں نظر آنے والے سفید میناروں کی بات کر رہا ہوں۔

پیپلز پارٹی کی اس حکومت کو جلد ہی رخصت کر دیا گیا۔ 1993ء اور 2008ء میں پیپلز پارٹی دو بار اقتدار میں آئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد یا اس سے پہلے، پھانسی گھاٹ اس جماعت کی قیادت کو کبھی یاد نہ آیا۔ بھٹو کی اولاد کو پھانسی گھاٹ یاد رہا ہو یا نہ رہا ہو، ضیا آمریت کی اولاد کو اچھی طرح یاد تھا۔ ناصر زیدی، جن کو تین صحافیوں کے ہمراہ ضیا آمریت میں کوڑوں کی سزا ہوئی، بتاتے ہیں کہ 1990ء میں جوں ہی نواز شریف کی پہلی حکومت بنی، اس نے اس پارک کا نام بھٹو پارک کی بجائے جناح پارک رکھ دیا۔ ناصر زیدی ان دنوں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ ’جدوجہد‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارک کا نام ”جناح پارک“ رکھا گیا تاکہ اگر کبھی کسی کو بھٹو کی قربانی کا خیال آئے تو بھی پارک کا نام تبدیل نہ کر سکے۔

بھلا اس سے بڑی غداری اور کیا ہو گی کہ بابائے قوم کے نام سے منسوب کسی جگہ کا نام تبدیل کر دیا جائے؟

بات یوں ہے کہ جمہوری مزاحمت کی یادگاریں آمریت کا خاص نشانہ ہوتی ہیں۔ سالہا سال تک اس پارک پر کسی کی نظر نہیں گئی۔ پھر یوں ہوا کہ مشرف آمریت آ گئی۔ پارک پر توجہ بڑھ گئی۔ اب اس پارک میں ایک سینما ہے جہاں ہالی وڈ، بالی وڈ (جب بھارتی فلموں پر پابندی نہ ہو) اور آئی ایس پی آر کے ”تعاون“ سے بنائی گئی لالی وڈ کی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ سینما کا ٹکٹ اس قدر مہنگا ہے کہ محنت کش لوگ تو ادھر کا رخ بھی نہیں کرتے۔ پاس میں میکڈونلڈز ہے۔ نیو لبرل معیشت اور فوجی آمریتوں سے مستفید ہونے والے متوسط طبقے کا فلم دیکھنے سے پہلے یا بعد میں میکڈونلڈز جانا تو بنتا ہے۔

اپنی آخری تقریر میں بھٹو نے امریکہ سے (غلط طور پر) کہا تھا کہ ”پارٹی از ناٹ اوور۔“ امریکہ، فوجی آمریت اور مراعات یافتہ طبقوں نے محنت کش طبقے کی پارٹی پر 1977ء میں جو شب خون مارا تھا، بھٹو کے پھانسی گھاٹ پر بنا ہوا میکڈونلڈز اور اس میں کولا کے ساتھ بے مزابرگر کھانے والے بے فکرے مڈل کلاسئے اس شب خون کا تسلسل ہیں۔

پارٹی از اوور۔ بھٹو ابھی بھی پھانسی پر لٹکا ہوا ہے!

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔