پاکستان

شہباز حکومت آخری سانس لیتی ہوئی جمہوریت کا ماتم ہے

فاروق سلہریا

فوجی آمریتوں اور کمزور جمہوری تجربوں سے ہوتا ہوا پاکستان 2018ء میں ہائبرڈ دور میں داخل ہوا۔ عمران خان کی صورت میں جب پہلا ہائبرڈ تجربہ ناکام ہوا تو انہیں عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا کر شہباز شریف کی شکل میں ہایبرڈ 2.0 کا تجربہ کیا گیا۔

ڈیڑھ سالہ یہ تجربہ ممکن ہے جی ایچ کیو کی نظر میں کامیاب رہا ہو کہ شہباز شریف نے سول سپریمیسی کی زبانی جمع خرچ بھی روک دی اور مکمل فوجی کٹھ پتلی بن گئے مگر شریف خاندان کی مقبولیت کا جنازہ نکل گیا۔

درحقیقت، 2013ء سے لے کر 2023ء تک، عمران خان کی سیاست نے سرمایہ دار سیاستدانوں کو یہ سبق دیا کہ فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دو، ہر فوجی مطالبے پر لبیک بولو اور اقتدار کے مزے لوٹو۔

اسی سوچ کے تحت شہباز شریف نے اپنا پہلا دور وزارت گزارا۔ اس کا صلہ انہیں دوسری باری کی صورت میں ملا۔ شریف خاندان نے ممکن ہے گذشتہ دو سالوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے کاروباری معاملات بھی درست کر لئے ہوں مگر یہ طے ہے کہ پنجاب کا تخت بھی ایک مرتبہ پھر ان کے زیر پایہ ہے۔ خاندان بھر کے افراد جن مقدمات کا سامنا کر رہے تھے، وہ بھی ختم ہو گئے۔ پیپلز پارٹی بھی ایک عرصے سے سندھ میں اپنی حکومت بچانے کے لئے فوج کی ہر بات پر لبیک بولتی ہے۔

رہی پی ٹی آئی کی موجودہ فوج دشمنی تو اس بابت ہم کئی بار ان صفحات میں وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ جماعت شدید جمہوریت دشمن ہے۔ اس کا فوج سے نہیں، چند فوجی جرنیلوں سے اختلاف ہے۔

جمہوریت اس ملک میں پہلے ہی مذاق تھی، ہائبرڈ تجربات اور مسلسل متنازعہ انتخابات نے جمہوریت کا جنازہ ہی نکال دیا ہے۔

ایسا کیوں ہوا؟

ایک بڑی وجہ ہے ریاست کا کردار۔ یہ ایک عسکری ریاست ہے۔ بغیر اس ریاست کے کردار کو بدلے، جو عوامی تحریکوں کے نتیجے میں ہی ممکن ہے، اس ملک میں جمہوریت کو استوار نہیں کیا جا سکتا۔

بہت سے تبصرہ نگار و تجزیہ کار ملکی سیاست میں خاندان شاہیوں (Political dynasties) کو کمزور جمہوریت کی وجہ قررا دیتے ہیں۔ مسئلہ اس تجزئے کے ساتھ یہ ہے کہ یہ تجزیہ سر کے بل کھڑا ہے۔ خاندان شاہیوں کی وجہ سے جمہوریت کمزور نہیں، کمزور جمہوریت کی وجہ سے خاندان شاہیاں موجود ہیں۔ ان خاندانوں کے لئے آسان طریقہ یہ ہے کہ سیاسی و عوامی جدوجہد کی بجائے جی ایچ کیو سے تعلقات بہتر بنا کر اقتدار کی راہ ہموار کر لیں۔

کمزور جمہوریت یا اس کی تازہ شکل: ہائبرڈ رجیم، مرکزی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بھی قابل قبول ہے اور فوج کو بھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ گراس روٹ سطح پر جمہوریت نہیں آنے دیتے۔ نہ بلدیاتی نظام بننے دیا جاتا ہے نہ طلبہ یونین یا ٹریڈ یونین کے انتخابات ہونے دئیے جاتے ہیں۔ اسی طرح کسی جماعت کے اندر جمہوری انداز میں قیادت منتخب نہیں ہوتی۔

پاکستانی ریاست نے عسکری ریاست کی شکل کیسے اختیار کی، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ابتدا سے ایک طرف بورژوا طبقہ اتنا کمزور تھا کہ وہ قومی قیادت فراہم نہ کر سکتا تھا۔ مزدور تحریک کو میچور ہونے میں وقت لگا۔ یہی وجہ ہے کہ جب عوامی تحریک نے ملک سے آمریت کا خاتمہ کرتے ہوئے پہلے جمہوری انتخاب کی راہ ہموار کی تو بورژوا قیادت نے فوج کے ساتھ مل کر ملک توڑ دیا، قتل عام کیا مگر جمہوری فیصلہ قبول نہ کیا۔ پانچ سال بعد در انقلاب کی شکل میں ضیا آمریت نے عوامی اورمزدور تحریک کو جبر کے ساتھ ایسا کچلا کہ اب تک حقیقی عوامی قوتیں مرکزی دھارے میں کسی متبادل کے طور پر نہیں ابھر سکیں۔

ایک عوامی جمہوری تحریک کا فقدان ملک میں کمزور جمہوریت کی دوسری بڑی وجہ ہے۔

شہباز شریف کی نئی حکومت نہ صرف مرتی ہوئی جمہوریت کی علامت ہے بلکہ جس قسم کا نیو لبرل ایجنڈا مہنگائی، بیرونی قرضوں، نجکاری، بجلی کے ہوشربا بلوں، تیل کی خوفناک قیمتوں کی شکل میں لاگو کرے گی اس کے نتیجے میں لوگ جمہوریت پر ہی اعتبار کھو بیٹھیں گے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔