خبریں/تبصرے

26 ماہ بعد رہائی: یہ جلد ہار مان گئے 26 سال کی تیاری تھی، علی وزیر

لاہور (جدوجہد رپورٹ) جنوبی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما علی وزیر کو 2 سال 2 ماہ بعد منگل کو کراچی کی سنٹرل جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔

علی وزیر کو بغاوت کے مختلف مقدمات میں 16 دسمبر 2020ء کو پشاور سے گرفتار کر کے کراچی کی سنٹرل جیل منتقل کیا یا تھا۔

علی وزیر کو جیل میں لمبے عرصہ تک مقید رکھنے کیلئے قانونی پیچیدگیوں کا ایسا جال بچھایا گیا تھا کہ ایک مقدمہ میں رہائی کے بعد دوسرے مقدمہ میں گرفتاری ظاہر کر دی جاتی ہے۔

علی وزیر کے خلاف کراچی میں درج ایک مقدمہ میں کئی ماہ کی تگ و دو کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے درخواست ضمانت منظور کی، جس کے بعد انہیں ایک دوسرے مقدمہ میں گرفتار رکھا گیا۔ دوسرے مقدمہ میں بھی ماتحت عدالتوں میں درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے درخواست ضمانت منظور کی تو انہیں تیسرے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا۔

تیسرے اور چوتھے مقدمہ میں درخواست ضمانت انسداد دہشت گردی عدالت سے ہی منظور ہوئی، تو علی وزیر کو صوبہ خیبر پختونخوا میں درج مقدمہ میں کراچی کی سنٹرل جیل میں ہی قید رکھا گیا۔

تاہم کے پی میں بھی یکے بعد دیگرے 3 الگ الگ مقدمات میں گرفتاری ظاہر کی گئی۔ تینوں مقدمات میں سے پشاور ہائی کورٹ کے بنوں بنچ نے درخواست ضمانت منظور کی اور صوبہ بھر میں درج کسی بھی اور مقدمہ میں علی وزیر کو گرفتار نہ کرنے کا حکم بھی جاری کیا گیا، جس کے ایک ہفتہ بعد علی وزیر کو منگل کے روز رہا کر دیا گیا۔

اس دوران ٹرائل کے بعدکراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے علی وزیر کو ایک مقدمہ سے باعزت بری بھی کر دیا ہے۔

تاہم علی وزیر کے وکلا کے مطابق علی وزیر کے خلاف صوبہ خیبرپختونخوا میں 11 مزید مقدمات ایسے ہیں، جو مختلف تھانوں میں درج ہیں اور ظاہر کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ظاہر نہ کئے گئے مقدمات کی بھی ایک تعداد ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔

علی وزیر نے مجموعی طور پر 7 مقدمات میں ضمانت کیلئے 39 لاکھ روپے سے زائدکے ضمانتی مچلکے جمع کروائے ہیں اور دو سال 2 ماہ تک قید کاٹنے کے بعد انہیں جیل سے رہا کیا گیا ہے۔

جیل سے نکلنے کے بعدعلی وزیر کا کراچی میں والہانہ استقبال کیا گیا۔ انہیں ایک جلوس کی شکل میں سہراب گوٹھ لے جایا گیا، جہاں ان کے اعزاز میں استقبالیہ کا اہتمام بھی کیا گیا۔

علی وزیر کی رہائی پر مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں طویل عرصہ تک استقامت کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔

ایم این اے محسن داوڑ نے ٹویٹر پر لکھا کہ ’علی کی روح کو توڑنے اور اسے جیل میں رکھنے کی ہر کوشش کی گئی لیکن وہ کامیاب ہو گیا۔ انصاف سے ہمیشہ کیلئے انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘

پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین نے ٹویٹر پر لکھا کہ ’ظالمانہ نظام نے ہمارے معاشرے کو جیل میں تبدیل کر دیا ہے، اس لئے چھوٹی جیل سے بڑی جیل میں رہا ہونے پر مبارکباد۔ ہم مزاحمت کے ذریعے بڑی جیل کی زنجیریں بھی توڑ دینگے۔‘

علی وزیر نے رہائی کے بعد ٹویٹ میں لکھا کہ ’جنرل گریسی کی باقیات نے صرف 26 ماہ میں ہار مان لی، ہم تو 26 سال تک لڑنے کیلئے ذہنی (طور پر) تیار تھے۔‘

Roznama Jeddojehad
+ posts