راجہ مظفر
کشمیر کے سب ہی خطوں میں رہنے والے چاہے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی، یا مذہبی فرقہ سے ہو خود کو 13 جولائی 1931ء کے شہدا کا وارث قرار دیتے ہیں اور اس دن کو استحصال، جبر و استبداد اور غلامی کے خلاف ایک قومی دن کے طور پر مناتے ہیں۔
گذشتہ 72 سال میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ کسی بھارتی حکومت نے اپنے زیر قبضہ کشمیر میں ان 22 کشمیری شہدا کی یاد میں روایتی تقریبا ت پر پابندی لگا کر اس روز کی سرکاری چھٹی بھی منسوخ کر دی گئی۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام سے اس دن کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ 13 جولائی 1931ء کو شہادت کا رتبہ پانیوالے 22 شہدا ریاست جموں کشمیر کے اندر اورباہر ریاست کے تمام ہی مذاہب اور سیاسی مکاتب فکر کا مشترکہ سرمایہ رہے ہیں۔
بھارت، پاکستان اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے چند نام نہاد دانشور 13 جولائی 1931ء کے واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو کشمیر کی تحریکِ آزادی یامسئلہ کشمیر کو 1947ء میں رونما پذیر ہونے والے واقعات سے جوڑتے ہیں جن کے نتیجہ میں برٹش انڈیا تقسیم ہوا۔
اس دن کے حوالہ سے تفصیلات سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ ایک عام بات جو آپ کو اس دن کے حوالہ سے پڑھنے اور سننے کو ملتی ہے کہ اس دن پونچھ میں توہین ِقرآن پاک کے ایک واقعہ کے ردِ عمل میں سرینگر کے مسلمانوں کا ایک احتجاجی اجتماع خانقا معلی سرینگر میں منعقد ہوا، جس میں ایک غیر ریاستی باشندے عبدالقدیر نے تقریر کی، مہارا جہ ہری سنگھ کی حکومت نے اس احتجاجی تحریک کو جبراً کچل دینے کا فیصلہ کیا اوردیگر جابرانہ اقدامات کے علاوہ عبدالقدیر کیخلاف 124 الف (بغاوت) کا مقدمہ چلایا گیا۔
عوام اس قدر مشتعل تھی کہ حکمرانوں کو کھلی عدالت میں یہ مقدمہ چلانے کی ہمت نہ ہوئی اورسینٹرل جیل سری نگر کی چار دیواری کے اندرہی مقدمہ شروع کیا گیا۔ تاریخ پیشی پر شہر سری نگر اورمضافات کے ہزاروں لوگ مقدمہ کی کارروائی سننے کے لئے جیل کے سامنے جمع ہوگئے۔ سماعت کے دوران باہر لوگوں کا ہجوم نماز کی ادائیگی کی تیا ری کررہا تھا تو سپاہیوں نے جیل کی دیوار پرکھڑے ہوئے اذان دینے والے شخص کو گولی مار کرشہید کردیا اور اس کے بعد اندھا دھند فائرنگ سے مزید 20 افراد کو شہید کردیا گیا۔ سچ یہ ہے کہ یہ کوئی حادثاتی سانحہ نہیں تھا بلکہ صدیوں کی مسلسل مزاحمت کا ایک خونیں مگر پہلا پڑاؤ تھا۔
تایخ کا گہرائی سے مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مہاراجہ کشمیر نے اس صورت حال سے سیاسی ا نداز میں نمٹنے کی بجاے اسے مسلمانوں کی بغاوت سمجھا۔ مہاراجہ نے اس واقع کو اپنی انا کا مسئلہ بنا یا اور وہ راہ اختیار کی کہ جس کے نتیجہ میں نہ تووہ ریاست پر اپنا اقتدار قائم رکھ سکا نہ ریاست کوجبری تقسیم سے بچا سکا۔ تاریخ کے نزدیک مہا راجہ ہری سنگھ بدقسمت ترین والیئ ریاست ثابت ہوا۔ اسے تاریخ میں امر ہو جانے کا سنہری موقع ملا مگر اس نے تاریخ میں امر ہوجانے کا موقع کھو کر اپنے آپ کو تاریخ کے سیاہ باب کاحصہ بنا لیا۔
آپ سوچ میں پڑ گئے ہونگے کہ ایسا کونسا موقعہ تھاجو مہاراجہ نے کھویا؟ اس واقعہ کو جاننے کے لئے ایک پس منظر بیان کیاجانا ضروری ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور سے قبل ہی کئی صدیوں سے مغلوں، افغانوں، سکھ اور ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیری عوام سے ظلم و جبر کا رویہ روارکھا ہوا تھا اور جموں کشمیر کی ریاست براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت نہ تھی۔ ایک نیم آزاد شخصی ریاست تھی۔ ا س لحاظ سے کشمیر میں ڈوگرہ راج ہندوستان میں برطانوی راج سے مختلف تھا جس سے ہندوستان میں رہنے والے عام لوگوں کوئی خاص علم نہ تھا۔
مہاراجہ پر تاب سنگھ کے مظالم سے ہندوستان میں تاج برطانیہ کے کل پرزے ضرورآگاہ تھے۔ اس لئے انہوں نے برٹش انڈیا اور دیگر شخصی ریاستوں کے جانشینوں کی طرح مہاراجہ ہری سنگھ کو حکمرانی کی تربیت لندن کے چیف کالج میں کی تا کہ اسے انداز حکمرانی کے وہ طریقے سکھائے پڑھائے جائیں جن سے عوام کے دل بھی جیتے جائیں اور حکمرانی بہتر ہو۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے بہترین تربیت پانے کے بعد واپس آ کراسی برطانوی تربیت کی وجہ سے نظام حکومت میں بعض اصلاحات کیں جو قابلِ تعریف سمجھی گئیں مگر انہوں نے مجموعی طور مسلمانوں کی حالت زار بدلنے میں کوئی بڑا اقدام نہ اٹھایا۔
جموں کشمیر میں بے چینی جس کا آغاز پونچھ جاگیرکے علاقوں سے ہوا تھا بے چینی و بغاوت کسی طور مسلمانوں کی ہندوں کے خلاف نہیں بلکہ مہاراجہ کے ظالمانہ نظام کے خلاف تھی جس کاشکار ہندو رعایا بھی تھی۔ اس ضمن میں ممتاز کشمیری ہندو پنڈت رہنما پریم ناتھ بزاز کی کتاب سے سے ایک حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
اپنی کتاب’ان سائڈکشمیر‘ میں لکھتے ہیں: ”13 جولائی تک عوامی تحریک کے پیچھے چلنے والی طاقت مسلمانوں کے صفوں میں مسلمانوں کیساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کے خلاف عدم اطمینان کی تحریک تھی۔ سینٹرل جیل سرینگر پر حملہ کسی بھی طرح ہندوؤں کے خلاف نہیں تھا اورجن لوگوں نے جیل کے پھاٹک پر اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیا، انہوں نے غیر ہمدرد ظالمانہ حکومت کے خلاف لڑتے ہوئے… اپنی چھاتیوں پرگولیاں کھائیں…یہ ظالموں کے خلاف، مظلوموں کی لڑائی تھی“۔
بظاہر مسلمانوں کے حقوق کے لئے شروع ہوئی اس تحریک نے جب ایک سیاسی تحریک کی شکل اختیارکی تو 1932ء میں شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس نے مل کر آل جموں کشمیر مسلم کانفر نس کی بنیاد رکھی۔
مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اس سیاسی تحریک کا بڑا سیاسی مطالبہ یہ تھا کہ مہاراجہ اپنے زیر سایہ جموں کشمیر میں ایک ذمہ دارانہ نظام حکومت قائم کریں اور انتخابات کے ذریعہ ریاستی اسمبلی کا قیام عمل میں لائیں۔
کشمیر میں رونما ہو رہے واقعات اور مسلمانوں کی سب سے بڑی اکثریتی جماعت کی اس سنہری پیشکش اور مطالبہ لندن سے امور مملکت چلانے کی تربیت حاصل کر نے والا ولایت پلٹ مہاراجہ ہری سنگھ سمجھنے سے بالکل قاصر رہا اور برٹش ریذیڈنٹ کے مشوروں کو بھی نظر انداز کیا۔ مسلمانوں اور وادی کے نچلے طبقہ کے ہندووں کے نمائندوں کے مطالبات کو اس نے اپنے خلاف صرف مسلم بغاوت سے تعبیر کرتے ہوے کچلنے کے لئے بھرپور طاقت استعمال کرنے کی را ہ اختیار کی جو مطلق العنان حکمرانوں کا شیوہ ہوتا ہے۔ یہی وہ موقعہ تھا جو مہاراجہ ہری سنگھ نے کھویا!
میرا ماننا ہے کہ اگر مہاراجہ ہری سنگھ جسے اس وقت ریاست جموں کشمیر کے طول عرض میں مسلمان جاگیرداروں، ذیل داروں، نمبر داروں، خاصہ داروں، مسلم درگاہوں اور مساجد کے اماموں اورمراعات یافتہ مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں، پیشواوں کی حمایت بھی حاصل تھی، کی مدد سے مسلمانوں کی رہنما تنظیم مسلم کانفرنس سے سیاسی مذاکرات کر کے اپنی رعایاکی اکثریت کا یہ جائز مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے انتخابات کرا کر اسمبلی کا قیام عمل میں لے آتے اور کشمیر کی اسی اسمبلی پارلیمان کے ساتھ معاہدہ کر کے اپنی حیثیت برطانوی پارلیمانی نظام کی طرح آئینی سربراہ بن جاتے تو آج ان کی ریاست جموں کشمیر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے ترقی کی بلندیوں کو چھو رہی ہوتی اورخود مہاراجہ کشمیر اور ان کے وارث جانشین ڈاکٹرکرن سنگھ کا وہ حشر نہ ہوتا جو 1947ء میں قبایلیوں کے حملہ کے بعد ہوا۔ نہ ریاست تقسیم ہوتی نہ مہاراجہ کا اقتدار ختم ہوتانہ اس کی رعایا اتنے دکھ جھیلتی۔
اس کا ملال ان کے جانشین کوبخوبی ہے۔ گذشتہ سال ہندوستان کی پارلیمنٹ میں جب ان کے بیٹے ڈاکٹر کرن سنگھ کی تقریر سنی توشعر یاد آیا:
آگے کے دن پاچھے گئے اور ہرسے کیو نہ ہیت
اب پچھتائے کیا ہوت ہے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
5 اگست 2019ء کے بعد کشمیر میں صورتحال حددرجہ بگڑ چکی ہے۔ کشمیری عوام کے نزدیک ان کی قومی آزادی کی صدیوں پرانی تحریک میں ایک اہم باب کی حیثیت رکھتاہے بلکہ یہ عوام کے لاشعور کا حصہ بن چکاہے۔
آج ہم 2020ء میں اس سفر آزادی کی صدی کے آخری عشرہ سے گذر رہے ہیں۔ میرا دل گواہی دے رہا ہے سفر آزادی کی صدی پوری ہونے سے پہلے ہم منزل پر پہنچ کر جشن آزادی منایں گے۔