قیصر عباس
مسلمہ اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا کوئی معیوب بات نہیں لیکن آج پاکستان میں سیاست گیری کا واحدمقصد اقتدارکے ذریعے ذاتی مفادات کا حصول ہے۔چڑھتے سورج کے پجاری جوق در جوق مقبول پارٹیوں میں شمولیت کے اعلانات کرتے ہیں اور جب یہی پارٹی مسند اقتدار سے اترتی ہے تو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔
لیکن ملک کی تاریخ میں کچھ سیاسی رہنما ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی کے طے شدہ اصولوں کی پاسداری، انسانی حقوق اور سیاسی نظریے کوہمیشہ پیش نظر رکھاجس کی خاطرانہوں نے قربانیاں بھی دیں اور نقصانات بھی برداشت کئے۔تاج محمد لنگاہ (2013-1939ء)کاشمار ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے جاگیردارانہ پس منظر رکھتے ہوئے بھی اپنی زندگی ترقی پسند نظریات اورمحنت کشوں کے مسائل حل کرنے کے لئے وقف کر دی۔
بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کا تعلق جنوبی پنجاب کے قصبے جھوک لنگاہ سے تھا۔پنجاب یونیورسٹی لاہور سے قانون کی تعلیم مکمل کر کے لندن میں لنکنز اِن (Linkin’s Inn) سے بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی۔ نظریاتی سیاست، علاقائی خود مختاری کی جدوجہد اور قومی سیات میں شمولیت ان کی زندگی کے تین نمایاں پہلوہیں۔
ایک سکہ بندسوشلسٹ اورپاکستان کمیونسٹ پارٹی کے رکن کی حیثیت سے وہ ہمیشہ معاشی انصاف اور غربت کے خاتمے کی تحریکوں کی صفِ اول میں رہے۔انہوں نے ہر سطح پر کسانوں کے مسائل کی با ت کی اور محنت کشوں کے استحصال کے خلاف مزاحمتی تحریکیں چلائیں۔ان کی وفاداری صرف سوشلسٹ اور ترقی پسند نظریات کے ساتھ تھی جس کی پاداش میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں انہیں کئی بار تشد اور اسیری کا سامنابھی کرنا پڑا۔
تاج لنگاہ کے نزدیک سرائیکی ثقافت پنجاب میں ایک الگ تاریخی اورادبی پہچان رکھتی ہے۔ سرائیکی تہذ یب کے تحفظ کے لئے انہوں نے علاقائی خود مختاری کی تحریک کی بنیادرکھی جو آگے چل کر”سرائیکی صوبہ محاذ“ اور پھر ”پاکستان سرائیکی پارٹی“ (PSP) کے طورپر ابھری۔ ”سرائیکی اسٹوڈنٹ فیڈریشن“ بھی اسی پارٹی کی ایک شاخ کے طورپر نوجوانوں کی تحریک کا حصہ بنی۔ان سرگرمیوں نے سرائیکی صوبے کے مطالبے کو مقبول سیاسی و ثقافتی تحریک میں تبدیل کر دیا۔ یہ ان ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج سرائیکی صوبہ کا مطالبہ قومی سطح پر سیاسی دھارے کا جزو ہے۔
ان کے انتقال کے بعدملک اللہ نواز وینس پاکستان سرائیکی پارٹی کے صدر منتخب ہوئے جن کی رہنمائی میں سیاسی وثقافتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ان کے مطابق ”پاکستان میں صرف سرائیکی صوبہ ہے جس میں حقوق نہیں دئے جاتے اور یہاں کے روایتی سیاستدان پنے مفاد کے لئے مختلف پارٹیو ں میں شامل ہو جاتے ہیں۔اگر ایک پارٹی ان کو ٹکٹ نہ دے تو یہ دوسری پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔“
ملکی سطح پر سیاسی سرگرمیاں تاج لنگاہ کی زندگی کا تیسراپہلوہے۔ ان کی ترقی پسند انہ سوچ اور سیاسی سوجھ بوجھ دیکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ انہوں نے پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا اور پنجاب میں پارٹی منظم کرنے کا کام سرانجام دیا۔بعد ازاں سرائیکی زبان و ثقافت کے تحفظ میں پیپلز پارٹی کی عدم دلچسپی سے مایوس ہوکر اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔
ان کی صاحبزادی ڈاکٹرنخبہ تاج لنگاہ پاکستان سرائیکی پارٹی کی تاحیات چیئر پرسن ہیں جو ایف سی کالج لاہو ر میں انگریزی ادبیات کی پروفیسر ہیں اور کئی کتابیں تصنیف کرچکی ہیں۔راقم کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویومیں ان کا کہنا تھا:
”میرے والد مرحوم تاج محمد لنگاہ نے سرائیکی تحریک کی سیاسی اور ثقافتی تر ویج میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے سیاسی محاذ پروہ فضا تیار کی جس نے آگے چل کر ادبی محاذ پربھی سرائیکی صوبے کے قیام کی راہ ہموار کی۔ 1970ء سے لے کر آخری دم تک انہوں نے سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے انتہک کوشش کی اور اسی کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا۔میں سمجھتی ہوں کہ ان کی سیاسی بصیرت اور لیڈرشپ کا متبادل تلاش کرنا آج کے دور میں بہت مشکل ہے۔“
تاج محمد لنگاہ پاکستان میں نظریاتی سیاست اور سرائیکی حقوق کی پہچان ہیں۔ گزشتہ ہفتے7 اپریل کو ان کی دسویں برسی کے موقع پر کارکنوں نے تعزیتی سرگرمیوں کے بجائے ان کی سیاسی جدوجہدکا جشن منایاجس کے وہ مستحق تھے۔ اس سال یہی دن ان کی پارٹی کا 34 واں یوم تاسیس بھی تھا۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔