قیصر عباس
امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افریقی نژاد امریکی جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی مشکلات میں بے انتہا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
یو ایس پریس فریڈم ٹریکر کے مطابق پورے ملک میں میڈیا کی آزادی کی 280 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ ان واقعات میں 45 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا اور سینکڑوں پر گیس اور ربر کی گولیوں کے حملے کئے گئے جن کے نتیجے میں لاتعداد صحافی زخمی ہوئے ہیں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے بھی ان واقعات پرگہری تفتیش کا اظہا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان خطرناک اقدامات کے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیاکے تمام ملکوں میں منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جول سائمن نے کہا ہے کہ”حقیقت یہ ہے کہ میڈیا کے خلاف مظاہرین کے بڑھتے ہوئے رویوں اور پولیس کے فوجی انداز کے جارحانہ اقدامات نے ان مظاہروں کی کوریج کو صحافیوں کے لئے انتہائی خطرناک بنادیا ہے“۔
ادھر انٹر نیشنل سینٹر فار جرنلسٹس (آئی سی ایف جے) نے جمعہ کو واشنگٹن ڈی سی میں ایک آن لائن مذاکرے میں انہی خدشات کی تصدیق کی ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ملٹی میڈیا جرنلسٹ احمر خان نے، جنہیں حال ہی میں کشمیر میں کوریج پر انسانی حقوق کا پریس ایوارڈ بھی ملا ہے، مذاکرے میں کہا کہ مظاہروں کی کوریج میں اکژاوقات’ناپسندیدہ‘صحافیوں کو خصوصی طورپر ہراساں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انڈیا کی ریاست آسام میں بین الاقوامی میڈیا پر پابندی ہے جہاں حکومت اور باغیوں کی جنگ کی کوریج کے دوران میری رہائش پر رات کے وقت پولیس نے چھاپہ مار کر مجھے ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”کشمیر میں مجھے اس لئے بھی ہراساں کیاجاتا ہے کہ میں بیک وقت کشمیری بھی ہوں اور مسلمان بھی“۔
انہوں نے بتایاکہ”کشمیر میں فون اور انٹرنٹ کی سہو لتیں ناکافی یا میسر نہیں ہیں جس کی بنا پر ہمیں اپنی رپورٹیں اداروں تک پہنچانے کے لئے دہلی جانا پڑتا ہے“۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ”سپر پاور ہونے کی وجہ سے امریکہ میں جوکچھ ہوتا ہے اس کا اثر انڈیامیں ضرور ہوتا ہے جو آجکل بھی ہورہاہے اور میڈیا ورکرز کے لئے آئے دن نئے خطرے جنم لے رہے ہیں“۔
پروگرام میں ایک امریکی فوٹوگرافر لنڈا ٹراڈو نے بھی شرکت کی جن کی ایک آنکھ مظاہرے کی کوریج کے دوران گولی لگنے سے ضائع ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا ”زیادہ تر امکان یہی ہے کہ پولیس نے مجھے ایک صحافی ہونے کے ناطے تشدد کا نشانہ بنایا کیوں کہ میری نشاندہی بہت آسان تھی۔ میں ایک فری لانس فوٹوگرافر ہوں اور کسی میڈیا کمپنی سے منسلک نہ ہونے کی بنا پر میری ہیلتھ انشورنس بھی نہیں ہے۔ میرے علاج پر پانچ ہزار ڈالر کا خرچ آرہاہے جو مجھے خود برداشت کرنا ہوگا“۔
ڈٹرائٹ فری پریس (Detroit Free Press) کے رپورٹر برنڈن ہنٹر نے پروگرام میں کہا کہ ”ایک نوجوان افریقی نژاد امریکی ہونے کی بناپر انہیں مظاہروں کی کوریج میں خاصا محتاط ہونا پڑتا ہے“۔
سی پی جے کی ایمرجنسی ڈائریکٹر ماریہ سلازار فیرو بھی مذاکرے میں شریک تھیں جنہوں نے کہاکہ ان کی تنظیم صحافیوں کے تحفظ کے لیے ٹریننگ اور کمپئین چلارہی ہے۔ ان کے مطابق”اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ میں صحافیوں کے ساتھ اس تشدد کا اثر دوسرے ملکوں میں بھی دیکھا گیاہے۔ چین، تھائی لینڈ اور برازیل کے علاوہ دیگر کئی ملکوں میں بھی امریکی مظاہروں کے بعد میڈیا کی آزادی پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں جو رپورٹرز کے لئے انتہائی خطرناک ہیں“۔
مبصرین کے مطابق دنیا بھر میں میڈیا مالکان، صحافیوں اور ان کے رفقا کار پر حکومتوں کی پابندیوں کا حلقہ روز بروز تنگ ہوتا جارہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ میں صحافیوں پر حالیہ تشدد نے عالمی سطح پر بھی میڈیا کی کارگردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔