رپورٹ: قیصر عباس
کہتے ہیں شاعر کے لکھے ہوئے حروف اپنے عہدکا عکس ہوتے ہیں لیکن کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ اس کا جسم موت کے پچاس برس بعدسچ کی گواہی بن جائے؟
چلی کے نوبل انعام یافتہ مارکسسٹ شاعر پابلو نرودا 1973ء میں انتقال کر گئے تھے اورسرکاری رپورٹ کے مطابق ان کی موت کی وجہ کینسر تھی۔ اسی سال چلی میں سلویڈورآلینڈے کی سوشلسٹ حکومت کو ہٹاکر امریکہ کی مدد سے قدامت پسند ڈکٹیراگسٹو پنوشے نے اقتدارسنبھال لیا تھا۔
امریکہ کے نیشنل پبلک ریڈیو (این پی آر) کی اطلاع کے مطابق پابلو کی باقیات پر کی گئی ایک نئی میڈیکل رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے جسم میں زہریلے بکٹیریا کثیرتعداد میں داخل کئے گئے تھے۔ یہ رپورٹ چلی، ڈنمارک اور کینیڈا کے ڈاکٹروں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے تیار کی ہے۔
پابلو کے انتقال کے بعد ان کے لواحقین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ حکومت وقت نے انہیں ایک سازش کے تحت ہلاک کیاگیا تھا۔ ان کے بھانجے رڈیلفو ریزنے، جو ایک وکیل بھی ہیں، کہا ہے کہ اس وقت کسی نے سرکاری موقف پر یقین نہیں کیا تھا اور اب سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت ہو گیا ہے کہ انہیں ایک منصوبے کے تحت راستے سے ہٹا یا گیا تھا۔
ان کے مطابق ”پابلو نے خود آج خود اپنی موت کی گواہی دی ہے اور صاف ظاہر ہے کہ انہیں قتل کیاگیا تھا۔“ انہوں نے این پی آر کو بتا یا کہ پابلو کے جسم میں زہریلے بکٹیریا انجکشن کے ذریعے داخل کئے گئے تھے۔ ڈکٹیراگسٹو پنوشے نے 1980ء میں اپنے کئی اور سیاسی حریفوں کو اسی انداز میں زہر دے کر ہلاک کیا تھا۔
پابلو نرودا بیسویں صدی کے مقبول مارکسسٹ شاعر، سیاسی کارکن اور سفارت کار تھے جو کئی ملکوں میں چلی کے سفیر بھی رہے۔ انہیں 1971ء میں ادب کا نوبل پرائز دیا گیا تھا۔
ان کی شاعری رومانس،تاریخ اور بائیں بازو کی نظریاتی جہتوں کے لئے مشہور ہے۔ ان کی تصانیف میں سوانح حیات اور رومانوی نظموں کا مجموعہ ”بیس رومانوی نظمیں اور ایک اداس نغمہ“ ’Twenty Love Poems and a Song of Despair‘ آج بھی مقبول ہیں۔
ان کی ایک نظم ”جنگل میں روپوشی“ کا یہ بند شاید آج ہی کے حالات کی پیش گوئی کر رہا ہے:
میں نے جنگل کا رخ کیا
تودرخت کی ایک شاخ نے
میرے ہونٹوں کی پیا س بجھائی
بارش کی رقت آمیز صدائیں
ٹوٹے ہوئے دل کے نوحے
اور زنگ آلود گھنٹی کی صدائیں
دیر تک میرا پیچھا کرتی رہیں!
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔