خبریں/تبصرے

جموں کشمیر: وزیراعظم کی عدالتی نااہلی اور نئے انتخاب کا معمہ

حارث قدیر

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز ایک بار پھر 5 گھنٹے کی تاخیر کے بعدمحض یہ اطلاع دیکر ملتوی کر دیا گیا کہ آج پھرگیارہ بجے اجلاس شروع کیا جائے گا۔ یہ مسلسل چوتھا روز تھاکہ اسمبلی اجلاس کا وقت مقرر کیا جاتا ہے، لیکن بغیر کسی کارروائی کے اگلے روز کیلئے ملتوی کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اتوار کے روز بھی خصوصی منظوری کے بعد اجلاس مقرر کیا گیا، لیکن کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔

یہ اجلاس گزشتہ کئی روز سے جاری ہے۔14 اپریل جمعہ کے روزکیلئے اجلاس کا ایجنڈا وزیراعظم کا انتخاب مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم ابھی تک وزیراعظم کے انتخاب کا شیڈول جاری نہیں کیا جا سکا ہے۔

11 اپریل کو وزیراعظم تنویر الیاس کو عدالت العالیہ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت طلب کیا تھا۔ جہاں وزیراعظم نے اعتراف جرم کرتے ہوئے معافی مانگ لی تھی۔ تاہم عدالت نے انہیں تابر خاست عدالت سزا سنا کر دو سال تک کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے کیلئے نااہل قرار دے دیاتھا۔

وزیراعظم تنویر الیاس کی نااہلی کے بعد فوری طور پر نئے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لایا جانا تھا۔ اس خطے میں نافذ العمل عبوری آئین ایکٹ1974ء کے مطابق وزیراعظم کے انتخاب کیلئے صدر ریاست 14 روز کے اندر اجلاس طلب کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ تاہم اگر اجلاس جاری ہو تو جلداز جلد نئے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ اس صورت میں مدت متعین نہیں کی گئی ہے۔

وزیراعظم کی نااہلی کے وقت اجلاس جاری تھا، جمعہ کے روز وزیراعظم کے انتخاب کو ایجنڈے میں رکھتے ہوئے اجلاس طلب کیا گیا، تاہم بغیر شیڈول جاری کئے اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ ہفتے کے روز بھی اتوار کی خصوصی منظوری دیتے ہوئے اتوار تک اجلاس ملتوی کیا گیا۔ یہ سلسلہ گزشتہ روز پیر تک جاری رہا اور ابھی تک وزیراعظم کے انتخاب کا شیڈول بھی جاری نہیں کیا جا سکا ہے۔

اس سب معمے کی بنیادی وجہ حکمران جماعت کے اندر دھڑے بندی اور اپوزیشن کی جانب سے حکمران جماعت کے اندر توڑ پھوڑ کی کوششوں کے علاوہ کسی بھی جماعت کا وزیراعظم کے امیدوار پر متفق نہ ہوپانا ہے۔ جوڑ توڑ اور خریدو فروخت کا یہ سلسلہ ابھی تک کوئی حتمی شکل اختیار نہیں کر سکا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ معاملہ پاکستان میں جاری سیاسی اور ریاستی بحران کی وجہ سے طول پکڑتا جا رہا ہے۔ اس خطہ میں حکومتیں ہمیشہ پاکستان کی مرہون منت ہی رہی ہیں۔ پاکستانی وفاق میں جو جماعت حکومت میں ہوتی ہے، وہی اس خطہ میں حکومت قائم کرتی ہے۔ تاہم اڑھائی سال بعد جب پاکستان میں حکومت تبدیل ہوتی ہے تو اس خطے کی حکومت تبدیل کرنے اور عدم اعتماد کے ذریعے اپنی مرضی کا وزیراعظم لانے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔

موجودہ دور حکومت میں ایسی مثال بھی قائم کی گئی کہ حکمران جماعت نے اپنے ہی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر پارٹی صدر کو وزارت عظمیٰ پر براجمان کیا۔ گزشتہ سال اپریل میں وزیراعظم عبدالقیوم نیازی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا کر وزیراعظم بننے والے تنویر الیاس بھی محض ایک سال ہی پورا کر سکے۔ تاہم جب انہوں نے بطور وزیراعظم 6 ماہ مکمل کئے تھے تو تحریک عدم اعتماد کی افواہی اس وقت سے گردش کر رہی ہیں۔

یہ واحد مثال حال ہی میں نااہل ہونے والے وزیراعظم تنویر الیاس کی غیر معمولی دولت کی وجہ سے ہی قائم ہو سکی تھی۔ تنویر الیاس میڈیا کے ساتھ گفتگو میں متعدد مرتبہ تحریک عدم اعتماد کی افواہوں سے متعلق یہ کہہ چکے ہیں کہ ممبران اسمبلی کا خرچہ ختم ہوا ہوگا۔ انہوں نے یہاں تک بھی کہا کہ یہ بے تحاشہ رقوم حاصل کر چکے ہیں، لیکن اب ایک پائی نہیں ملے گی۔

اس خرید و فروخت پر مزید مہر تصدیق تنویر الیاس کے بھائیوں نے اس وقت ثبت کی، جب انہوں نے خاندانی کاروبار کے ایک تنازعے کے دوران جاری ایک پریس ریلیز میں یہ انکشاف کیا کہ تنویر الیاس کمپنی اکاؤنٹس سے 10 ارب روپے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر چکے ہیں۔ خاندانی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی الیکشن مہم سے لیکر وزارت عظمیٰ کیلئے خرید و فروخت تک کیلئے رقوم الگ سے ادا کی گئی ہیں۔ یوں یہ معاملہ محض 10 ارب روپے تک محدود نہیں رہا ہے۔

اس سب سے یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ بھاری دولت کے باوجود نوآبادیاتی خطوں کی حکمران اشرافیہ اقتدار پر اسی وقت تک برقرار رہ سکتی ہے، جب تک اسے اصل نوآبادیاتی آقاؤں کی حمایت حاصل ہو۔ جونہی ان کے مفادات کی تکمیل ہوتی ہے، یا تقاضے تبدیل ہوتے ہیں تو وہ دھتکارتے ہوئے لمحہ بھر تاخیر نہیں کرتے۔ تنویر الیاس کی وزارت عظمیٰ کا خاتمہ بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال کا غماز ہے۔

موجودہ صورتحال میں معاملات مگر اس قدر آسان نہیں ہیں، کہ وزیراعظم کو راستے سے ہٹا کر نئے وزیراعظم کا انتخاب بہت آسانی سے یا محض ایک اشارے کے تحت کر لیا جائے۔ جس طرح پاکستان کے ریاستی بحران اور دھڑے بندی میں طاقت کا توازن بگڑ چکا ہے۔ ابھی تک کوئی دھڑا بھی طاقت پر اپنی گرفت واضح کرنے میں کامیاب نہیں ہو پایا ہے۔ اس کشمکش کا اظہار پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی نظر آرہا ہے۔

حکمران جماعت میں دھڑے بندی کو پایہئ تکمیل تک پہنچانا، ممبران اسمبلی کو توڑنا اور پھر اپوزیشن جماعتوں کو متحد رکھنا، یہ سب موجودہ وقت اس قدر آسان نہیں رہا ہے۔ ڈیپ سٹیٹ کے اندر موجود ٹوٹ پھوٹ اس عمل کو اس قدر پیچیدہ بنا چکی ہے کہ آج پانچویں مرتبہ وزیراعظم کے انتخاب کا شیڈول جاری کیا جانا بھی ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔

ماضی قریب تک محض اسلام آبادمیں اقتدار ہی اس خطے کی سیاست کا مستقبل طے کرنے کیلئے کافی ہوتا تھا۔ مختلف قبیلوں کی نمائندگی کرنے والے سیاسی اشرافیہ کے نمائندے اسلام آباد کی حمایت کی نسبت سے ہی انتخابی فتح کیلئے درکار ووٹوں کا فرق قائم کرنے میں کامیاب ہوتے تھے۔ پھر وزارت عظمیٰ کیلئے اپنی ہی پارٹی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دینے کیلئے کروڑوں روپے کی رقوم لیکر انتخابی اخراجات محض ایک ووٹ کے عوض پورے کر لیا کرتے تھے۔ یہ انتہائی سادہ فارمولہ البتہ اس مرتبہ تھوڑا پیچیدہ ہو چکا ہے۔

حکمران جماعت میں دھڑے بندی اس نوعیت تک بڑھ چکی ہے کہ ابھی تک وزارت عظمیٰ کے امیدوار پر کوئی اتفاق سامنے نہیں آسکا ہے۔ حکمران جماعت کے اندر فارورڈ بلاک بننے، اتحادیوں کے علیحدگی اختیار کر جانے سمیت پارلیمانی پارٹی کے ایک دوسرے کے ساتھ گالم گلوچ کی حد تک تصادم میں چلے جانے کی خبریں زبان زد عام ہیں۔

اپوزیشن جماعتیں بھی وزارت عظمیٰ کے امیدوار پر متفق نہیں ہو پائی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اندر قبیلائی تعصب کی بنیاد پر کسی ایک نام پر اتفاق نہیں ہوپایا۔ مسلم لیگ ن نے بھی اپنا امیدوار سامنے لانے کا اعلان کیا، تاہم کوئی اعلان کیا نہیں جا سکا۔ پیر کے روز تحریک انصاف کو اس خطے میں قائم کرنے کے دعویدار اور صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے گروپ کی جانب سے اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانے کی خبریں منظر عام پر آئیں۔ بیرسٹر گروپ کے ہی ایک ممبر اسمبلی چوہدری رشید نے میڈیا کے سامنے آکر دبے لفظوں میں اس بات کی تصدیق بھی کر دی کہ اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک (بیرسٹر گروپ) کے نامزد کردہ وزیراعظم کے امیدوار کی حمایت پر تیار ہو گئی ہیں۔ یوں بیرسٹر گروپ کے چوہدری رشید کے اپوزیشن کے حمایت یافتہ وزیراعظم بننے کے امکانات موجود ہیں۔

اس صورت میں تحریک انصاف کی بھاری اکثریت والی حکومت محض پونے دو سال بعد ختم ہو جائے گی اور تحریک انصاف ایوان میں اقلیتی پارٹی میں تبدیل ہو کر رہ جائے گی۔ تاہم یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، تحریک انصاف کے حمایتی دھڑے نے بھی سر توڑ کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

آزاد کہلائے جانے والے اس خطہ کے منتخب نمائندوں اور حکمران اشرافیہ کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی بیان تک بھی جاری نہیں کر سکتے۔ اس اسمبلی میں چند روز قبل ہی ایک حکومتی ممبر اسمبلی نے ایک قرارداد پیش کی، جسے پورے ہاؤس نے اتفاق رائے سے منظور کر لیا۔ جب اس قرارداد کی خبریں بھارتی میڈیا کی زینت بنیں تو اس قرارداد کو منظور کرنے والے ممبران اسمبلی میں احتجاج کرنے لگے، وزیراعظم نے تحقیقاتی کمیٹی بنائی اور قرارداد واپس لے لی گئی۔ یوں اس اسمبلی میں پہنچنے والے قانون سازوں کی اہلیت کو بھی بخوبی جانا جا سکتا ہے۔ ان ممبران اسمبلی کی واحد قابلیت نوآبادیاتی قبضے کودوام بخشنے کیلئے سہولت کار بننے کے علاوہ مختلف برادریوں اور قبیلوں کے نام پر تعصبات میں اس خطے کے لوگوں کو تقسیم رکھنے میں مہارت ہے۔

ؔآزادی کو فروخت کرنے کی ان خدمات کے عوض ترقیاتی سکیموں اور وسائل کی لوٹ مار کے علاوہ ہر 6 مہینے یا ایک سال بعد وزارت عظمیٰ کی تبدیلی کیلئے اوور ٹائم کی سہولیت بھی میسر آجاتی ہے۔ جب تک نوآبادیاتی قبضہ موجود ہے، یہ صورتحال جاری و ساری رہے گی۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔