نقطہ نظر

منافقانہ ’سامراج مخالفت‘ پر شیری رحمان کے نام ایک خط

وزیر ماحولیات صاحبہ!

امید ہے آپ کے مزاج اچھے ہونگے۔

آپ کو موسمیاتی تبدیلیوں کے امور کی وزارت ملنے کے بعد نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ پہلے ہمیں معلوم تھا کہ آپ بہت بڑی جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی پرچارک ہیں۔ اب اتحادی حکومت میں نئی وزارت ملنے پر یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ آپ سامراج مخالف بھی ہیں۔۔۔مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کی سامراج مخالفت کا یہ نیابیانیے اپنا کر آپ ریاست کی نااہلیوں، ناقص پالیسیوں اور عوام دشمن اقدامات پر پردہ ڈالنے کی ایک سستی سی کوشش کر رہی ہیں۔

ویسے بھی اس سے قبل پاکستانی عوام کو خان صاحب کی سامراج مخالفت نے ہی کافی ستایا ہوا ہے۔ اوپر سے آپ نے بھی سیلاب کے نقصانات کا مغرب کو ذمہ دار ٹھہرا کر معاوضے کی ادائیگی کا مطالبہ کر کے سامراج مخالفت میں مقابلے کا عنصر تلاش کر لیا ہے۔

ہم یہاں یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کسی طور بھی سامراج یا مغربی ملکوں کے حکمران طبقات کی جانب سے سرمائے کی لوٹ کیلئے فطرت کے بے دریغ استحصال کا دفاع نہیں کر رہے۔ یہاں تک آپ کی بات بالکل درست ہے کہ تاریخی طور پرسامراجی ملکوں نے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں آنے والے سیلاب گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہیں۔ تاہم سیلاب، زلزلے یا کسی بھی نوع کی قدرتی آفات میں نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے پیشگی اقدامات ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتے ہیں۔

جس اتحادی حکومت میں آپ موجود ہیں، اس اتحاد میں شامل جماعتیں، بشمول آپ کی جماعت، اس ملک پر نصف عرصہ تک حکمرانی کرتی رہی ہیں۔ گزشتہ سیلاب بھی تو آپ ہی کی حکومت کے دوران آیا تھا۔ اس کے بعد سیلاب کے نقصانات کو کم کرنے کیلئے کوئی ایک بھی اقدام کیوں نہ کیا جا سکا؟ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ اور اپریل میں شروع ہونے والی گرمی کی لہروں سے ہی یہ اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ رواں سال پاکستان میں تباہ کن سیلاب آسکتے ہیں۔ پیشگی اطلاع، آبادیوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی، پانی کی نکاسی کیلئے اقدامات، ندی نالوں کی صفائی سمیت ایسے بہت سارے دیگر اقدامات کئے جا سکتے تھے، جن سے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا تھا۔

وہ اقدامات کرنے سے آپ کو کس سامراج نے روک رکھا تھا؟

2010ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد مستقبل میں سیلاب کے خطرات کو کم کرنے کیلئے کوئی پالیسی کیوں نہیں بنائی جا سکی؟

الٹا سی پیک منصوبہ جات کے تحت کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا اور 2017ء میں 4نئے کوئلے کے پاور پلانٹس نے بجلی پیدا کرنا شروع کر دی تھی۔ دوسری طرف اسی عرصہ میں چین نے 2013ء میں فضائی آلودگی کو کم کرنے کیلئے منصوبہ بندی پر عملدرآمد شروع کیا تھا۔ اس منصوبہ بندی کے تحت کوئلے کے پاورپلانٹس کو بند کرنے اور انہیں گیس پر منتقل کرنے کا اقدام شروع کیا گیا۔ 7سال کے عرصہ میں چین کی حکومت نے اپنے ملک میں فضائی آلودگی میں 40فیصد تک کمی کی۔ چین کے بڑے شہروں میں 50سے 60فیصد تک فضائی آلودگی ان7سالوں کے دوران کم کی گئی۔ تاہم آپ اسی چین کے تعاون سے کوئلے کے پاور پلانٹس تعمیر کرتے رہے ہیں۔ کیا اس کا ذمہ دار بھی مغرب ہے؟

پاکستان کے دوبڑے شہر لاہور اور کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔ آپ لوگوں نے ان شہروں میں فضائی آلودگی کو کم کرنے کی بجائے ایئر کوالٹی انڈیکس کے معیار میں رد وبدل کر کے عدالتوں کو مطمئن کردیا کہ آپ آلودگی کو کم کر رہے ہیں۔ ان شہروں میں فضائی آلودگی پھیلانے میں ٹرانسپورٹ کا حصہ 43فیصد ہے، صنعت کا 25فیصد، زراعت کا 20فیصد، توانائی کے سیکٹر کا 12فیصدحصہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ تعمیراتی سیکٹر کا بھی ایک بہت بڑا حصہ اس فضائی آلودگی میں شامل ہے۔

پرانی اور ماحول کو نقصان پہنچانے والی ٹرانسپورٹ کے حوالے سے آج تک آپ نے کون سی پالیسی بنائی ہے یا یہ پالیسی بنانے سے آپ کو مغرب نے روک رکھا ہے؟

یورو 2گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے کوئی پالیسی بنائی ہو تو اس سے بھی آگاہ کریں یا یہ پالیسی بنانے سے آپ کو مغرب نے روک رکھا ہے؟

صنعتوں میں فاسل فیول کے استعمال اور فاضل مادوں کے اخراج کو کنٹرول کرنے اور ماحول دوست صنعتی پیداوار کیلئے جعلی مقدمہ بازی اور جرمانوں کے مصنوعی اقدامات کے علاوہ کوئی اقدام کیا ہو تو اس سے بھی قوم کو آگاہ کریں یا یہ اقدامات اٹھانے سے آپ کو مغرب نے روک رکھا ہے؟

زراعت کے پرانے طریقوں کو تبدیل کرنے، فصلوں کی باقیات کو جلانے کے متبادل طریقوں کے اجراء کی کوئی پالیسی بنانے کی بجائے یہاں بھی جرمانوں اور سزاؤں کا ہی اقدام کیا گیا۔ جس پر عملدرآمد بھی صرف میڈیا میں حاضری ڈالنے جتنا ہی ہوتا ہے۔

تعمیراتی شعبے کے حوالے سے ہی کوئی پالیسی بنائی ہو؟ خیر وہ آپ لوگ بنا بھی نہیں سکتے کیونکہ اس میں جتنے کالے دھن اور طاقت کی مداخلت ہے،اس بارے میں آپ سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتے، بلکہ الٹا وہاں سے اپنے مفادات اور منافع سمیٹنے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔ تاہم آپ کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ بے ہنگم ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا یہ جال درختوں اور جنگلات، سرسبز علاقوں کو برباد کر کے کنکریٹ میں تبدیل کر رہا ہے۔ جہاں تعمیراتی مشینری کے فاسل فیول سے فضائی آلودگی ہو رہی ہے، وہاں درختوں اور سرسبز علاقوں کے خاتمے سے بھی فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے۔

فضائی آلودگی کا ایک اور بہت بڑا موجب ’اٹامک ویسٹ‘ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے امور کی وزارت آپ کے پاس ہے، تو آپ قوم کو ذرا یہی بتا دیں کہ اٹامک ویسٹ کہاں جاتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کو کم کرنے کیلئے اقدامات کون کرے گا؟کیا اس ویسٹ سے نپٹنا بھی مغرب کی ذمہ داری ہے؟

اب آتے ہیں سامراج مخالفت پر جہاں آپ منافقت سے کام لے رہی ہیں۔ قوم کو یہ بھی کھل کر بتا دیں کہ جب امداد مانگنے کا وقت ہو تو سامراج مخالفت کا عنصر آپ میں عود کر آتا ہے۔ قرضے لیتے وقت یا قرضوں کی واپسی کیلئے قوم کا خون نچوڑتے وقت آپ کی سامراج مخالفت کہاں چلی جاتی ہے؟

آپ بہت اچھی طرح جانتی ہیں کہ یہ ملک سامراجی پالیسیوں سے اتنا ڈسا جا چکا ہے کہ یہاں لوگ سامراج مخالف ہر آواز کی طرف لپک جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سامراج مخالفت کو بالکل اسی طرح اپنے اقتدار کے دوام کیلئے استعمال کرتے ہیں، جس طرح مذہبی، قومی، علاقائی، نسلی اور دیگر تعصبات کو استعمال کرتے ہیں۔

اگر آپ سامراج مخالف ہیں تو پھر قرضوں کی ادائیگی روک دیں، مسترد کریں تمام سامراجی قرضوں کی ادائیگیاں۔ کلائمیٹ فرینڈلی تحریکوں کا حصہ بنیں، سامراجی قرضوں کے خلاف چلنے والی تحریکوں کا حصہ بنیں اور قرضوں کی ادائیگی روکنے سے حاصل ہونے والا سرمایہ اس ملک کے غریب عوام پر خرچ کریں۔
اگر آپ سامراج مخالف ہیں تو پھر امداد مانگنے کیلئے سامراج مخالفت کی منافقت کی بجائے قرضوں کی ادائیگی روک کر حاصل ہونے والی رقم سیلاب متاثرین کی بحالی، آباد کاری اور مستقبل میں سیلاب کے خطرات کو کم سے کم کرنے پر خرچ کریں۔

سندھ میں تو دہائیوں سے آپ کی حکومت ہے۔ یقین کریں میں سیلاب کے دوران سندھ کے دیہاتوں میں سیلاب متاثرین کے حالات کوبہت قریب سے دیکھ کر آیا ہوں۔ سیلاب کے بارے میں جو آپ لوگ تاثر دے رہے ہیں کہ اس نے بلاامتیاز نقصانات کئے ہیں، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ سیلاب سمیت ہر قدرتی آفت کے اثرات طبقاتی ہی ہوتے ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے، غربت اور پسماندگی میں گھرے کسان، ہاری اور کھیت مزدور اس سیلاب میں برباد ہو گئے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ان متاثرین کی امداد وہاں خالی ہاتھ انقلابی دوست کر رہے تھے، یا پھر مختلف شہروں اور علاقوں سے شہری اپنی مدد آپ کے تحت امداد جمع کر کے وہاں مدد کیلئے پہنچ رہے تھے۔ غیر سرکاری ادارے بھی اپنی بساط کے مطابق امداد کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اگر کوئی وہاں ان متاثرین کی دلجوئی اور امداد کیلئے موجود نہیں تھا، تو وہ سندھ کی حکومت تھی۔ آپ مدد تو خیر کیا کرتے، الٹا بھرپور کوشش کی کہ جو لوگ امداد لیکر جانا چاہتے تھے انہیں بھی یا تو ڈرانے کی کوششیں کی گئیں، یا پھر ان سے امدادی سامان ہتھیانے کی کوششیں کی گئیں۔

سیلاب کے نقصانات تو چھوڑیے سندھ کے ’گوٹھوں‘میں تو عام انسان مقامی وڈیروں کی اجازت کے بغیر داخل بھی نہیں ہو سکتا۔ یقین کیجئے سکھر اور شکار پور کے جن کچے کے علاقوں کا ہم وزٹ کر آئے، چند روز قبل انہی علاقوں میں ڈاکوؤں اور پولیس مقابلے کی خبریں سن کر اپنے آس پاس سے بندوق بردار ڈاکوؤں کے گزرنے کے مناظر ذہن میں آگئے۔ وہ مناظر بھی کہ جہاں جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ریاست کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ڈاکوؤں سے بچنے کیلئے مکانات کے دروازوں پر ’قرآن‘ لٹکا کر دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ڈاکوؤں کو ہی شاید رحم آجائے۔

بات بہت لمبی ہو گئی ہے۔ مختصر کرتے ہوئے آخر میں بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ سامراج مخالفت کی منافقت سے باہر نکلئے، کیونکہ لوگ اب مزید اس طرح کے بیانیے سن کر آپ کی باتوں میں آنے والے نہیں ہیں۔

اگر پھر بھی سامراج مخالفت کا راستہ اپنانا ضروری سمجھیں تو پھر سب سے پہلے سامراجی قرضوں کو ضبط کریں۔ سرمایہ داروں اور ایک فیصد امیروں کے حق میں پالیسیاں بنانا ترک کریں اور 99فیصد لوگوں کے مفادات پر مبنی پالیسیاں اپنائیں۔ سامراجیت سرمایہ داری کی اعلیٰ منزل ہے اور سرمایہ داری کو ختم کئے بغیر سامراج مخالفت نہیں کی جا سکتی۔

سامراج مخالفت اس ملک کے 99فیصد محنت کش، کسان اور غریب عوام ہی کر سکتے ہیں اور یہ آپ بھی جانتی ہیں کہ جس روز انہوں نے سامراج مخالفت کی جانب اپنے قدم بڑھائے تو ایک فیصد کوسامراج کے علاوہ پناہ دینے والا بھی کوئی نہیں رہے گا۔

اجازت دیجئے۔

ایک عام شہری

Roznama Jeddojehad
+ posts