لاہور (جدوجہد رپورٹ) اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ ’ہمارے نقطہ نظر کے مطابق خواتین پر جو پابندیاں افغانستان کی عبوری حکومت (طالبان) نے لگائی ہیں، وہ مذہبی نقطہ نظر سے اتنی زیادہ نہیں، جتنی پشتون ثقافت کے ایک مخصوص ثقافتی نقطہ نظر سے ہیں، جن میں خواتین کو گھر تک رکھنا ضروری ہے اور یہ افغانستان کی ایک مخصوص ثقافتی حقیقت ہے، جو سو سال سے تبدیل نہیں ہوئی۔‘
منیر اکرم نے اپنی گفتگو میں عالمی برادری پر زور دیا کہ افغانستان کی معیشت کی بحالی کیلئے وہ مدد کریں۔ پاکستان اور خطے کے اسلامی ممالک بھی خواتین کے حقوق کیلئے افغان عبوری حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگلے ماہ کی 8 تاریخ کو نیویارک میں کانفرنس بلائی جائیگی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اسلام میں خواتین کے مسئلے پر ایک کانفرنس کی میزبانی کرینگے، تاکہ یہ پیغام دیا جا سکے کہ اسلام کے تحت خواتین کو کون کون سے معیارات، آزادیاں اور حقوق حاصل ہیں۔
طالبان کی حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندی سے متعلق پاکستانی سفارتکار کے اس بیان پر افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں شدید ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسے ایک ناگوار بیان قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ خواتین کی جانب سے منیر اکرم پر ماضی میں خواتین پر گھریلو تشددکے الزامات کو بھی یاد کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن ڈاکٹر سلیم جاوید نے ٹویٹر پر منیر اکرم کی گفتگو کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اسے ایک ناگوار بیان قرار دیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’طالبان کا لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کرنا پشتون ثقافت کا حصہ قراردینا ایک ناگوار بیان ہے۔ طالبان کی واپسی سے قبل سینکڑوں کی تعداد میں پشتون لڑکیاں سکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ پاکستان میں لاکھوں پشتون لڑکیوں، خواتین سکول اور کام پر جاتی ہیں۔‘
خاتون صحافی نائلہ عنایت نے ٹویٹر پرمنیر اکرم کے بیان کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان افغان طالبان کے ترجمان کے طور پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’مخصوص پشتون ثقافت‘ کے نام پر ان کے جرائم پرپردہ ڈال رہا ہے۔‘
ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے منیر اکرم پر ماضی میں خواتین پر گھریلو تشدد کے الزامات پر مبنی ایک بینر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’حیرت ہے کہ یہ اقدام کس ’مخصوص ثقافت‘ کا حصہ ہو گا؟‘
یاد رہے کہ منیر اکرم کو اکتوبر 2019ء میں دوسری مرتبہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔ ماضی میں وہ 2002ء سے 2008ء تک اسی عہدے پر تعینات رہے ہیں۔ تاہم ان کی تعیناتی پر بھی انہیں 2002ء میں گھریلو تشدد کے تنازعہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوری 2003ء میں امریکہ نے پاکستان سے منیر اکرم کا سفارتی استثنیٰ ختم کرنے کو کہا تھا، تاکہ ان کے خلاف حملے اور مارپیٹ کے الزام میں مقدمہ چلایا جا سکے۔
نیو یارک پولیس کو 10 دسمبر 2002ء کو ایک خاتون نے منیر اکرم کے گھر بلایا تھا، خاتون نے الزام عائد کیا تھا کہ منیر اکرم نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ خاتون نے بیان دیا تھا کہ منیر اکرم نے اس کا سر دیوار سے ٹکرا دیا تھا، اس کے بازو میں بھی چوٹ لگی تھی اور اس سے قبل تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔
تاہم اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی تھا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں نشست بھی حاصل کی تھی۔ اس کیفیت میں منیر اکرم کو مکمل سفارتی استثنیٰ حاصل تھا اور اس الزام کے تحت کبھی تحقیقات آگے نہیں بڑھ سکیں۔