خبریں/تبصرے

7ماہ میں 17 مقدمے: علی وزیر اگست سے تاحال جیل میں ہیں

لاہور(جدوجہد رپورٹ) سابق ممبر قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کے خلاف پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، صوبہ پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں گزشتہ سال اگست سے رواں سال مارچ کے 7ماہ کے دوران 17مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ 16مقدموں میں ضمانت حاصل کرنے کے باوجود علی وزیر 17ویں مقدمے میں اس وقت جیل میں ہیں۔ گزشتہ 7ماہ سے علی وزیر کو مختلف جیلوں میں قید رکھا گیا ہے۔

علی وزیر کو 3اگست2024کو اسلام آباد میں گرفتار کرنے کے بعد مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اسلام آباد میں تین انسداد دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے گئے۔ پنجاب میں راولپنڈی میں دو مقدمے 3ایم پی او کے درج کیے گئے، گجرات میں 3ایم پی او کے تحت 2مقدمے، بھکر میں 3ایم پی او کا ایک اور سرگودھا میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایک ایف آئی آر میں انہیں پنجاب کی مختلف جیلوں میں قید رکھا گیا۔

اس کے بعد انہیں حب بلوچستان میں پہلے دو بار 3ایم پی او کے مقدموں میں اور پھر 2انسداد دہشت گردی کے مقدموں میں گرفتار کیا گیا۔

سندھ میں سکھر میں دو انسداد دہشت گردی کی ایف آئی آروں میں گرفتار رکھا گیا۔ ان مقدموں میں بھی ضمانت حاصل کرنے کے بعد نوشہرو فیروز میں ایک اور پھر اب نواب شاہ میں ایک دہشت گردی کے مقدمے میں علی وزیر کو گرفتار رکھا گیا ہے۔

اس طرح مجموعی طور پر گزشتہ سات ماہ میں علی وزیر کے جیل میں ہوتے ہوئے ان کے خلاف 10انسداد دہشت گردی کے مقدمے قائم کیے گئے ہیں، جبکہ 7بار انہیں مختلف جیلوں میں 3ایم پی او کے تحت زیر حراست رکھا گیا ہے۔

معروف سیاسی رہنما عصمت شاہ جہاں کے مطابق یہ سارے مقدمے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی مدعیت میں درج ہوئے ہیں اور سب ایف آئی آروں کے لیے ایک سٹینڈرڈ متن تیار کیا گیا ہے۔ صرف ضلع اور مدعی کا نام بدلا جاتا ہے، متین ایک ہی رہتا ہے۔

اکثر ایف آئی آر دہشت گردی اور منشیات کے بنائے گئے، کیونکہ یہ کیسیز انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر ہوتے ہیں، جہاں ضمانت مشکل، اور زرِضمانت یعنی بیل بانڈ زیادہ قیمت کا ہوتا ہے۔

سب مقدمات یکے بعد دیگرے اس وقت بنائے گئے، جس دوران وہ جیل میں ہی تھے۔ یہ مقدمات انتہائی مزاحیہ ہیں، مطلب بندہ خود جیل کے اندر ہے، اور بیک وقت دوسرے شہر میں جا کر اُس نے دہشت گردی بھی کر دی اور منشیات بھی فروخت کر رہا تھا۔ کئی شہر تو علی نے دیکھے بھی نہیں، جہاں ان کو تھری ایم پی کے تحت زندان میں بند کیا گیا، کہ وہاں ان کی موجودگی سے شہر کو خطرہ تھا!

اس وقت تمام مقدمات میں علی کی ضمانت ہو چکی ہے، سوائے نوابشاہ کے کیس میں۔ علی وزیر اس وقت سکھر جیل میں ہیں۔

یاد رہے کہ سندھ میں علی وزیر پر انسداد دہشت گردی کے مقدمے اس لیے درج کیے گئے ہیں کہ ان کی تقریر کوئی نامعلوم افراد ٹیبلٹ پر سن رہے تھے، جہاں پولیس نے ٹیبلٹ پر علی وزیر کو تقریر کرتے ہوئے تو دیکھ لیا، لیکن تقریر سننے والوں کو نہیں دیکھ سکی۔ اس وجہ سے علی وزیر کے خلاف مقدمے قائم کیے گئے کہ ان کی وہ تقریر ملک دشمن تھی، جو نامعلوم افراد سن رہے تھے۔ حیرت انگیز طور پر پولیس افسران نے چند انچ کے ٹیبلٹ پر علی وزیر کو تقریر کرتے ہوئے تو دیکھ لیا، لیکن ہر بار 20، 25افراد کو یہ تقریر سنتے ہوئے نہیں دیکھ سکی۔ اس طرح علی وزیر جیل کے اندر رہتے ہوئے اس لیے مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، کیونکہ ان کی تقاریر مبینہ طور پر لوگ موبائل فون یا ٹیبلٹ پر سن رہے ہیں۔

عصمت شاہ جہاں کے مطابق علی وزیر کے علاوہ، پی ٹی ایم کے دوسرے رہنماؤں حاجی صمد اور ملک نصیر کوکی خیل پر جھوٹے مقدمات کی صورتحال بھی اسی طرح ہے۔ انہیں بھی جیل در جیل ریاستی مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے۔ اس طرح تحریک کو ضلعی انتظامیہ اور عدالتی ہتھکنڈوں سے تھکایا جا رہا ہے، اُس کے مالی وسائل اور کارکنان کا وقت اور انرجی ضائع کی جا رہی، اور ساتھ ہی ساتھ میں تحریک کو بھی غیر فعال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

قانون اور انصا ف کے نام پر اس طرح کے مذاق کی شاید ہی تاریخ میں کوئی اور مثال ملتی ہو۔ سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنان علی وزیرکو فوری اور غیر مشروط رہا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts