(واشنگٹن ڈی سی، جدوجہد رپورٹ) اسرائیل میں حکومت کے خلاف کئی ماہ سے جاری ملک گیر مظاہروں میں تیزی آ گئی ہے۔ یہ ہنگامے موجودہ حکومت کے ان اقدامات کی مخالفت میں جاری ہیں جن کے تحت عدالتی نظام کو حکومت کے ماتحت لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب حکومت نے بھی عدالتی نظام کی خود مختاری ختم کرنے کے لئے قانون سازی کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کسی قسم کے سماجی اختلافات کو ہوا دے کر مشترکہ قومی مستقبل کو خطرے میں نہیں ڈالنا چائیے۔
دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ملک کی مخلوط حکومت نے حال ہی میں اسرائیلی پارلیمان میں ایک بل متعارف کیا ہے جس کے تحت مو جودہ ضوابط میں تبدیلی کے بعد حکومت اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تعیناتی کر سکے گی۔
کہا جا رہا ہے کہ بل کا مقصد وزیر اعظم کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ختم کرنا ہیں جنہیں وہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ نیتن یا ہوکے خلاف بد عنوانی اور خرد بر د کے الزامات پر ایک عرصے سے مقدمات کی سماعت ہو رہی ہے اور خطرہ ہے کہ اگر الزامات ثابت ہوگئے توانہیں سیاست کے لئے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اسی دوران اسرائیلی مقننہ نے زیر بحث بل کا پہلا حصہ کل منظور کرکے اٹارنی جنرل کے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کے ا ختیارات ختم کر دئے ہیں۔
ادھر عرب سنٹر واشنگٹن ڈی سی کے ایک ورچوئل مذاکرے میں مظاہروں پر تبصرہ کرتے ہوئے نیو اسکول فار سوشل رسرچ میں فلسفے کے پروفیسر آمری بوم (Omri Boehm) نے کہا کہ جمہوری اقدار کی بنیاد سماجی مساوات پررکھی جاتی ہے لیکن یہودی حکومت کا موجودہ نظام خود یہودیوں اور عرب شہریوں کے جمہوری حقوق کی ضمانت دینے سے قاصر ہے۔ اسرائیل میں نئے دستور کی بحث پر ان کا کہنا تھا کہ اگر شہری حقوق کی ضمانت نہ دی جائے تو ملکی آئین لوگوں کے استحصال کا ایک اور ہتھیار بن جاتا ہے۔
پروگرام میں انٹر نیشنل کرائسس گروپ کی سینئر تجزیہ کار مائرہ زونسن (Mairav Zonszein) نے کہا کہ نئی قانون سازی کی روک تھا م کے لئے امریکہ کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہئے۔
جنوری میں شروع ہونے والے یہ مظاہرے اب ملک کے تمام شہروں تک پھیل گئے ہیں جن میں سماجی و سیاسی تنظیمیں حصہ لے رہی ہیں اوراب تک 75 مظاہرین گرفتار ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کے فلسطینی شہری حکومت کے خلاف اس احتجاج کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ان کے انسانی حقوق تو شروع ہی سے پامال کئے جا رہے تھے اور اب جمہوری اقدارکے پردے میں عام شہریوں کی زندگی بھی نشانے پر ہے۔